قرآن کریم : پارہ29 ( تَبٰرَ َکَ الّٰذِیْ ) و پارہ 30 (عم) خلاصہ

پارہ29 ( تَبٰرَ َکَ الّٰذِیْ )
تَبٰرَ َکَ الّٰذِیْ ‘قرآن کریم کاانتیسواں (29) پارہ ہے ۔تَبٰرَ َکَ الّٰذِیْ ‘کا مطلب ہے ’’بڑی بابرکت ہے وہ ذات ‘‘ اس پارہ میں گیارہ سورتیں ہیں۔ ان میں سُوْرۃٓ الْمُلک ، سُوْرۃٓ الْقَلَمِ ، سُوْرۃٓ الْحَآ قّٰۃِ ، سُوْرۃٓ الْمَعَارِجِ ، سُوْرۃٓ نوُحٍ ، سُوْرۃٓ الْجِنًّ ، سُوْرۃٓ ا لْمُزّٰمِّلِ ، سُوْرۃٓ الْمُدَّثِّرِ ، سُوْرۃٓ ا لْقِیٰمَۃِ ، سُوْرۃٓ ا لدَّھْرِ ، سُوْرۃٓ ا لْمُرسَلٰتِ،
شامل ہیں۔
سُوْرۃٓ الْمُلک
سُوْرۃٓ الْمُلک مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے سڑسٹھویں (67)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 77 ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکو ع،30آیات ہیں۔اس میں شرعی احکامات ، منافقین کا تذکرہ ہے۔سورۃ ملک کی فضیلت میں کئی روایات بیان ہوئی ہیں۔ فرمایا اﷲ کے نبی ﷺ نے کہ ’’اﷲ کی کتاب میں ایک سورۃ ہے جس میں صرف 30آیات ہیں ‘ یہ آدمی کی سفارش کرے گی ، یہاں تک کہ اس کو بخش دیا جائے گا۔دوسری روایت میں ہے ’’قرآن مجید میں ایک سورۃ ہے‘ جو اپنے پڑھنے والے کی طرف سے لڑے گی‘ حتیٰ کہ اسے جنت میں داخل کروائے گی‘‘۔ تبارک یعنی متبرک ، بزرگ وعظیم ۔ اس سورہ میں اسلام کی تعلیمات کا تعارف کرایا گیاہے۔
سورہ ملک کی پہلی آیات میں پروردگار عالم نے فرمایا ’’نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ جس کے ہاتھ میں کائینات کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے ‘‘۔ سات آسمان اوپر نیچے پیدا کیے، آسمان ِدنیا کو چراغوں سے زینت دی، انہیں شیطانوں کو مار بھگانے کا ذریعہ بنایا،دوزخ کا ذکر کر کے اﷲ نے انسان کو احساس دلا یا کہ وہ جس کائینات میں رہتا ہے ، وہ ایک انتہائی منظم و محکم سلطنت ہے جس میں کسی بھی قسم کا کوئی عیب ، کمی ، نقص نہیں۔ گناہ گار دوزخ میں افسوس کا اظہار کریں گے، یہاں آیت 6تا 11کفر کے وہ ہولنا ک نتائج بیان کیے گئے ہیں ، لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو بھیج کر تمہیں اسی دنیا میں ان نتائج سے خبردار کردیا ۔اہل کفر و تکذیب کے مقابلے میں اہل ایمان کا ذکر ہے۔ آیت 13میں کافروں سے خطاب ہے یعنی تم رسول ﷺ کے بارے میں چھپ کر باتیں کرو یا اعلانیہ سب اﷲ کے علم میں ہے ،یہ حقیقت ذہن نشیں کرائی گئی ہے کہ خالق اپنی مخلوق سے بے خبر نہیں ہوسکتا۔ آیت 19میں کہا گیا ’بے شک وہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے‘۔ انسان کی تخلیق اﷲ نے ہی کی ، انسان کے مختلف اعضاء بنائے ، وہ پھر بھی کم شکر ادا کرنے والا ہے ،ان حقیقتوں کی جانب انسان کی توجہ مبزول کرائی گئی ہے جنہیں وہ دنیا کے معمولات سمجھ کر قابل توجہ نہیں سمجھتا۔آیت 24میں کہا گیا کہ ’’کہہ دیجئے وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کے سامنے تم اکھٹے کیے جاؤ گے‘‘۔ بتا یا گیا ہے کہ آخر کار تمہیں لازماً اپنے خد ا کے حضور حاضر ہونا ہے۔ کفار ِ مکہ کی ان باتوں کا جواب دیا گیا ہے جو وہ نبیﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف کرتے تھے، آخر میں سوال کیا کہ زرا بتاؤ تو ! اگر تمہارے کنوؤں کا پانی گہرا ہوجائے یعنی خشک ہوجائے تمہیں صاف پانی کون فراہم کرے گا۔
سُوْرۃٓ الْقَلَمِ
سُوْرۃٓ الْقَلَمِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اڑسٹھویں(68)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے دوسری سورۃ ہے۔ اس میں2رکوع ،52آیات ہیں۔اس سورہ کانام قلم کے علاوہ ’ نٓ ‘بھی ہے۔ اس میں تین مضامین بیان ہوئے ہیں ، مشرکین کے اعتراضات کا جواب، ان کو تنبیہ، اور نصیحت اور نبی ﷺ کو صبر و استقامت کی تلقین۔
