ٔ٭ ماہ صیام کے ابتدائی دنوں میں بڑی خوشی محسوس ہو رہی
تھی کہ چلو شیطان تو اﷲ کے ہاں زنجیروں میں جکڑ گیا ہے ۔ رمضان ہے لوگوں کے
دلوں میں ایک دوسرے کیلئے ہمدردی اور احساس بڑھ جائے گا۔ اب کوئی شیطان
بہکانے والا نہیں کم از کم اس ماہ امن اومان بحال ہوگا۔ ایک دوسرے کا درد
محسوس کرنے ، نفلی اور فرضی عبادات ادا کرنے کی تربیت ہو جائے گی۔
٭ ابھی اس خوشی کی انتہا باقی نہ رہی تھی سننے میں آیا ہے کہ آشیائے خورد
ونوش کی قیمتوں میں اضافہ خاص کر پھلوں کی قیمتیں آسمان سے جا ٹکرا ئیں۔
جسے ایک غریب خریدنے کی سوچ بھی نہیں سکتا ۔ گیس اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ،
پانی کا بحران ، درخت نہ ہونے کی وجہ سے گرمی کی شدت اور ہیٹ سڑوک سے بے
شمار لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے۔ یہ سُن کر بے اختیار منہ سے نکلا ( یا اﷲ
شیطان تو موجود نہیں رمضان میں اس بے راہ روی اور روزہ داروں کوبہکانے والا
آخر کون ؟؟؟
ارشاد ربانی ہے۔
٭ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کر دئے گئے جس طرح تم سے پہلے
انبیاء کے پیرؤوں پر فرض کئے گئے اس سے توقع ہے کہ تم میں تقوی کی صفت پیدا
ہو۔( البقرہ :183 )لیکن اس تقویٰ سے روکنے والی شے انسان کا اپنا نفس ہے جو
گناہوں کا اتنا عادی ہو چکا ہوتا ہے کہ اُسے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ غلط
کر رہا ہے۔ دراصل خارجی نفس تو جکڑا گیا مگر اندرونی نفس شیطانی منقوں کو
زندہ رکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں نفس کی تین قسمیں بیان کی
گئی ہیں۔
نفس امارہ: جو انسان کو بُرائی کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
نفس لوامہ:۔ جو انسان کو برائی کرنے پر ملامت کر تا رہتا ہے۔
نفس مطمئنۃ: جو انسان کو برائی نہ کرنے پر ثابت قدم رکھتا ہے اوراسپر مطمئن
کر تا ہے۔
جب نفس امارہ گناہ کرتے کرت گناہوں کا ہی عادی ہو جائے تو اُسے کسی چیز کی
فکر نہیں رہتی نہ تو نفس لوامہ کام دیتا ہے اور نہ ہی نفس مطمئن ہوتا ہے۔
نفس امارہ ہی لوگوں کو روزہ میں بھی تقویٰ اختیار نہیں کرنے دیتا بلکہ بلا
عذر مسائل کھڑے کرنے لگتا ہے نبی کریم ؐ نے فرمایا:۔
’’ جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزہ رکھا اُس کے پچھلے گناہ معاف کر
دئیے جائیں گے۔‘‘
٭ ایمان یہ ہے کہ تمہیں رب کا ڈر ہو اور عقیدہ و نسخہ ہونے کے ساتھ حقوق
العباد کا احساس ہو اور احتساب خود کا جائزہ ہے
کہ تم روزے کا حق ادا کررہے ہو یا نہیں کیونکہ انسان کے ہاتھ پاؤں ، زبان
یہانتک کے پورے بدن کا روزہ ہوتا ہے اور تقویٰ تبھی پیدا ہوتا ہے جب اپنے
ہاتھ کو بدلے سے روک لیا جائے کہ میرا روزہ ہے زبان کو بدکلامی سے دور کر
