قرآن کریم : پارہ 26 (حٰمٓ ) خلاصہ

ٓحٰمُ ‘قرآن کریم کاچھبیسواں (26) پارہ ہے ۔ اس پارہ میں چھ سورتیں ہیں ان میں سُوْرَۃُ الْاحْقَاف،، سُوْرۃٓ مُحَمَّد

، سُوْرۃُ الْفَتْح ، سُوْرۃُ الْحُجُرٰت، سُوْرۃُ ق ، سُوْرۃُ الذّٰرِیٰتِ شامل ہیں ۔

سُوْرَۃُ الْاحْقَافِ

سُوْرَۃُ الْاحْقَافِمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چھیالیسویں (46)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار66ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 4رکو ،35آیات ہیں ۔ احقاف یمن کا ایک شہر ہے ۔ اس سو رت کا نزول ایک تاریخی واقعہ ہے جس میں ’جنات‘ اللہ کا کلام سنتے ہیں اور اپنے لوگوں میں جاکر اس کی تعریف کرتے ہیں ،نبیﷺ دس یا گیارہ نبوی میں مکہ سے طاءف تشرف لے گئے ،طاءف سے مکہ واپس آتے ہوئے نَخلہ کے مقام پر ٹہرے تھے ، یہ واقعہ ہجرت سے تین سال قبل کا ہے ، مفسرین کا خیال یہی ہے کہ یہ سورہ دس نبوی کے آخر میں نازل ہوئی ۔ اس کے موضوعات میں کفار مکہ کی زیادتیاں اور حضورﷺ کو طرح طرح سے پریشانیوں میں مبتلا کرنا ، اس سال کو آپ ﷺ نے عام لاحُزل یعنی رنج کا سال بھی فرمایا، اس لیے کہ اس سال آپ کے چچا ابو طالب اور آپ کی شریک حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا، ان دونوں سے آپ کو بہت سہارا اور ڈھارس تھی، ان کی جدائی کے بعد کفار مکہ نے اور زیادہ پریشان کیا اور اذیتیں پہنچائیں ۔ آپ ﷺ پر ایک مشرک اوباش نے سر عام آپ ﷺ کے سر پر مٹی پھینک دی تھی ۔ مکہ سے طاءف جانا بھی اسی سلسلے میں تھا ۔ طاءف میں آپ ﷺ بنی ثقیف کو اسلام کی دعوت دینے کی غرض سے تشریف لے گئے تھے، خیال یہ بھی تھا کہ وہاں کچھ وقت قیام بھی کر لیں گے ۔ اس وقت سواری کو کچھ نہ تھا چنانچہ آپ ﷺ پیدل مکہ سے طاءف تشریف لے گئے ۔ فاصلے کا اندازہ وہ لوگ بخوبی کرسکتے ہیں جو سعودی عرب گئے ہیں اور وہاں سے طاءف بھی گئے ہوں ۔ مجھے البتہ بخوبی اندازہ ہے کہ مکہ سے طاءف کا سفر کس قدر طویل اور مشکل ہے، اونچے نیچے پہاڑوں ، بل کھاتے راستوں کے بعد طاءف شہر آتا ہے ۔ اس وقت مٹی اور ریت سے بھر پور راستہ ہوگا آج کی طرح صاف ستھری، چوڑی، کھلی ہوئی سڑکیں نہیں ہوں گی ۔ اہل طاءف نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا، اور کہا کہ اسلام کی دعوت اپنے پاس رکھو اور واپس مکہ تشریف لے جاو، چنانچہ آپ نے واپسی کا سفر باندھا، مکہ کی جانب’ نخلہ‘ بستی کے مقام پر پڑاوَ ڈالا ، جہاں پر آپ ﷺ نماز میں قرآن پاک کی تلات فرمارہے تھے ،اس وقت یہاں سے جنوں کے ایک گروہ کا گزر ہوا ،اس نے کلام سناتو ایمان لے آئے، واپس جاکر اپنی قوم میں اللہ اور اس کے نبی کا پیغام پہنچانا شروع کردیا، یہ آیت اس وقت ہی نازل ہوئی ۔ سورۃ کا موضوع کفار مکہ کو ان کے ظالمانہ عمل ، گمراہ کن حرکتوں کے نتاءج سے خبردار کرنا ہے ، جن میں وہ اس قدر غرق تھے کہ انہیں اس کے سوا کچھ سجائی نہیں دے رہا تھا ۔ ان کفار کی فضول باتوں کی تردیدکرتے ہوئے انہیں اپنی اس ہٹ دھرمی سے بعض رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کی عظمت، توحید، آخرت کے دلائل ، بد پرستی کی مذمت کی گئی ہے ۔

