قرآن کریم : پارہ 25 ( اِلَیْہِ یُرَدُّ) خلاصہ

اِلَیْہِ یُرَدُ ‘قرآن کریم کاپچیسواں (25) پارہ ہے ۔ اِلَیْہِ یُرَدُّ کامطلب ہے ’’اللہ ہی کے پاس ہے ‘‘ ۔ اس پارہ میں
سُوْرَۃ حٰمٓ السَّجْدَۃ یا سورۃ فصّلت کی 8آیات، سُوْرۃٓ الشُّورٰی ( مکمل)، سُوْرۃٓ الزُّخْرُفِ ( مکمل)، سُوْرۃٓ الدُخَانِ( مکمل) ، سُوْرۃٓ الْجَا ثِیَۃِ ( مکمل) شامل ہیں ۔

سُوْرَۃ حٰمٓ السَّجْدَۃ یا سورۃ فصّلت ( آخری8آیات)
سُوْرَۃ حٰمٓ السَّجْدَۃ کی آ خری آٹھ آیات پچیسویں پارہ میں ہیں ۔ اس سے پہلے کی آیات کا خلاصہ سابقہ پارہ میں بیان کیا جاچکا ہے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ قیامت کے وقت کا ذکر کررہا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ وہ گھڑی کب آئے گی ، وہ تواس با ت سے بھی واقف ہے کہ کون سی مادہ حاملہ ہوئی اور کس نے بچہ پیدا کیا ۔ یعنی اللہ تعالیٰ صرف قیامت ہی نہیں ، کس بچے نے کب اورکس کے گھر پیدا ہونا ہے سے بھی بہ خبر ہے بلکہ تمام اُمور کا علم اللہ کو ہے ، اس کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں ۔ کفر کرنے والوں کے لیے بھیانک عذاب اور انہیں گندے عذاب کا مزا چکھانے کے لیے کہا گیا ہے ۔ آیت 53 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ و کائینات اور خود انسان کی ذات کے اندر جوراز ہیں ان کے باے میں انہیں مطلع فرمائے گا اور یہ راز جب کھلیں گے تو ہر کوئی جان لے گا کہ یہ کتاب برحق ہے‘‘ ۔ انسان کی فطرت ناشکری کی ہے ، جب اسے خوشی میسر آتی ہے تو وہ تکبر کرنے لگتا ہے لیکن جب کسی پریشانی میں گرفتار ہوجاتا ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے ۔ اللہ نے فرمایا آخری آیات میں ’’ عنقریب ہم ا ن کو اپنی نشانیاں آفاق (دنیا) میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی دکھائیں گے، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ بے شک یہ قرآن واقعی برحق ہے، کیا یہ بات کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز کا شاہد ہے ،آگاہ رہو ،بے شک وہ لوگ اپنے رب کی ملاقات میں شک میں ہیں ، خبر دار ! بے شک وہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ‘‘ ۔

سُوْرۃٓ الشُّورٰی ( مکمل)
سُوْرۃٓ الشُّورٰیمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے بیالیسویں ;40*41;اور نزولِ ترتیب کے اعتبار62ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 5رکو ،53آیات ہیں ۔ سُوْرۃٓ الشُّورٰی کے موضوعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہَ حٰم سجدہ کے موضوعات سے بہت زیادہ مطابقت رکھتی ہے، اس میں سرداراں ِ قریش کی مخالفت پر اللہ تعالیٰ نے سخت باتیں کی ہیں ۔ سورہ میں کفار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ تم نبیﷺ کے بارے میں جس قسم کی بیہودہ باتیں کر رہے ہو وہ کوئی نئی نہیں ، تم سے پہلے بھی ایسی باتیں نبیوں کے بارے میں ہوتی رہی ہیں ۔ ان سب کا نتیجہ ان نبیوں کی قوموں پر عذاب ہی تھا ۔ ایمان لانے والے ہر صورت محفوظ رہے ۔
سورہ کا آغاز حروفِ مقطعات سے ہوا اور اللہ کی کبریائی اور حکمت کا بیان ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’اللہ زبردست غالب و حکمت والا ہے ، آپ ان لوگوں کی طرف ،جو آپ سے پہلے تھے ، اس طرح وحی کرتا ہے، اسی کاہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے اور وہ بلند مرتبہ بڑی عظمت والا ہے‘‘اللہ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے وہ اگر چاہے تو کفر کرنے والوں ، اس کے خلاف غلط باتیں کرنے والوں ، نبیﷺ کے بارے الزام لگانے والوں ، ان پر ذیادتی حملہ کرے والوں کو فوری سزا دے سکتا ہے لیکن کفار کو ایک خاص وقت تک مہلت دینا، اس