لیا جائے کہ میرا روزہ ہے۔ پاؤں غلط طرف جانے سے رُک جائیں کہ اﷲ کیلئے
میرا روزہ ہے یہی احتساب پر ہیزگاری پیدا کرتا ہے۔ اگر روزہ کے باوجود نفس
پر قابو نہ ہو تو نبی کریم ؐنے فرمایا:۔
٭ ’’ اﷲ اب العز ت کو تمارے بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی غرض نہیں گر تقوی نہ
ہو،گناہوں سے بچنے کی کوشش نہ ہو کیونکہ رمضان تو باﷲ و حصول تقوی ٰ کی
کوشش اتفاق فی سبیل اﷲ ۔ اخلاق حسنہ، احسان ایثار کی کوشش کرنا ہے تاکہ
انسان کی عملی تربیت ہو۔
٭ رمضان میں موجودہ مسائل کی بنیاد ی وجہ ان حصولوں کیلئے کوشش چھوڑنا اور
لاپرواہی برتنا ہے۔ مہنگائی کی وجہ پوچھنے پر سننے کو ملتا ہے کہ ہم عید
کیلئے کہاں سے کمائیں کہاں سے لائیں ۔ اپنی عورتوں اور بچوں کی خواہشوں
کیلئے اتنی مہنگی خریداری کہاں سے کریں گے۔ ہر برینڈ کو تو آگ لگا دی جاتی
ہے اب ہم اس مسئلے کی خاطر شہریوں کو پریشان کرنے پر مجبور ہیں۔خدا را تم
سب رمضان کے تقدس کو کیوں بھول گئے کہ تو برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے ۔
رزاق کی صفت تو اﷲ کی ہے وہی رزق دینے والا ہے ان مسائل کو پیدا کر کے تم
رحمت و برکت نہیں سمیٹ رہے۔ توکل اﷲ پر ہونا چاہئے، مومن مایوس نہیں ہوتا
اور نہ ہی غلط روش اختیار کرتا ہے۔ بجلی اور گیس عین سحری و افطار کے وقت
بند کرنے سے کے۔ ای اور ایس ایس جی نیکیاں نہیں سمیٹ رہے۔ اﷲ انہیں کے لئے
آسانیاں پیدا کرتا ہے جو اُس کی خلق کیلئے آسانیاں پیدا کرتا ہے رہی پانی
کی کمی تو رب کائنات نے اتنے بڑے سمندر سے نوازا ہے ۔ کراچی میں پانی کی
فراوانی اتنی ہو جائے کہ ایک دن بھی پانی کے بحران کونا سہنا پڑے۔ اگر
نمکین سمندروں میں سینیٹیشن پلانٹس لگا دئے جائیں مگر پیٹ بھرنے سے فرصت
ملے تو عہدیدار سنیں۔!!
٭ ہر سال بڑھتی گرمی کی شدت سے نمٹنے کیلئے اُن تمام درختوں کو شاہراہوں سے
ہٹایا جائے جو نمی کو جذب کر رہے ہیں اور ان کی جگہ نیم اور مختلف قسم کے
درخت لگائے جائیں اس کام کو انجام دینے کیلئے حکومت سے رابطہ کرنے سے بہتر
ہے کہ متحد ہو کر اس فریضہ کو انجام دیا جائے کیونکہ سندھ گورنمنٹ نے اپنے
کانوں پر ہاتھ دھرے ہوئے ہیں کہ انہیں کچھ سنائی نہیں دیتا اگر کراچی کے
کچھ فیصد نوجوان متحد ہو کر درخت لگانا شروع کر دیں تو اس مسئلے سے عنقریب
نجات حاصل کی جا سکتی ہے کم از کم ماحول کو خوشگوار کیا جا سکتا ہے۔ البتہ
راہنمائی اور حوصلہ کی ضرورت درپیش ہے اگر ان نوجوان کی سوچ بدل دی جائے تو
ایسے حکمران عائد ہو سکتے ہیں جو پاکستان کو سنبھالنا جانتے ہیں اور ان
تمام مسائل کا حل ا ُنکے پاس موجود ہے۔
شھر الرحمۃ الغفران شھر الصوم والقرآن۔( کنزالعمال)
’’آمین‘‘ |