ابتدا حروفِ مقطعات ’’ ںٓ‘ ‘ سے ہوئی ، کہا ’’قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے رکھنے والے لکھ رہے ہیں، تم اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو، اور یقینا تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہونے والا اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو‘‘۔ رسول اﷲ ﷺ کو یہ کفاردیوانہ کہتے ،حالانکہ کتاب جو نازل کی گئی اورآپ ﷺ کے اخلاق ،کفار کی بکواس کے لیے کافی ہے۔ مفسرین نے یہاں قلم سے مراد وہ قلم بیان کیا ہے جس سے قرآن کریم فرقان حمید لکھا جارہا تھا، اﷲ نے دو ٹوک الفاظ میں مشرکین سے کہا کہ’ تم جھوٹے ہو محمد ﷺ وہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو، اس کے لیے قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی۔ اﷲ نے کہا ، وہ وقت دور نہیں جب تم دیکھ لوگے کہ تم میں سے کون جُنون میں مبتلا ہے، کہا اﷲ نے ہرگز مت دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا ہو، بے وقعت آدمی ہے ، طعنے دیتا ے، چغلیاں کھاتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی کرتا ، سخت بد اعمال ہے، جفا کارہے، ان سب عیبوں کے ساتھ بد اصل ہے، اس بنا پر کہ وہ مال ودولت رکھتا ہے ، ہماری آیات پر کہتا ہے کہ یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں، عنقریب ہم اس کو گرفت میں لیں گے‘‘۔
اصحاب الجنہ (باغ والوں) کا قصہ عربوں میں مشہور تھا، یہ باغ یمن کے قریب تھا ، مالک غریبوں کی مددکیا کرتا تھا، اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد نے غریبوں اور مسکینوں کی وہ مدد جو ان کا باپ کیا کرتا تھا بند کردی ، اﷲ کو یہ بات نا پسند لگی ، اس نے اس باغ کو ویران کردیا۔ آیت 42میں کہا گیا ’’جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اورانہیں سجدے کے لیے بلایا جائے گا، تو وہ سجدہ نہ کرسکیں گے، ان کی نظریں جھکی ہوں گی ان پر زلت چھارہی ہوگی، یہ قیامت کے دن کی منظر کشی ہے۔ اﷲ نے کہا کہ آپ اپنے رب کے حکم کے لیے صبر کریں اور مچھلی والے یونس کی طرح نہ ہوں، جب اس نے اﷲ کو پکارا تھا ، اس وقت مشکل میں تھا، غم سے بھرا ہوا تھا، آخر میں کہا گیا کہ یہ ’’قرآن تو سب جہانوں کے لیے نصیحت ہے‘‘۔
سُوْرۃٓ الْحَآ قّٰۃِ
سُوْرۃٓ الْحَآ قّٰۃِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے انسٹھویں(69)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے78ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکو ،52آیات ہیں۔حاقہ کے معنی ہیں ثابت ہونے والی، ابتدا آخرت کے بیان سے ہوتی ہے، اور رسولِ برحق ہونے کے بارے میں کچھ باتیں ہیں۔ قیامت کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے جو کچھ فرمادیا قرآن میں اس کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوگا۔ سورہ کی ابتدائی آیات میں قیامت کی ہولناکیوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے، سابقہ قوموں جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسولوں کو جھٹلایا، ان کی باتوں کو اور انہیں غلط کہا ان کا انجام بیان ہوا ہے ۔ قوم ثمود اور عاد نے جھٹلایا اس دور کے انبیاء کو، جس کے نتیجے میں قوم ِ ثمود پر خوفناک اونچی آواز سے ہلاک کیا گیا ، قوم ِ عاد پر تیز طوفانی ہوا جو مسلسل آٹھ دن تک ان پر مسلط رہی اور وہ قوم تباہ ہوگئی، فرعون کا ذکر ہے ، اس سے پہلے کے لوگ جن کی بستیوں کو اﷲ پاک نے الٹ دیا، کشتی کا قصہ ہے جن کو بچانا تھا انہیں کشتی میں سوار رہنے دیا جن کو پانی میں غرق کرنا تھا انہیں زمین پر اتار لیا، پھر کہا آیت 18میں تاکہ تمہارے لیے نصیحت بنادیں، قیامت والے دن آسمان پھٹ جائے گا ، سب پیش کیے جائیں گے۔ اس کے بعداﷲ تعالیٰ نبی ﷺ اور قرآن کی صداقت کی قسم کھاتے ہیں آیت38میں ’’پس مجھے قسم ہے ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو، اور ان چیزوں کی جنہیں تم نہیں دیکھتے بے بیشک یہ قرآن رسول کریم (جبرائیل) کا قول ہے ۔ یہ کسی شاعر کا قول نہیں ، افسوس تمہیں کم یقین ہے، اور یہ نہ کسی کاہن کا قول ہے، افسوس بہت کم نصیحت لے رہے ہو، یہ تو رب العالمین کا اتارا ہواہے، اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنالیتا تو یقینا ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے‘‘۔ آخر میں نبی ﷺ سے ارشاد ہوا کہ ’’ اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کیجئے‘‘۔
سُوْرۃٓ الْمَعَارِجِ
سُوْرۃٓ الْمَعَارِجِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے سترویں(70)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے79 ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکوع ،44آیات ہیں۔اس سورہ میں ان کفارکو تنبیہ کی گئی ہے جو قیامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کا مزاق اڑاتے تھے، کہا کرتے کہ ہم عذاب جہنم کے مستحق ہوچکے تو لے آؤ قیامت جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو، اس سورۃ میں ان کو جواب دیا گیا ہے۔
آغاز ایک شخص کے عذاب مانگنے سے ہوا، لکھا بعض مفسریں نے اس کا نام نصربن حارث تھا ’’ایک سائل نے عذاب مانگا جو واقع ہوگیا، یعنی اس پر عذاب آگیااﷲ کی جانب سے، کافر اس عذاب کو ٹال نہ سکتے تھے،قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر بطو ر خاص کیا گیا ہے، یہاں روح کا بھی ذکر آیا ہے ، انسانی روحین جو مرنے کے بعد آسمان پر لے جائی جاتی ہیں۔ کافر قیامت کو ناممکن تصور کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ضرور آئے گی، ہر آنے والی چیز قریب ہے،انسان کی فطرت اور طبیعت کے بارے میں بیان کرتی ہے،مصلحین کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ نمازقائم کرنے والے ہیں، مستحقین کا حق ادا کرتے ہیں، یوم جزا کی تصدیق کرتے ہیں ، اﷲ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، وہ اﷲ کی عظمت و جلالت کے پیش نظر اس گرفت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ جب تک اﷲ کی رحمت ہمیں اپنے دامن میں نہیں ڈھانپ لے گی ، ہمارے یہ اعمال نجات کے لیے کافی نہیں ہوں گے۔نماز کو اپنے اوقات پر ادا کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے بارے میں اﷲ کا فرمان ہے کہ یہی لوگ جنت میں عزت کے مستحق ہیں۔ انسان کی جنسی تسکین کے لیے جائز ذرائع کا ذکر ہوا ہے، نبی ﷺ کی محفل میں کفار دوڑ ے دوڑ ے آیا کرتے تھے لیکن آپ ﷺ کی باتیں سن کر عمل کرنے کے بجائے ان کا مذاق اڑاتے تھے کہا کرتے کہ اگر مسلمان جنت میں گئے تو ہم ان سے پہلے جائیں گے، اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم ان کو ختم کرکے ایک نئی مخلوق آباد کردینے پر قادر ہیں، آخری آیت میں کفار کے بارے میں کہا گیا کہ ’ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی، ان پر زلت چھارہی ہوگی، یہی وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔
سُوْرۃٓ نوُحٍ