سورہ کا آغاز حروفِ مقطعات سے ہوا ہے، حٰمٓ ۔ اس کتاب کا نُزول اللہ زبردست اور حکمت والے کی جانب سے ہے، کہا اللہ تعالیٰ ’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق ، ایک مقررہ وقت کے لیے پیدا کیا ہے، اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ وہ ان چیزوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں جن سے انہیں ڈرا یا گیا ہے‘‘ ۔ یعنی زمین کو ایک خاص مدت کے لیے پیدا کیا ہے جب وہ وقت گزرجائے گاتو کائینات کا یہ پورانظام بکھر کر رہ جائے گا ۔ اس کے بعدآیت 4 میں کہا گیا تم اللہ کو چھوڑ کر جن بتوں کو اپنا دیوتا مانتے ہوں ان کی عبادت کرتے ہو، انہوں نے زمین و آسمان کی پیدائش میں کیا حصہ لیا;238;، جب ان کا اس کام میں کوئی سروکار نہیں تو ان باطل معبودوں کو عبادت میں کیوں شریک کرتے ہو ۔ اللہ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ ’’آپ کہہ دیجئے ! کہ قرآن سے پہلے کی نازل شدہ کوئی کتاب یا علمی کتاب یا علمی اثاثہ میرے پاس لاوَ، اگر تم سچے ہو‘‘ ۔ اللہ تعالیٰ نے آیت 15 میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اوراس کے بعد آیت 17 میں نافرمان اولاد کا ذکرکیا ہے ۔ کہا ’’ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ‘‘، پھر اس بد بخت اور نافرمان اولاد نے کہا ’’کیا تم دونوں مجھے وعدہ دیتے ہو کہ مجھے قبر سے نکالا جائے گا ، حالانکہ مجھ سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں ، وہ انہیں اگلے لوگوں کی کہانیاں سناتے ہیں ‘‘ ۔ اللہ تعالیٰ فرمایا ’’یہ لوگ ہیں جن پر اللہ کے عذاب کی بات ثابت ہوگی‘‘ ۔ آیت 21 میں کہا ’عاد‘ کے بھائی’ ہود‘کو یاد کیجئے جب اس نے احقاف (یمن) میں اپنی قوم کو ڈرایا اور یقینا اس سے پہلے بھی کئی ڈرانے والے گزر چکے ہیں ‘‘ ۔ ہود علیہ السلام کی قوم کو ان کی نافرمانیوں پر تیز طوفانی ہوا سے ہلاک کیا گیا ۔ آیت 26 میں اہل مکہ کو خطاب کرکے کہا گیا کہ تم کیا چیز ہو;238; تم سے پہلی قو میں جنہیں ہم نے ہلاک کیا تم سے کہیں زیادہ طاقت رکھتی تھیں لیکن جب انہوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اپنے ہوش و ہواس رکھتے ہوئے سنا پھر بھی ایمان نہیں لائے تو ہم نے انہیں تباہ کردیا ۔ جنات کا ایمان لانے کا واقعہ احادیث میں بھی نقل ہوا ہے اور قرآن کی آیت 29اور اس کے بعد کی آیات میں بیان کیاگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اور یاد کیجئے جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو آپ ﷺ کی طرف متوجہ کیا، جب کہ قرآن سنتے تھے ،پھر جب وہ اس کی تلاوت سننے کو حاضر ہوئے تو ایک دوسرے سے کہا : خاموش رہو، جب تلاوت ختم ہوگئی تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن گئے یعنی اللہ اور اس کے رسول کا پیغام اپنے جن بھائیوں کو پہنچایا، انہوں نے کہا : اے ہماری قوم ! بے شک ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے ، وہ ان کتابو ں کی تصدیق کرتی ہے جو اس سے پہلے کی ہیں ، حق کی طرف اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔ اے ہماری قوم اللہ کی بات قبول کرلو، اوراس پر ایمان لے آوَوہ تمہارے لیے کچھ گناہ بخش دے گا‘‘ ۔ سورہ کی آخری آیت میں کفار مکہ کے ظالمانہ، کفرانہ، بیہودانہ رویے کے مقابلے میں نبی ﷺ کو تسلی دی گئی اور صبر کرنے کی تلقین بھی کی، قیامت کا ہولناک عذاب دیکھنے کے بعد انہیں دنیا کی زندگی ایسے ہی معلوم ہوگی جیسے دن کی صرف ایک گھڑی یہاں گزار کر گئے ہیں ۔ چنانچہ نافرمان لوگوں کے سوا کوئی ہلاک نہیں کیا جائے گا ۔

