صدقہ فطر کے احکام و مسائل ……!

 روزوں کے واجبی و مسنون آداب میں ہوجانے والی کوتاہیوں کی تلافی کے لئے اﷲ تبارک و تعالیٰ نے رمضان المبارک کے اختتام پرصدقہ فطر کو واجب قرار دیا ہے تاکہ تقصیرات و کوتاہی اور گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو خلل واقع ہوا وہ جاتا رہے۔ روزے کی حالت میں جو فضول یا بے ہودہ باتیں زبان سے نکلی یا نظریں بھٹکی، فطرانے کی ادائیگی سے روزہ ان چیزوں سے پاک ہوکر اﷲ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں ایسے مقبول ہو کر پیش ہوتاہے کہ اس کی قبولیت میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ نیزصدقہ فطر کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ صدقہ اﷲ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کا شکرہے کہ اس نے ہمیں رمضان کا مبارک مہینہ عطاء فرمایا، اور روزہ رکھنے ،قیام کرنے اور دیگر عبادات بجا لانے کی توفیق بخشی کیونکہ یہ سب کچھ بغیر توفیق الٰہی کے ممکن نہ تھا۔ حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہر غلام، آزاد، مرد، عورت اور چھوٹے بڑے پر زکوٰۃ فطر (صدقہ فطر) کے طورپر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا ہے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو مسکینوں کا کھانا بتلایا ہے اور فرمایاانہیں عید کے دن سوال کرنے سے بے نیاز کردو۔عید تمام مسلمانوں کی خوشی کا دن ہے لیکن کچھ خاص لوگ اپنی مالی مجبوری کی وجہ سے اس عام ملی تہوار میں شریک نہیں ہو سکتے ، لہٰذاصاحب استطاعت پر صدقہ فطر واجب کیا گیاتاکہ اس صدقہ کے ذریعے محتاج لوگوں سے تعاون کرکے انہیں اس لائق بنا دیا جائے کہ وہ عید کی خوشی کے موقع پر تمام مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکیں۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم کھانے میں سے ایک صاع یا جڑ میں سے ایک صاع یا کھجوروں میں سے ایک صاع یا خشک انگوروں میں سے ایک صاع صدقہ فطر نکالا کرتے تھے (بخاری و مسلم)۔یہاں واضع رہے کہ صاع وزن کا پیمانہ نہیں بلکہ ماپ کا پیمانہ ہے ، البتہ ایک صاع کی مقدار بعض اہل علم دو کیلو چالیس گرام، بعض دو کیلو سوگرام اور اکثر اہل علم پونے تین سیر یعنی تقریبا ڈھائی کیلو بتلاتے ہیں ، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ صدقہ فطر دیتے وقت صاع کا وزن ڈھائی کیلومانا جائے ۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدقہ فطر صرف گندم کے ساتھ خاص ہے ، جبکہ احادیث میں صدقہ فطر چار قسم کی چیزوں سے ادا کرنے کا ذکر ملتا ہے ، ایک کشمش ، دوسرا خشک کھجور ، تیسرا جو، اور چوتھا گندم ۔ جبکہ ہر وہ مسلمان جس کی ملکیت میں پانچ چیزوں (سونا، چاندی، نقد رقم، مال تجارت اور ضرورت سے زائد اشیاء) میں سے کوئی ایک یا ان پانچوں کا مجموعہ ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت کے بہ قدر ہو ، خواہ اس نصاب پر پورا سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو، تو اس پر اپنی طرف سے اور زیر کفالت نابالغ بچوں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب ہے ۔اور ایسے شخص کے لیے جو کہ مذکورہ بالا نصاب کا مالک ہو زکوٰۃ، صدقہ فطر اور صدقات واجبہ لینا جائز نہیں۔ مرد کے ذمے نابالغ اولاد کے علاوہ کسی اور رشتے دار مثلا بیوی، بالغ اولاد، بہن، بھائی غرض کسی بھی دوسرے رشتے دار کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں اگرچہ یہ اس کے زیر کفالت ہی ہوں، البتہ بالغ اولاد اور بیوی کا فطرانہ ان سے اجازت لیے بغیر ادا کر دیا تو ادا ہو جائے گا بہ شرط یہ کہ بالغ اولاد اس کے عیال میں ہو۔ اسی طرح ماں کے ذمے بچوں کا صدقہ فطر لازم نہیں، خواہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہو۔ اگر عورت خود صاحب نصاب ہو تو صدقہ فطر کی ادائیگی کی خود ذمے دار ہے شوہر کے ذمے لازم نہیں، تاہم اگر شوہر بیوی کی طرف سے ادا کردے تو صدقہ فطر ادا ہو جائے گا اور اگر عورت نصاب کی مالک نہیں تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں۔جن لوگوں نے سفر یا بیماری کی وجہ سے یا غفلت کی وجہ سے روزے نہیں رکھے ، صدقہ فطر ان پر بھی واجب ہے اگر وہ صاحب نصاب ہیں۔

صدقہ فطر عید کا چاند نظر آنے کے بعد واجب ہوتا ہے اور اس کا وقت عید کی نماز تک رہتا ہے ، البتہ صدقہ فطر کا بہتر وقت عید کی صبح نماز عید کے لئے جانے سے قبل ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کا یہی وقت متعین فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں فطرانہ سے متعلق حکم فرمایا کہ اسے لوگوں کے نماز عید کی طرف جانے سے پہلے ادا کردیا جائے ، اور جو شخص نماز کے بعد ادا کرتا ہے تو اس کا شمار عام صدقات میں ہوگا ، ہاں اگر کوئی مصلحت پیش نظر ہو تو دو ایک دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے ۔ موطا ابن مالک میں ہے کہ ابن عمر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا فطرانہ عیدسے دو دن قبل صدقہ فطر وصول کرنے والوں کو دے دیا کرتے تھے ۔ اگر کسی نے نہ رمضان میں ادا کیا اور نہ عید کے دن ، تو بعد میں بھی اد ا کرنا اس کے ذمے واجب رہے گا معاف نہیں ہو گا۔ صدقہ فطر کو اس کے صحیح شرعی مصرف میں لگانا صدقہ فطر ادا کرنے والے کی شرعی ذمے داری ہے ۔ صدقہ فطر صرف ان غریبوں کو دیا جاسکتا ہے جنہیں زکوٰۃ دینا درست ہو یعنی جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر سونا، چاندی، نقدی رقم، مال تجارت، اور ضرورت سے زیادہ سامان نہ ہو تو اسے صدقہ فطر دیا جاسکتا ہے ۔جبکہ جن لوگوں سے یہ پیدا ہوا جیسے ماں، باپ، دادا، دادی اور اسی طرح جو اس کی اولاد ہیں جیسے بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ ان کو صدقہ فطر دینا جائز نہیں، اسی طرح بیوی شوہر کو اور شوہر بیوی کو صدقہ فطر نہیں دے سکتے۔ اس کے علاوہ باقی سب رشتہ داروں کو دیا جاسکتا ہے جبکہ وہ مستحق ہوں، بلکہ مستحق رشتے دار کو دینے کا دوہرا ثواب ہے ایک صلہ رحمی اور دوسرا وجوب کی ادائیگی ۔ جن لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے توفیق دی ہے ان امیر افرادکو گندم پر انحصار کرنے کی بجائے اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ فطر ادا کرنا چاہئے ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ غریب غربا کی حاجت پوری ہو اور وہ عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکیں۔
٭……٭……٭
 

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817139 views Journalist and Columnist.. View More