سُوْرۃٓ نوُح مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اکھترویں(71)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے71ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکو ع،28آیات ہیں۔اس سورۃ میں حضرت نوح علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا،سابقہ آیات میں بھی نوح علیہ السلام کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں۔یہ مکمل سورۃ نوح علیہ السلام کا قصہ بیان کرتی ہے۔
پہلی آیت میں فرمایا گیا کہ نوح علیہ السلام کو جب رسالت کا منصب عطا ہوا، خدمت ان کے سپرد کی گئی تھی، انہوں نے اﷲ کا پیغام پہنچانے کا آغاز کیسے کیا، پھر طویل مدت تک انہوں نے اس جدوجہد میں گزارے، تکلیفات اٹھانے، اپنی قوم کے باتوں پر مشتمل روداد اﷲ کے حضور پیش کی ، پھر وہ اپنی قوم سے ناامید ہوگئے اور اﷲ سے ہدایت کی توفیق واپس لینے کی استدعا کی۔ اس سورہ کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے’’ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس ہدایت کے ساتھ کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبر دار کریں، قبل اس کے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آئے ‘‘۔ اس کے بعد نوح علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ سے عرض کیا : اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو لوگوں کو شب و روز پکارامگر میری پکار نے اُن پر کوئی اثر نہیں کیا، اور جب بھی میں نے اُن کو بلایا تاکہ تو انہیں معاف کردے، انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں سے منہ کو ڈھانپ لیے اور اپنی روش پر قائم رہے ، بڑا تکبر کیا، پھر میں نے ان کو اعلانیہ دعوت دی، انہیں چپکے چپکے بھی سمجھایا، کہا میں نے کہ اپنے رب سے معافی مانگو، بیشک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے، وہ تم پر خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال ودولت سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا رکرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کردے گا، تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ اﷲ کے لیے ،تم کسی چیز کی توفیق نہیں رکھتے حالانکہ اس نے طرح طرح سے تمہیں بنایا ہے، کیا دیکھتے نہیں کہ اﷲ نے کس طرح سات آسمان اوپر نیچے بنائے ان میں چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا اور اﷲ نے تم کو زمین سے عجیب طرح سے پیدا کیا پھر وہ تمہیں اسی زمین میں واپس لے جائے گا اوراس سے یکا یک تمہیں نکال کھڑ کرے گا، اور زمین کو تمہارے لیے فرش کی طرح بچھادیا ، تاکہ اس کے اندر کھلے راستوں میں چلو‘‘َ ۔ پھر نوح علیہ السلام اپنی قو سے ناامید ہوکر اﷲ سے کہتے ہیں کہ اے میرے رب! انہوں نے میری بات رد کردی ، اور کفار کی پیروی ، اپنے معبودوں کی ہی عبادت کرتے رہے، نوح نے اﷲ سے فرمایا کہ تو بھی ان ظالموں کو گمراہی کے سوا کسی چیز میں ترقی نہ دے‘۔ اپنی خطاؤں پر وہ غرق کیے گئے اور آگ میں جھونک دئے گئے۔
سُوْرۃٓ الْجِنًّ
سُوْرۃٓ الْجِنًّ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے بہاترویں(72)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 40 ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکوع ،28آیات ہیں۔یہ سورہ جنوں کے بارے میں ہے اس میں جنوں کا ہی تذکرہ ہے۔سورۂ اعراف ، آیت 27 میں کہا گیا ہے کہ جن انسان کو دیکھتے ہیں مگر انسان ان کو نہیں دیکھ سکتا، لیکن انسان سے جنات کی گفتگو ، جنات کا انسانوں پر وارد ہوجانا جیسی باتیں بھی عام ہیں اور حقیقت پر مبنی ہیں۔ یہ بھی اﷲ کی ایک ایسی ہی مخلوق ہے جیسے کے دیگر، فرق یہ ہے کہ اﷲ نے انسان کوخاک سے، جنات کوشعلہ زن آگ سے ، جب کہ فرشتے اﷲ کی نوری مخلوق ہیں ، ملائکہ وہ لطیف نورانی اجسام ہیں جنہیں اپنی لطا فت و نورانیت کے باعث مختلف شکلیں بدلنے پر قدرت حاصل ہے۔جنات تیز رفتاری سے فاصلہ طے کر لیتے ہیں اور فرشتے تو اﷲ کے حکم پر زمین و آسمانوں میں تیز رفتاری سے آجاسکتے ہیں، اﷲ نے اپنی اسی مخلوق کے ذریعہ انسانوں کی ہدایت کے پیغامات اور رسولوں کو ہدایات پہنچائیں۔انسان کی روح قبض کرنے کا کام فرشتہ کا ہے، اور جنت کا نظا م انہیں کے ہاتھو ں میں ہے۔