سُوْرۃٓ مُحَمَّد

سُوْرۃٓ مُحَمَّدمدنی سورۃ ہے، قرآنی ترتیب کے اعتبار سے سینتالیسویں (47)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار95ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 4رکو ،38آیات ہیں ۔ یہ وہ سورۃ ہے جس میں نبی اکرم حضرت محمد ﷺ کا نام مبارک آیا ہے ، اس کا ایک نام ’’قتال‘‘ بھی ہے ۔ یہ سورہ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی اسی لیے مدنی سورۃ کہلاتی ہے ۔ اس سورۃ کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کی جاچکی تھی لیکن کفارکی اسلام مخالف سرگرمیاں مکہ مکرمہ اور پورے خطے میں عام طور پر اسی طرح جاری و ساری تھیں ۔ ہجرت کا حکم آیا تو نبی ﷺ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ ہجرت کی، مدینہ مسلمانوں کی ایک طرح سے پناہ گاہ بن گیا تھا، مکہ کے علاوہ ادھر ادھر سے بھی مسلمان مشرکین کے ظلم کے باعث اور اس وجہ سے بھی کے نبی ﷺ مدینہ میں آچکے تھے ادھر کا رخ کر رہے تھے، مدینہ بھی چھوٹی سے بستی تھی، کفار نے یہاں بھی مسلمانوں پر عرصہ َ حیات تنگ کرنا شروع کردیا تھا، اب دو ہی راستے تھے کہ خاموشی اختیار کر کے دین و تبلیغ کا کام ترک کردیں اور واپس اپنا پرانا دین اختیار کر لیں یا کفار کے مقابلے پر سینہ تان کے کھڑے ہوجائیں ، تم یا ہم کا فیصلہ کرلیں ۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ دیکھ اور سمجھ رہا تھا، کفار کو مسلسل تنبیہ اور برے نتاءج سے آگاہ بھی کیا جارہا تھا لیکن کفار کسی طور سمجھنے کو تیار نہ تھے، اللہ تعالیٰ نے پہلے سورہ حج میں ، پھر سورہ بقرہ میں کفارکے مدِ مقابل آجانے اور جنگ کرنے کی اجازت دیدی،مسلمان کو تعداد اور جنگی ساز و سامان کی تنگی کے باعث یہ عمل مشکل نظر آتا تھا ۔ ایسی گومگوکی کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی ہمت بندھائی، حوصلہ بڑھایا اورمسلمانوں کوکفار سے جنگ کرنے کے لیے تیارکیا ۔ سورت ’’محمد‘‘ ﷺ نازل فرمائی ۔ اسی لیے اسے سورہَ قتال بھی کہا گیا، اس میں مسلمانوں کو ابتدائی جنگی تیاری کی ہدایات، بتایا کہ کفار کتنی ہی طاقت کیوں نہ رکھتے ہوں ان کی کوئی تدبیر کامیاب اورکار گر نہیں ہوگی، وہ مسلمان جو جنگ سے خوف زدہ تھے ، بعض ساز باز میں لگ گئے تھے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا گیا، مسلمانوں کو اپنی تعدادکے کم ہونے، جنگی ساز و سامان کے کم ہونے کے باوجود ہمت اور حوصلہ رکھنے کی ہدایت کی گئی اور پھر تمام تر حالات کے بعد اب معاملہ زندگی اور موت کا آگیا تھا، اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے سب کچھ کرگزرنے کو کہا گیا،اس میں حق کی فتح کی نوید بھی سنائی ۔