کی رحمت و مغفرت کی خاص بات ہے، قرآن کریم کو عربی میں نازل کرنے کا کہا ، پھرآیت7 میں فرمایا نبی ﷺ سے کہ اہل مکہ اور اس کے گرد و پیش والوں کو ڈرائیں اور آپ جمع ہونے کے دن سے ڈرائیں جس میں کوئی شک نہیں ، ایک گروہ جنت میں ہوگا اور دوسرا بھڑکنے والی آگ میں ‘‘پھر آیت 15 میں کہا نبی ﷺ سے کہ ’آ پ اسی دین کی جانب سب کو بلائیں اور ثابت قدم رہیں ، جیسے آپ کو حکم دیا گیاہے ، ان کی خواہشات کی پروہ نہ کریں ، کہہ دیجئے جو کتاب بھی نازل کی ہے ، میں اس پر ایمان لایا ہوں اورمجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں انصاف کروں ، اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے ، ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ، ہمارے اور تمہا رے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ، اللہ روز قیامت ہم سب کو جمع کرے گا، اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘ ۔ سورہ میں رسالت اور وحی کے موضوعات کا بیان ایک خاص تسلسل سے کیا گیا ہے ۔ نبی آخر الزمان محمد ﷺ کی قریش سے رشتہ داریاں تھیں ، اللہ نے آیت 23 میں کہا نبی ﷺ سے کہ آپ کہہ دیجئے، چنانچہ آپ نے انہیں یاد دیہانی کرائی کہا کہ میں تم سے وعظ و نصیحت اور تبلیغ و عوت کی کو ئی اجرت نہیں مانگتا ۔ میرے اور تمہارے درمیان جو رشتے داری ہے ، اس کا لحاظ کرو، میری عوت کو نہیں مانتے نہ مانو، تمہاری مرضی، لیکن مجھے نقصان پہچانے سے تو باز رہو، آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ تم میرے دوست اور بازو نہیں بن سکتے تو رحم وقرابت کے ناتے مجھے ایذا نہ پہنچاوَ اور میرے راستے کا پتھر تو نہ بنو تاکہ میں رسالت کا فریضہَ تو ادا کرسکوں ۔ نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادت میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، مشورہ کرنا اہل ایمان کے عمل کا حصہ ہے، وہ اپنی رائے کو حتمی اور حرف آخر نہیں سمجھتے بلکہ مشورہ کرنے پر یقین رکھتے ہیں آیت38 میں اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ خودنبی ﷺ کو بھی اللہ نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے مشورہ کیاکریں ، آپ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضہ اللہ عنہ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے وقت باہمی مشورہ ہوا اور لوگوں سے بھی مشاورت کی گئی ۔ کہا گیا کہ برائی کا بدلہ ویسی ہی براہی ہے لیکن جو معاف کردے اور صلح کرلے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے ، بلا شبہ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔ قیامت کے دن کا ذکر کرتے ہوئے آیت 47 میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے’’تم اپنے رب کا فرمان قبول کرلو اس سے پہلے کہ اللہ کی طرف سے وہ دن آجائے جو کسی بھی طرح ٹالا نہ جاسکے اس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی اور نہ تم سے گناہوں کا انکار ہی بن پڑے گا‘‘ ۔ کچھ بھی دینے کا اختیار صرف اور صرف اللہ کو ہے،جسے چاہے صرف بیٹیاں عطا کردے ، جسے چاہے صرف بیٹے عطا کردے، یا دونوں عطا کردے ۔ اور یہ بھی کہ جسے چاہے بے اولاد رکھے ، یہ تفصیل آیت 50 میں بیان ہوئی ہے ۔ آیت 51 میں وحی کی تین صورتیں بیان کی ،ایک ،دل میں کسی بات کا ڈال دینا، خوا ب میں بتلا دینا اس یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے، ۔ دوسری یہ کہ پردے کے پیچھے سے کلام کرنا ، جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور میں کلام کیا گیا ۔ تیسری صورت یہ کہ فرشتے کے توسط سے اپنی وحی بھیجنا ، جس طرح جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آتے اور نبی ﷺ کو سنایا کرتے، اسی طرح وحی پہلے انبیاء پر بھی آتی رہی ہے ۔ اللہ نے قرآن کو روح سے تعبیر کیا ، اس کی وجہ یہ کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے ۔ آخری آیت میں کہا گیا کہ اللہ کا راستہ جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز کا مالک ہے ، آگاہ رہو! اللہ ہی کی طرف تمام معاملات لوٹتے ہیں ، یعنی قیامت والے دن تمام معاملات کا فیصلہ اللہ ہی کی عدالت میں ہوگا ۔