سورۂ کی پہلی آیت میں کہا گیا ’اے نبی ﷺ! کہو : میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جنوں کے ایک گروہ نے غور سے سنا پھر جاکر اپنی قوم کے لوگوں سے کہا’’ہم نے ایک بڑا عجیب قرآن سنا ہے ، جو راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے ، اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ور اب ہم ہر گز اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے‘‘۔پھر کہا آیت 3میں ’’ہمارے رب کی شان بہت اونچی ہے نہ اس نے اپنی بیوی بنائی ہے اور نہ اولاد۔ آسمانوں پر جنو ں نے مختلف صورت حال دیکھی تو وہ وجہ معلوم کرنے نکلے زمین پر ، ان کا خیال تھا کہ آخر ایسا کیا معاملہ پیش آہا ہے یا آنے والا ہے جس کی خبروں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس قدر سخت انتظامات کیے گئے ہیں، کہ اب ہم عالمِ بالا میں سُن گُن لینے کا کوئی موقع نہیں پاتے اور جدھر بھی جاتے ہیں مار بھگائے جاتے ہیں۔یعنی ایک شہاب ہم پر ٹوت پڑتا ہے۔ جنوں نے کہا کہ آیت11میں ’’اور یہ کہ ہم میں سے نیک بھی ہیں اور اس کے سوا بھی ہیں،ہم مختلف طریقوں (مذاہب) پر تھے، پھر کہا کہ ہم نے ہدایت کی بات سنی تو اس پر ایمان لے آئے، آگے کہا کہ ہم میں مسلمان بھی ہیں ظالم بھی، پھر جو کوئی اسلام لائے تو انہوں نے ہدایت کی راہ دھونڈلی لیکن جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔ یہاں رسول اﷲ ﷺ کی دعوت کا ذکر ہوا ہے کہ آپ نے اﷲ کے حکم کے مطابق انسانوں کو ایمان اور توحید کی دعوت دی اور اپنے بارے میں فرمایا کہ میں صرف اﷲ کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ، مسجدیں اﷲ ہی کے لیے ہیں۔ جنوں کے تذکرے کے بعد کہا گیاکہ ’’وہی عالم غیب ہے وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا، سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے، پھر بے شک وہ اس رسول کے آگے اور پیچھے نگہباں لگا دیتا ے تاکہ وہ معلوم کرے کہ انہوں نے اپنے رب کے پیغام دیے ہیں اور اس نے ان کے گرد وپیش کا احاطہ کیا ہوا ہے اور اس نے ہر چیز کو شمار کررکھا ہے‘۔
سُوْرۃٓ ا لْمُزّٰمِّلِ
سُوْرۃٓ ا لْمُزّٰمِّلِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے تیھترویں(73)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے3ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکوع ،20آیات ہیں۔اس میں نبی آخرحضرت محمد ﷺ کی زندگی اور شخصیت کے نمایاں پہلوؤں کا بیان ہے۔ مزمل کا مطلب ہے ’’کپڑے میں لپٹنے والا‘‘۔ جس وقت اس سورۂ کا نزول ہوا اس وقت آپﷺ چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے، اﷲ نے بہت ہی پیار سے آپ ﷺ کو مخاطب کیا ’اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے ، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر آدھی رات یا اس سے کچھ کم ، ا س سے کچھ زیادہ بڑھالو ، اور قرآن کو خوب ٹہر ٹہر کر پڑھو، ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں‘‘۔ پھر ’تلقین کی گئی کہ سب سے کٹ کر اس خداکے ہورہو جو ساری کائینات کا مالک ہے‘، وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے اس کے سوا کوئی خدا نہیں ، اسی کو اپنا وکیل بنالو اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ ان سے الگ ہوجاؤ۔ان جھٹلانے والوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو،ا س کے بعدمکہ کے ان لوگوں کو ، جو رسول ﷺ کی مخالفت کرتے تھے متنبہ کیا گیا کہ ا سی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا ، فرعون نے بات نہیں مانی اس کا انجام تمہارے سامنے ہے ۔ اس سورۂ میں نماز قائم کرنے ، زکوٰۃ دینے اور اﷲ کو اچھا قرض حسنہ دینے کی ہدایت کی گئی، قرض سے مراد اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیجا ، اچھے اعمال کیے، اﷲ کی ہدایت پر عمل کیا، کہا اﷲ تعالیٰ نے ’جو کچھ آگے بھیجو گے اسے اﷲ کے ہاں موجود پاؤگے وہی زیادہ بہتر اور اس کا اجر بہت بڑا ہے اﷲ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اﷲ بڑا غفور و رحیم ہے‘‘۔
سُوْرۃٓ الْمُدَّثِّرِ
سُوْرۃٓ الْمُدَّثِّرِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چوھترویں(74)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے چوتھی سورۃ ہے۔ اس میں2رکوع ،56آیات ہیں۔یہ سورۂ اس اعتبار سے بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اﷲ نے جب پہلی وحی نازل فرمائی تو رسول اﷲ ﷺ پر اس کے کچھ اثرات ہوئے، حالانکہ وہ سورہ ٔ علق کی ابتدائی آیات تھیں لیکن ایک تغیر و تدیلی ، اہم ذمہ داری ، جبرائیل کا آنا، پیغا م پہچانا ، ساری باتوں کا فوری اثر تو ہونا ہی تھا ، اﷲ اس کیفیت سے بخوبی آگاہ تھا اس نے کچھ توقف کیا تاکہ آپﷺ پہلی وحی کی اس کیفیت سے نکل آئیں ، اس میں تو صرف ابتدائیہ یا تعارف ہی تھا، یہ تفصیل نہیں تھی کہ آپ ﷺ کو کرنا کیا ہے۔ سورۂ کا پیغام یہ تھا کہ ’’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی ،پڑھو اور تمہارارب بڑاکریم ہے جس نے قلم سے علم سکھایا ، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا‘‘۔ کچھ وقفہ کے بعد وحی کا دوبارہ سلسلہ شروع ہوا اور سورہ ’المدثر‘ کی ابتدائی سات آیات نازل کی گئیں۔ جن میں آپﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ ڈرائیں اس قوم کو جس پر وہ چل رہی ہے۔
پہلی آیت نبی ﷺ سے اس طرح خطاب کیا’’اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے ! اٹھو اورخبر دار کرو ۔ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرواوراپنے کپڑے پاک رکھو، اور گندگی سے دور رہو اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے اورآپ رب کی خطر صبر کرو‘‘۔ آپ سے کہا گیا کہ اہل مکہ کو ڈرائیں اگر وہ ایما نہ لائیں تو،منکرین کو خبردار کیا، جو کچھ وہ کررہے ہیں اس کا انجام وہ قیامت کے روز دیکھ لیں گے۔ قیامت کا دن کافروں پر بھاری ہوگا، ولید بن مُغیرہ کا نام لیے بغیر یہ بتایا کہ اﷲ نے اس کو کیا کچھ نعمتیں نہیں دیں لیکن ان کا جواب اس نے حق دشمنی کے ساتھ دیا، اﷲ نے کہا کہ ’’بلاشبہ وہ ہماری آیات سے سخت عناد رکھتاہے، میں اسے جلد مشکل میں گرفتار کرونگا۔دوزخ کی ہولناکیوں کا ذکر ہے، کہا گیا کہ آیت 31میں’’ ہم نے فرشتے ہی دوزخ کے نگراں بنائے ہیں‘‘۔کفار کے اصل مرض کی اصل جڑ بتا تے ہوئے کہا کہ وہ اپنے لیے دنیاوی زندگی کے خواہ ہیں، آخر میں صاف صاف فرمایا کہ اﷲ کو کسی کے ایمان کی کوئی ضرورت نہیں ، قرآن نصیحت ہے، تو جوکوئی چاہے یاد کرے، اور وہ کفار اسے یاد نہیں کریں گے مگر یہ کہ اﷲ چاہے وہی تقویٰ کے لائق اور مغفرت کے لائق ہیں‘‘۔
سُوْرۃٓ ا لْقِیٰمَۃِ