سورہ َ کا آغاز کفر کرنے والوں اور اللہ کے راستے پر چلنے والوں کو روکنے والوں سے ہوا جس میں انہیں کہا گیا کہ اللہ نے ان کے اعمال راءگاں کردیے ۔ اس کے بعد ایسے لوگوں کو ذکر ہے جو ایمان لائے اللہ پر ، نبیﷺ پر اور قرآن پر، اللہ نے ان کی غلطیاں معاف فرمادیں ۔ آیت4 میں اللہ تعالیٰ نے کفر کرنے والوں کی گردنیں مارنے کا حکم نازل فرمایا ، ارشاد ربانی ہے ’’چنانچہ تم جہاد میں ان لوگوں سے ملو جنہوں نے کفر کیا تو ان کی گردنیں مارو، حتی کہ جب تم انہیں خوب قتل کر چکوتو قیدیوں کو بیڑھیوں میں مضبوطی سے باندھ دو، پھر یاتو اس کے بعد ان پر احسان کرنا ،فدیہ (تاوان) لے کر آزاد کردینا، حتیٰ کہ لڑنے والے اپنے ہتھیار ڈال دیں ‘‘، پھر فرمایا اسی آیت میں ’’حکم یہی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن اس نے تمہیں حکم دیا ہے تاکہ وہ تمہیں ایک دوسرے سے آزمائے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل (شہید) کیے گئے ، تو اللہ ان کے اعمال ہر گز ضائع نہیں کرے گا‘‘ ۔ آیت کے ترجمہ سے تمام باتیں بہت صاف صاف سامنے آگئیں ہیں ، اللہ نے مسلمانوں کو مکمل ہدایت دی ۔

اللہ کے اس حکم سے قبل جنگ و جدول کی صورت میں فدیہ لے کر آزاد کرنا، قیدیوں کا تبادلہ کرنا ہی تھا ، یا پھرغلام اور لونڈی بنا لیا جاتا، اللہ نے یہاں جنگی قیدیوں کے حقوق متعین کیے ۔ انہیں آزادکرنے کے طریقے اور فضائل سے آگاہ کیا ۔ غلاموں ، جنگی قیدیوں اور غلاموں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے ، انہیں آزاد کرنے کا تصور اسلام نے ہی دیا، غلاموں کو خرید کربھی آزاد کرایا جاتا ہے، حضرت زید بن حارثہ کو بچپن میں ہی بیچ دیا گیا تھا، بڑے ہوئے تو وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے ، جب آپ حضور ِ پاک ﷺ کے نکاح میں آئیں تو زید بن حار ث کو محمد ﷺ کو حبہ کردیا ، آپ ﷺ نے انہیں آزاد کردیا ۔ آیت 11 میں اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کو پھر ڈرایا کہ وہ کفر سے باز نہ آئے تو ان کے لیے بھی ویسی ہی سزا ہوگی جیسے کہ پہلی قوموں کو دی گئی تھی ۔ جنت کے حسن کی منظر کشی بھی کی گئی ہے، کفارکی تمام تر توجہ نبی ﷺ کی باتوں پر مرکوز ہوا کرتی تھی، وہ کان لگائے رہتے کہ نبی ﷺ کیا کہہ رہے ہیں ، ایمان لانے والوں کا ذکر ہے ،آیت 19 میں ’ اپنے لیے بھی اور مومنین کے لیے نبی ﷺ کو استغفار کرنے کا کہا گیا ‘ ۔ کفار سے مقابلہ کرنے یعنی جہاد و قتال ، اللہ کی راہ میں لڑنے کی ترغیب دیتے ہوئے آخری آیت 38 میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’اور اللہ بے نیاز ہے واور تم محتاج ہو اور اگر تم پھرو گے تو اللہ تمہارے سوا دوسرے لوگ بدل لائے گا، پھر وہ تم جیسے نا فرمان نہ ہوں گے‘‘ ۔

سُوْرۃُ الْفَتْح

سُوْرۃُ الْفَتْح مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اڑتالیسویں (48)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار111ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 4رکو ،29آیات ہیں ۔ فتح اس سورۃ کا موضوع ہے، اس سورہ کا نزول ذی القعد 6ھ میں اُس وقت ہوا تھا جب آپ ﷺ کفار مکہ سے معاہدہ جسے ’صلح حدیبیہ ‘ کا نام دیا گیا کر نے کے بعد مدینہ منوورہ کی طرف واپس تشریف لے جارہے تھے، مکہ سے تقریباً 25میل کے فاصلے پر بستی ’’ضَجنان ‘‘ کے مقام پر بعض نے اسے ’’کُراغُ الغمیم‘‘ لکھا ہے کے مقام پر یہ سورۃ نازل ہوئی ۔ بنیادی طور پر اس سورہ کا موضوع صلح حدیبیہ ، بیعت رضوان ہے ۔