سُوْرۃٓ الزُّخْرُفِ ( مکمل)
سُوْرۃٓ الزُّخْرُفِمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے تینتالیسویں (43)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار63ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 7رکو ،89آیات ہیں ۔ لفظ ’زخرف‘ سونے اور زینت کے معنی میں آتا ہے ۔ یہ سورہ اُسی دور کے حالات اور واقعات کی نشاندھی کرتی جب مکہ کے کفار نبی ﷺ کے بارے میں ، یہاں تک اللہ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ۔
آغا ز حروف مقطعات حٰم سے ہوتا ہے، اواضح کتاب کی قسم کھائی اللہ نے، پھر ’’کہا کہ ہم نے اس کو عربی زبان کا قرآن بنایا، تم سمجھ لو، یقینا یہ لوح محفوظ میں ہے اور ہمارے نزدیک بلند مرتبہ حکمت والی ہے‘‘ ۔ یعنی یہ آیت قرآن کی عظمت اور شرف بیان کرتی ہے،
مکہ کے کفار جس عقیدہ کے پیروکار تھے، جن کو انہوں نے اپنا معبود بنایا ہوا تھا، سوال ہوا کہ انہوں نے کس مذہب کو اپنا یا ہوا ہے، اس کی حقیت بیان کی گئی ہے ۔ اللہ نے فرما یا آیت8 میں کہ ہم نے کتنے ہی نبی اگلے لوگوں میں بھیجے ، جو نبی اس کے پاس آیا انہوں نے اس کا مذاق اڑایا ، پس ہم نے ان سے زیادہ زور آور کو تباہ کر ڈالا ، یہاں اہل مکہ کے لیے انہیں ہوشیار کرنے والی بات تھی کہ پچھلی قو میں رسولوں کی تکذیب کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ، اگر یہ بھی ان کے نقشہ قدم پر چلے تو یہ بھی ہلاک کردیے جائیں گے ۔ آیات12-10 میں کائینات میں قدرت کی نشانیوں ، دلائل قدرت کا بیان ہے ۔ اللہ نے کائینات میں موجود چیزیں جو اس نے پیدا کیں ان کا ذکر کیا جیسے زمین و آسمان ، راستے، بارش ، بارش کے پانی سے بنجر زمین کو سیراب کیا جانا ،اس کی مثال مردہ شہر کو زندہ کردینے جیسے ہے، انسان کا قبر سے اٹھائے جانا، جوڑے پیدا کرنا، سواری کے لیے کشتیاں اور چوپائے تاکہ انسان ان سب سے مستفید ہو ۔ اس کے بعد اللہ کہتا ہے کہ ’’جب تم ان پر متوازن ہوکر بیٹھ جاوَ تو تم اپنے رب کی نعمت یاد کرواور تم کہو : وہ اللہ ہے جس نے اسے ’’ہمارے لیے تابع کردیا ورنہ ہم اسے قابو میں کرلینے والے نہیں تھے‘‘، یہ الفاظ سفر کی دعا کے طور پر بھی پڑھے جاتے ہیں ۔ یہاں کہا گیا کہ ’’اور بنایا تمہارے لیے ’’مِنَ الْفُلْکِ‘‘ یعنی کشتیوں اور جانوروں کو سواری‘‘ ۔ پھر وہ دعا کے الفاظ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سکھائے جو سفر کی دعا ہے ۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سواری پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ اَللّٰہُ اََ کْبَر کہتے اور سُبْحٰنَ الَّذِی سے لَمُنقَلِبُونَ تک آیت پڑھا کرتے اس کے بعد خیر و عافیت کی دعا مانگا کرتے ۔
کفار کی جہالت اور اسلام سے قبل اہل کفار کی ظالمانہ ، قابل نفرت عمل کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ آیت 16-15 میں بیان کیا گیا کہ بیٹیاں کفار کے لیے نا پسندیدہ ہی نہیں بلکہ قابل نفرت تھیں ، جس کسے کے ہاں بیٹی ہوتی تو خوشی کے بجائے افسوس ، غم اور دکھ کی آوازیں بلند ہوتیں ،اسے چھپاتے پھرتے ،یہی نہیں بلکہ وہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی تدبیریں سوچنے لگتے ۔ دوسری جانب یہی کفار بیٹیوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دے کر ان کی پوجا کیا کرتے، اللہ نے کفار کی اس بیہودہ سوچ کی سخت مذمت کی اور قرآن نے بیٹی کو اس کا وہ مقام دیا جو اس کے شایانِ شان ہے ۔ آیت 30 میں ان نعمتوں کا ذکر ہوا جو اللہ نے عطا کیں ، پھر نعمتوں کے بعد عذاب کی جلدی نہیں کی بلکہ انہیں پوری مہلت دی ۔ اس سورہ میں حق سے مراد نبی کریم ﷺ ہیں ، رسول کی صفت بات کو واضح ،صاف صاف بیان کرنا ہے ، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ کفار کی ا س فضول بات کی جانب اشارہ ہے اگلی آیت31 میں ’’انہوں نے (کفارنے) کہا کہ یہ قرآن ان دونوں شہروں میں سے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہیں کیا گیا;238;، یہاں دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طاءف ہیں اور بڑے آدمی سے مراد بعض مفسرین کے مطابق مکہ کا ولید بن مغیرہ اور طاءف کا عروہ بن مسعود ثقفی ہے ۔ ا س کے جواب میں اللہ کا فرمان ہے کہ جب رزق کی تقسیم میں ان کاکوئی اختیار نہیں تو بنوت جیسے عظیم منصب کی تقسیم اور انتخاب میں انہیں کوئی اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرعون نے بھی یہی کہاتھا کہ میں موسیٰ سے بہتر ہوں اور یہ مجھ سے کمتر ، یہ تو صاف بول بھی نہیں سکتا، اس لیے کہ موسیٰ علیہ السلام کی زبان میں لکنت تھی، یہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ہے جو پہلے بھی بیان ہوچکا ہے ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے نبی ﷺ ان سے عفو و در گزر کیجئے اور کہہ دیجئے : سلام ہے ، انہیں عنقریب انجام معلوم ہوجائے گا ۔

سُوْرۃٓ الدُخَانِ( مکمل)
سُوْرۃٓ الدُخَانمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چوالیسویں (44)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار64ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،59آیات ہیں ۔ اس سورہ کے نزول کا تاریخی پس منظر مفسرین نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ مکہ کفار کی سورشیں حد سے زیادہ بڑھ گئیں ، کسی طرح وہ قابو میں نہیں آرہے تھے ، اللہ کے نبیﷺ نے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب ! یوسف علیہ السلام کے قحط جیسے ایک قحط سے میری مدد فرما ۔ حضور کا خیال تھا کہ جب مکہ کے لوگ قحط سے پریشان ہوں گے تو وہ خدا کو یاد کریں گے، ان کے دل اس جانب مائل ہوں گے کہ اللہ ہی اس آفت کو دور کرسکتا ہے، چنانچہ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور مکہ میں ایسا قحط پڑا کہ اہل مکہ بل بلا اٹھے، سارے جتن کیے لیکن مشکل کم نہ ہوئی آخر حضور اکرم ﷺ کی جانب رخ کیا، خاص طور پر ابو سفیان اور دیگر سردار آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے التجا کی کہ اپنی قوم کو اس مشکل سے نجات دلانے کے لیے اللہ سے دُعا کریں ، یہی موقع ہے جب اللہ نے سُوْرۃٓ الدُخَان نازل فرمائی ۔
سورہ کا آغاز حروفِ مقطعات حٰمْ سے ہوتا ہے ۔ واضح کتاب کی قسم کہا کر اللہ نے فرمایا ’’بلاشبہ ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں نازل کیا‘‘ ۔ بابرکت رات سے مراد شب قدر ہے ، یہ بات سورہ القدر میں بھی اللہ نے فرمائی ’’ہم نے یہ قرآن شب قدر میں نازل فرمایا‘‘ ۔ یہ شب قدر رمضان المبارک کے عشرہَ اخیر کی طاق راتوں یعنی29,27,25,23,21، اس رات کی برکت کا کیا کہنا ، قرآن کا نزول، اسی رات فرشتوں اور روح کا نزول ہوتا ہے، سارے سال میں ہونے والے واقعات کا فیصلہ ہوتا ہے، اس رات کی عبادت ہزار مہینے (83سال 4ماہ) کے برابر ہے ۔ توحید کا بیان ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، قیامت کا ذکر ہے جب آسمان پر دھویں کے بادل چھائے ہوں گے، اپنے جلیل القدر پیغمبربھیجے اور اس کی قوم کا نافرمان ہونے کا تذکرہ ہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے ۔ نبی ﷺ کے دور کے فرعونوں کو موسیٰ کے دور کے ظالم فرعون سے ڈرایا گیا جو اپنے دور کا طاقت ور ترین، دولت مند ، مغرور اور ظالم تھا اس کا انجام برا ہی ہوا ۔ کفارکا انجام ، ساتھ ہی اہل ایمان و تقویٰ کا مقام بیان کیا گیا جنہوں نے اپنا دامن کفر و ریق اور معاصی سے بچائے رکھاتھا ۔ آخری آیات میں کہا گیا نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے، اے نبی! ہم نے اس قرآن کو آپ کی زبان میں آسان کردیا ہے ،تاکہ ہ وہ نصیحت پکڑیں ، لہٰذا اب آپ انتظا ر کیجئے ، بلاشبہ وہ بھی منتظر ہیں ‘‘ ۔

سُوْرۃٓ الْجَا ثِیَۃِ ( مکمل)
سُوْرۃٓ الْجَا ثِیَۃِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے پینتالیسویں (45)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار65ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 4رکو ،37آیات ہیں ۔ جاثیہ کا مطلب ہے ’گھٹنوں کے بل بیٹھنا‘ اس وجہ سے اس کا نام ہی جاثیہ ہے ۔ دیگر موضوعات میں توحید اور آخرت کے بارے میں کفارِ مکہ کے شکوک و شبہات ، اعتراضات اور ان کا جواب ہے، انہیں متنبہ کیا گیا ہے ۔
آغاز حروفِ مقطعات حٰمْ سے ہوتا ہے ۔ ’’کتاب کا نزول اللہ کی جانب سے ہے جو بڑا زبردست ، نہایت حکمت والا ہے، آسمانوں اور زمین میں مومنوں کے لیے واقعی نشانیاں ہیں ‘‘ ۔ توحید کے دلائل دئے گئے ہیں ، کائینات میں پیدا چیزوں کا تذکرہ ہے،وہ لوگ اللہ کا پاک کلام سننے کے بعد بھی منکر رہتے ہیں ، وہ ایسے ہوجاتے ہیں جیسے وہ کچھ سن ہی نہیں رہے ، ان کی اصل حقیت بیان کی گئی ہے ۔ بنی اسرائیل کو کتاب دی گئی، اس کے ساتھ حکمت، بنوت ، پاکیزگی، معجزات، روزی اور دیگر اقوام پر فضیلت اور عزت دی ، انہوں نے شکر کرنے کے بجائے وہ سرکش بن گئے، بنی کو جھٹلایا، اللہ کے پیغام کو جھٹلایا، نبی کو جادو گر ناجانے کیا کیا کہا، یہاں تک کہ ا نہیں قتل کرنے کے درپہ ہوگئے، اللہ تعالیٰ سابقہ ادوار کے اور نبیوں کے واقعات ، نبیوں پر رحمتوں کا ذکر، اپنی نوازشوں کا ذکر ، ساتھ ہی ان کی حد سے بڑھ جانے والی گستاخیوں اور برائیوں کے جواب میں انہیں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کردینے کے واقعات بھی اللہ ان کی اصلاح کے لیے کرتا ہے ۔ تاکہ وہ نیک راہ پر آجائیں ، قرآن بار بار روز قیامت پر ایمان لانے کی تاکید کرتا ہے ، یہ وہ دن ہوگا جب ہر ایک کو اس کے اچھے اور برے اعمال کا بدلہ مل کر رہے گا ۔ جاثیہ کا مطلب ہے ’گھٹنوں کے بل بیٹھنا‘ چونکہ روز قیامت ، لوگ خوف ، پریشانی، ہیبت کی وجہ سے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے اور اس سورہ میں اس خوفنات منظر کا بیان ہے،آیت 28 میں کہا گیا جس دن قیامت برپا ہوگی ، آپ ہر امت کو گھٹنوں ے بل گرا ہوا دیکھیں گے ، ہر امت اپنے نامہ اعمال کی طرف بلائی جائے گی ، انہیں کہا جائے گا کہ آج تمہیں ان اعمال کا بدلہ دیاجائے گا جو عمل تم کرتے رہے تھے‘‘ ۔
اللہ کہیں پیار سے بات کرتا ہے اور کسی جگہ حاکمانہ بھی ہوتاہے ، کہیں ڈرانے اور دھمکانے کی صورت ہوتی ہے ، بس کسی طرح یہ قوم اللہ پر ایمان اور اپنے نبی کو آخری بنی مان لیں ۔ منظر کشی ایسی کی گئی ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پڑھنے والا وہیں موجود ہے ۔ آخر میں کہا گیا کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ، جو آسمانوں کا رب ہے اور زمین کا رب ہے، جہانوں کا رب ہے، اور آسمانوں اور زمین میں اسی کے لیے بڑائی ہے، اور وہی نہایت غالب ، خوب حکمت والا ہے‘‘ ۔
(24رمضان المبارک 1440ھ ،30 مئی2019ء)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278713 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More