سُوْرۃٓ ا لْقِیٰمَۃِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے پچھترویں(75)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے31ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکوع ،40آیات ہیں۔اس سورۂ کا موضوع مرنے کے بعد کی زندگی ہے، جس پر ہماراایمان ہے، یہ ایمان کا اہم رکن ہے، اس سورہ میں قیامت کے حالات ، واقعات ، عذاب کا تذکرہ ہے ۔ قریب الموت انسان کی کیفیت بتائی گئی ہے۔ اس کا آغا ز اس طرح ہوا۔’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ، اور قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی ، کیا انسان سمجھتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہیں کرپائی گے، کیوں نہیں، بلکہ ہم تو اس کی پورپور ٹھیک کرنے پر قادر ہیں‘‘۔ قیامت کا منظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’چاند گہنا جائے گا، اور سورج اور چاند جمع کردیے جائیں گے، انسان کو راہ فرار نہیں ملے گی۔ فرمایا !نبی ﷺ کو قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کوحرکت نہ دیں ، یقینا اس کا آپ کے سینے میں جمع کرنا ،آپ کا اس کا پڑھوانا ہمارے ذمے ہے، پھر جب ہم اسے پڑھواچکیں تو آپ اس کے پڑھنے کی اتبا کریں۔ محشر کے دن دوطرح کے چہروں کا ذکر کیا جن کے چہرے پریشان ، تصور کریں گے کہ ان کے ساتھ کمرتوڑ معاملہ کیا جائے گا، اس وقت یہ بھی کہا جائے گا کہ کون ہے جھاڑ پھونک کرنے والا۔ دوسرے وہ لوگ ہوں گے جن کے چہرے روشن ہوں گے اور وہ اﷲ کی زیارت سے مشرف ہوں گے۔آخر میں انسان کی تخلیق کے عمل کی وضاحت کی گئی ہے، یعنی مرد اور عورت کے جوڑا بنایا ، کہا کہ ’’کیا وہ اﷲ اس بات پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کردے‘‘َ
سُوْرۃٓ ا لدَّھْرِ ؍سُورۃ الا نسان
سُوْرۃٓ ا لدَّھْرِِ مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چیھترویں(76)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے98ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکوع ،31آیات ہیں۔اس کا ایک نام سورۃ الانسان بھی ہے۔ اس کا بنیادی موضوع انسان کو دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت سے آگاہ کرنا ہے۔نبی ﷺ اس سورہ کی تلاوت جمعہ کے دن فجر میں کیا کرتے تھے۔ پہلی آیت میں کہا ’’کیا انسان پر لامتناہی زمانے کا ایک وقت ایسا بھی گزرا ے جب وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا‘، پھر انسان کے پیدائش کا بتا یا ، اسے سننے اور دیکھنے کی صلاحیت دی، اسے شکر کرنے والا اور کفر کا راستہ دکھایا۔ فرمایا کہ کفر کرنے والوں کے لیے طوق اور بھڑکتی ہوئی آگ جب کہ نیک لوگ جنت میں شراب کے ایسے ساغر پئیں گے جن میں آبِ کافور کی آمیزش ہوگی، یہ ایک بہتا چشمہ ہوگا ، اور بے شمار چیزوں کا ذکر کیا گیا جو اہل جنت کو میسر کی جائیں گی ان کے برعکس کفار یا ناشکروں کے لیے آخرت میں زنجیریں، طوق اور شعلو والی آگ تیار رکھی ہے ، شکر گزاروں کی تین نشانیاں بیان کیں ایک وہ جب کوئی نذرمان لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں ، دوسرے یہ کہ وہ قیامت کے دن سے ڈرتے ہیں، تیسرے یہ کہ محض اﷲ کی رضاہ کے لیے مسکینوں ، یتیموں، اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں، ان کے صبر کا نتیجہ انہیں جنت کی صورت میں دیا جائے گا، جہاں نہ گرمی ہوگی نہ کوئی دکھ اور غم، اﷲ کی بے بہا نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ آخر میں کہا’’یقینا اﷲ بڑا علیم و حکیم ہے اپنی رحمت میں سے جس کو چاہتا ہے داخل کرتا ہے اور ظالموں کے لیے اس نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔
سُوْرۃٓ ا لْمُرسَلٰتِ