پہلی آیت میں اللہ کریم نے نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبیﷺ ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کردی ۔ دوسری آیت میں فرمایا ’ تاکہ اللہ تمہاری اگلی پچھلی ہر کوتاہی سے درگزر فرمائے اور تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کردے اور تمہیں سیدھا راستہ د کھائے ‘ ۔ یہاں صلح حدیبیہ ، اس میں طے پاجانے والے معاہدے، کس کا فائدہ کس کا نقصان ، کسی فریق کا فائدہ اگر ہے تو کیسے، جب کہ فائدہ میں کہے جانے والے تو اپنے تحفظات کا اظہار کررہے تھے لیکن اللہ پاک نے اسے مسلمانوں کے لیے ’کھلی فتح ‘ قرار دیا ۔ سورۃ کی دیگر آیات کے خلاصہ سے قبل ضروری ہے کہ صلح حدیبیہ کا تاریخی پس منظر اختصار کے ساتھ بیان کیا جائے ۔ ابتدا یہاں سے ہوتی ہے کہ اللہ کے نبیﷺ نے مدینہ میں خواب دیکھا کہ وہ مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کا طواف کیا ، آپ نے خواب کا ذکر صحابہ سے کیا وہ خوش ہوئے اور ذی القَعد6 میں آپ اپنے چودہ یا پندرہ سو صحابہ ا کرام کے ساتھ عمرہ کی نیت سے مدینہ سے روانہ ہوئے ، راستہ میں احرام باندھا، 70اونٹ ساتھ لیے جن کی گردنوں میں ہَدی کی علامت کے طور پر قلادے پڑے تھے ، قریش اور مدینہ منورہ کے تعلقات کا سب کو علم تھا، شوال5ھ میں کفار نے مدینہ پر چڑھائی کی تھی، غزوہ اَحزاب کا معرکہ پیش آیا تھا، پھر اچانک مکہ کا رخ کرنا، لیکن رسول ﷺ اپنے خالق کی بات کیسے ٹال سکتے تھے ۔ قریش کی پریشانی بجا تھی، انا کا سوال بھی تھا، کعبہ کا طواف اور عبادت سے روکنے کا حق قریش کو نہ تھا، انہیں اس بات کا احساس تھا ، کہ ہم کس منہ سے منع کریں گے، لیکن شیظانیت دل میں تھی ، طرح طرح کے بہانے تراشے گئے، مختلف ایلچی بھیجے گئے تاکہ وہ بنی ﷺ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں اور واپس مدینہ چلے جانے پر تیار کریں ، تمام ترکیبیں ناکام ہوئیں ۔ آپ ﷺ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنا ایلچی بنا کر بھیجا کہ وہ قریش کو آمادہ کریں کہ ہم صرف عمرہ کرنے آئے ہیں ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں خبر آئی کہ انہیں قتل کردیا گیا، اب تو مسلمانوں کو ہر صورت کفار سے اس کابدلہ لینا ہی تھا ، عمرہ والی بات تو پیچھے رہ گئی ۔ بدلہ لینے کی تیاریاں شروع ہوگئیں ، یہاں تک کہ بنی ﷺ نے صحابہ سے بیعت بھی لی کہ یہاں سے مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹیں گے ، معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط ہے حضرت عثمان رضہ اللہ عنہ سلامت واپس آگئے ۔ اب قریش کے رویے میں تبدیلی بھی آچکی تھی، صرف اس بات پر بضد تھے کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں آئندہ سال آپ عمرہ کے لیے آسکتے ہیں ۔ باہمی گفت و شنید کے بعد صلح نامہ طے ہوا جس میں کہا گیا تھا’’(۱)دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بندی رہے گی، (۲)جو شخص مکہ سے مدینہ چلا جائے گا اسے واپس کردیا جائے گا اور جو شخص مدینہ سے مکہ چلاجائے گا قریش اسے واپس نہیں کریں گے،(۳) کوئی قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہوگا، (۴) محمد ﷺ ْاِس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرہ کے لیے تین دن مکے میں ٹہر سکتے ہیں اور عمرہ ادا کرسکتے ہیں ۔ ان شرائط پر کچھ صحابہ کو تحفظات تھے، قریش خوشیاں منا رہے تھے، سب سے زیادہ شرط نمبر دو صحابہ کو کھٹک رہی تھی، یعنی ’’جو شخص مدینہ سے مکہ چلاجائے گا قریش اسے واپس نہیں کریں گے‘‘ ، اس پر بعض صحابہ بہت ناراض دکھائی دے رہے تھے اللہ کے نبیﷺ نے اس پر کیا خوب فرمایا کہ ’’جو ہمارے ہاں سے بھاگ کر اُن کے پاس چلاجائے ، وہ آخر ہمارے کس کام کا;238;اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے، جو ہمارے پاس آجائے گا ہم اسے واپس کردیں گے ، اس کے لیے اللہ کوئی اور سبب بنادے گا ۔ اسی دوران ابوجندال جن کو قریش نے قید کیا ہوا تھا ، یہ سُہیل بن عَمر کے صاحبزادے تھے اسلام قبول کر لیاتھا، یہ کسی طرح قریش کے چنگل سے آزاد ہوکر اہل مدینہ سے آملے، جب مدینہ والوں کے پاس چھپتے چھپاتے پہنچے تو ان کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئیں تھی ۔

معاہدہ سے فارغ ہوکر آپ ﷺ اور صحابہ نے وہیں قربانی کی، سر منڈوائے اور احرام ختم کیے ۔ واپسی اس خیال سے ہورہی تھی کہ ہ میں شکست ہوئی،بعض صحابہ کے چہرے اترے ہوئے تھے، قافلہ جب مکہ سے تقریباً 25میل کے فاصلے پر بستی ’’ضَجنان ‘‘ بعض نے اسے ’’کُراغُ الغمیم‘‘ لکھا ہے کے مقام پر پہنچاتو یہ اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ نازل فرمائی ۔ اس سورۃ نے مسلمانوں کو خوشخبری دی کہ تم جسے شکست سمجھ رہے ہو یہ در اصل تمہاری فتح عظیم اور فتح مبین ہے ۔ اس معاہدے کے مثبت نتاءج وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوتے گئے ۔ اسی صلح کی برکت تھی کہ حدیبیہ کے وقت حضور ﷺکے ساتھ چودہ سو لوگ تھے جبکہ دو سال بعد ہی قریش کی عہد شکنی کے نتیجے میں حضورﷺ مکہ تشریف لے گئے اور فتح مکہ پیش آیا اس موقع پر آپ کے ہمراہ دس ہزار کا لشکر تھا ۔

سورۃ میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے جس کی فتح کی نوید اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ میں دی تھی ۔ مال غنیمت کے حوالے سے، آیت 18 میں بیعت کا ذکر ہے، جو حدیبیہ کے مقام پر لی گئی اسے بیعت رضوان کہا جاتا ہے ۔ ان کے بر عکس دوسرا گروہ ان منافقوں کاتھا جو حدیبیہ میں آپ ﷺ کے ساتھ نہیں گئے، سورہ فتح وہ خواب بھی بیان کرتی ہے جو حضور اکرم ﷺ نے مسجد حرام میں داخل ہونے کے بارے میں دیکھاتھا، آخر میں یہ کہ اللہ نے آپ ﷺ کو دین حق دے کر بھیجا، ان صحابہ کی تعریف کی گئی جو رضاء الہٰی کے طالب تھے، اور پھر ان لوگوں کے ساتھ مغفرت اور اجر عظیم کے وعدہ پر سورہ کا اختتام ہوتا ہے ۔

سُوْرۃُ الْحُجُرٰت

سُوْرۃُ الْحُجُرٰت مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اننچا سویں (49)اور نزولِ ترتیب کے اعتبار106 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکو ،18آیات ہیں ۔ یہ سورت مختلف مواقع پر نازل شدہ احکامات و ہدایا ت کا مجموعہ ہے ۔

سورۃ کا آغاز ایمان لانے والے لوگوں کو مخاطب کر کے کیا گیا ہے، فرمایا’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، اللہ اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور اللہ سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘ ۔ یعنی اپنی رائے کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم پر مقدم نہ رکھیں ۔ یہ سورہ ادب و احترام سکھاتی ہے اس لیے کہا گیا کہ اپنی آواز کو نبیﷺ کی آوز سے بلند نہ کرو، اونچی آواز سے بات کرنے کو منع فرمایا گیا، ہر معاملے میں اللہ سے ڈرنے کا کہا گیا ، ایک دوسرے کا تمسخر اڑانے ، حقیر ، کمتر سمجھنے، طعنہ زنی کرنے ، لوگوں کے غلط نام رکھنے سے منع کیا گیا، یہی نہیں بلکہ اگرکسی میں کوئی برائی ہے تو اسے اس کی نسبت سے پکارنا ، جیسی شرابی، جواری ، زانی، اے کافروغیرہ ۔ اللہ نے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کسی کی ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہوجائے تو اس کو بدنام کرنا، کسی مسلمان کی کسی دوسرے مسلمان کے سامنے برائی کرنے سے بھی منع فرمایا گیا، اللہ کے ہاں بڑائی خاندان، قبیلہ اور نسل و نسب نہیں بلکہ تقویٰ ہے ۔ آخر میں آیت 18 میں فرمایا اللہ نے بلاشبہ اللہ آسمانوں اور زمین کی چھپی باتیں جانتا ہے اور اللہ خوب دیکھ رہا ہے ، جو تم عمل کرتے ہو‘‘ ۔

سُوْرۃُ قٓ

سُوْرۃُ قٓمکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے پچاسویں (50)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 34ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،45آیات ہیں ۔ اس سورۃ کا نزول مکہ المکرمہ کا دوسرا دور ہے ۔ جو بنوت کے تیسرے سال سے شروع ہوکر پانچویں سال تک رہا ۔ لکھا مفسرین نے کہ اللہ کے رسول ﷺ عام طور پر عیدین اور جمعہ کی نمازوں میں اس سورۃ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ اس کا موضوع آخرت ہے، اس میں خلق، بعث و نشور، معاد و قیام ، حساب و دوزخ، ثواب و عذاب، ترغیب و تر ہیب کا بیان ہے ۔

حروفِ مقطعات جو اس سورہ کا نا م بھی ہے سے آغاز ہوا، قرآن مجید کی قسم کھائی اللہ تبارک و تعالیٰ نے، کافروں کا تعجب کرنا کہ وہ مٹی ہوجائیں گے پھر دوبارہ اٹھائے جائیں گے، کہا کفار نے کہ یہ تو عقل سے بہت بعید ہے;238; اللہ نے کہا کہ ’’یقینا ہ میں علم ہے ‘‘ ۔ ہر قسم کی نباتات اور اشیاء کو جوڑا جوڑا یعنی نر اور مادہ بنانے کا بیان ہے ۔ زمین و آسمان کی تخلیق کا ذکر ہے، یہ بات پہلے بھی بیان ہوئی کہ اللہ بنجر زمین کو بارش کے پانی سے زرخیز بنا دیتا ہے، ہرابھرا کردیتا ہے، ۔ ان سے پہلے قوم نوح، قوم ثمود، قومِ عاد، قومِ لوط، فرعون اور قومِ شعیب بھی تکذیب کے راستے پر چل کر ہلاکت سے دوچار ہوچکے ہیں ۔ قیامت والے دن انسان کو دوبارہ مرد ہ کو زندہ کرنا مشکل نہیں اس لیے کہ جب وہ پہلی مرتبہ انسان کی تخلیق کرسکتا ہے تو دوبارہ اس کے لیے کیا مشکل ہے ۔ یہ سورت انسان کو اس کے دل میں ہونے والے وسوسے کا احساس دلاتی ہے، انسان کے دل میں جو کچھ ہے جسے وہ چھپاتا ہے ، اللہ اس سے بہ خبر ہے ۔ رسول اکرم ﷺ کو مشرکین کی بے ہودہ گوئی پر صبر کی تلقین کی گئی اور صبح و شام کی تسبیح اور عبادت کی تلقین کی گئی،فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے’ آپ ﷺ اس قرآن کے ذریعہ سے اس شخص کو نصیحت کرتے رہیں ، جو میری وعید سے ڈرتا ہے‘‘ ۔

سُوْرۃُ الذّٰرِیٰتِ

سُوْرۃُ الذّٰرِیٰتِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اکیانوی(51)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے67ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکو ،60آیات ہیں ۔ اس سورہ میں بیان کردہ موضوعات سابقہ سورہ ’ق‘ سے مماثلت رکھتے ہیں ، جس کے باعث مفسرین کی رائے ہے کہ یہ سورہ اسی دور کی ہے ۔ اس میں آخرت کے موضوعات ، توحید کی دعوت، اور انبیاء علیہم السلام کے پیغامات سے انکار خود ان کے لیے مناسب نہیں ۔

سورۃ کا آغاز چار قسم کی ہواؤں کی قسم کھا کر اللہ نے پہلی آیت میں فرمایا ’’قَسم ہے اُن ہواؤں کی جو گرد اُڑانے والی ہیں ، پھران بادلوں کی قسم جو پانی کا بوجھ اٹھانے والے ہیں ، پھر ان فرشتوں کی قسم جو کام تقسیم کرنے والے ہیں ، بلا شبہ تمہیں جو وعدہ دیا جاتا ہے وہ ضرور سچا ہے، اور بلا شبہ اعمال کی جزا ضرور ملنے والی ہے ، اگلی آیت میں قسم کھائی متفرق شکلوں والے آسمان کی جو راستوں والا ہے، بلاشبہ تم باہم مختلف باتوں میں پڑے ہو‘‘ ۔ جو لاپروا ہیں اور غفلت میں پڑے ہوئے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ جز ا کادن کب ہوگا;238; یہ دن وہ ہوگا جب وہ آگ میں جلائے جائیں گے ۔ اس کے برعکس نیک لوگ ،متقین جنت میں ،باغات اور چشموں میں ہوں گے جو کچھ اللہ انہیں دے گا وہ اسے لے رہے ہوں گے، کہا گیا کہ بلاشبہ و ہ نیک و کار تھے، یعنی یہ سورۃ متقین کا اچھا انجام اور ان کی اعلیٰ صفات بھی بیان کرتی ہے،ان کے بارے میں کہا کہ وہ رات میں کم سوتے ، عبادت کیا کرتے، سحری کے وقت مغفرت مانگا کرتے تھے، غریبوں ، بے سہارا کی مدد کیا کرتے ۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا آیت 25 میں ’’اے بنی ! کیا آپ کے پاس ابرہیم کے محترم مہمانوں کی خبر آئی ہے، جب وہ اس کے پاس پہنچے تو انہوں نے سلام کہا، ابراہیم نے بھی کہا : تم پر سلام ہو، پھر دل میں کہا کہ تم لوگ تو اجنبی ہو‘‘ ۔ رزق جس کا اللہ نے وعدہ کیا وہ آسمان میں ہے،انسان کی زندگی اور اسباب زندگی کی فراہمی کا بہت زیادہ انحصار آسمان پر ہے، بارش کے باعث زمین کا زرخیز ہوجانا ، انسان کے لیے مختلف اشیاء فراہم ہوجاتی ہیں ، اگر سورج طلوع نہ ہو تو کوئی کھیتی اگے ، نہ کوئی جانور دودھ دے، یعنی انسانی زندگی بارش کے برسنے اور شمس و قمر کے ظہور پر موقوف ہے، موسموں کی تبدیلی بھی انہیں سے تعلق رکھتی ہے ۔ سورہ کے آخر میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کا وہ قصہ بیان ہوا ہے جس میں فرشتے ان کے پاس آئے ، وہ انہیں انسان سمجھتے ہیں اور مہمان نوازی کرتے ہوئے ایک موٹا تازہ بچھڑا بھون کر لے آتے ہیں ، فرشتوں سے کھانے کے لیے کہتے ہیں ، شاید خوف کی وجہ تھی، انہوں نے کہا ابرہیم علیہ السلام سے نہ خوف کریں ،فرشتوں نے پھر انہیں ذی علم بیٹے کی بشارت دی، ابراہیم علیہ السلام کی بیوی نے فرشتوں سے کہا کہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور بانجھ بھی ، اولاد کیسے ہوگی;238; جس پر فرشتوں نے کہا کہ تیرے رب نے اسی طرح کہاہے، بلاشبہ وہ بڑی حکمت والا ، خوب جاننے والا ہے ۔ (25رمضان المبارک 1440ھ ،31 مئی2019ء)
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437321 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More