سُوْرۃٓ ا لْمُرسَلٰتِ مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے ستترویں(77)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 33ویں سورۃ ہے۔ اس میں2رکو ع،33آیات ہیں۔اس کا موضوع قیامت اور آخرت کا اِثبات اور ان نائج سے لوگون کو خبردار کرنا ہے۔
اولین آیت میں ہواؤں کی قسم کھاتے ہوئے کہا ’’قسم ہے اُن ہواؤں کی جوپے در پے بھیجی جاتی ہیں ، پھر طوفانی رفتار سے چلتی ہیں اور بادلوں کو اٹھا کر پھیلادیتی ہیں، پھر ان کو پھاڑ کر جداکرتی ے ، پھر دلوں میں خدا کی یادڈالتی ہے ، عذر کے طور پر یا ڈر اوے کے طور پر جس چیز کا تم سے وعدہ کی جارہا ہے وہ ضرور واقع ہونے والی ہے۔یہ سورۃ ان نشانیوں کی جانب بیان کرتی ہے جو قیامت کے قریب واقع ہوں گی جیسے ستارے بے نور ہوجائیں گے، آسمان توڑ پھوڑ دیا جائے گا، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر اڑادیے جائیں گے ۔قیامت جو کہ ’’یوم الفسل‘‘ ہے ، اس دن مخلوق کے درمیان عدل و انصاف پر مبنی فیصلہ کیا جائے گا، جھٹلانے والوں کے لیے تباہی کی نوید سنائی، اس بات کی تکرار کی گئی جس کا مقصد اس کی اہمت ، تخویف اور ترہیب ہے،آخرت کے منکرین کا اور اس کے بعد ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا ہے جنہوں نے اس پر ایمان لا کر دنیا میں اپنی عاقبت سنور نے کی کوشش کی ہے ۔ اس میں مجرمین وابقین کا ذکر بھی ہے جنہیں اﷲ نے تباہ وبرباد کردیا اور مخاطبین سے سوال کرتی ہے یہ سورۃ کہ کیا ہم نے تم کو حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا ؟ پھر خوبصورت انسان بنایا، انسان کو دوبارہ زندہ کرنے کی بات کی گئی ہے، اور آخر میں مجرموں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کھاپی لو! اور تھوڑے سے مزے اڑالو! بالآ خر تمہارے لیے ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔مختصر یہ کہ جو بڑی سے بڑی چیز انسان کو حق و باطل کا فرق سمجھانے والی اور ہدایت کا راستہ دکھانے والی ہوسکتی تھی وہ قرآن کی صورت میں نازل کر دی گئی ہے۔ اس کو پڑھ کر یا سن کر اگرکوئی شخص ایمان نہیں لاتا تو اس کے بعد پھر اور کیا چیز ایسی ہوسکتی ہے جو اس کا راہ راست پر لاسکتی ہے۔ (29رمضان المبارک 1440ھ ،4 جون2019ء)

پارہ30 ( عَمَّ )
تیسویں پارہ کی قسط نمبر1

عَمَّ ‘قرآن کریم کاتیسواں (30) اور آخری پارہ ہے ۔ عَمَّکا مطلب ہے ’’ کس بات کے بارے میں )، اس پارہ میں 37) ) سورتیں ہیں ۔ ان میں سُوْرۃٓ النَّبَا، سُوْرۃٓ النّزِعٰتِ، سُوْرۃٓ عَبَسَ، سُوْرۃٓ التَّکْوِْیرِ، سُوْرۃٓ الْاِنْفِطَارِ، سُوْرۃٓ المُطَفِّینَْ، سُوْرۃٓ الْا شِقَاقِ، سُوْرۃٓ الْبُرُوْجِ،سُوْرۃٓ الطَارِقِ، سُوْرۃٓ الْاَعْلیٰ، سُوْرۃٓ الْغَشِیَۃِ، سُوْرۃٓ الْفَجْرِ، سُوْرۃٓ الْبَلَدِ ، سُوْرۃٓ الشَّمْسِ، سُوْرۃٓ الَّیْلِ، سُوْرۃٓ الضُّحٰی، سُوْرۃٓ اَلَمْ نَشْرَحْ، سُوْرۃٓ التِّیْنِ، سُوْرۃٓ الْعَلَق ، سُوْرۃٓ الْقَدْرِِ، سُوْرۃٓ اْلبَیِنَۃِ ، سُوْرۃٓ الزِلْزَالِ ، سُوْرۃٓ الْعٰدِیٰتِ ، سُوْرۃٓ الْقَارِعَۃ ، سُوْرۃٓ

الَّتَّکَا ثُرِ، سُوْرۃٓ الْعَصرِ، سُوْرۃٓ الْحُمَزَۃ، سُوْرۃٓ الْفِیْلِ ، سُوْرۃٓ قُرَیْش ، سُوْرۃٓ اْلمَاعُون ، سُوْرۃٓ الْکَوْثَر، سُوْرۃٓ الْکٰفِرُوْن ، َسُوْرۃٓ النَّصْر، سُوْرۃٓ اللّھَبِ، سُوْرۃٓ الْاِخْلَاصِ ، سُوْرۃٓ الْفَلَقِ، سُوْرۃٓ النَّاسِ شامل ہیں ۔

سُوْرۃٓ النَّبَا :

سُوْرۃٓ النَّبَا مکی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اٹھانوی (78)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 80 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکو ،40آیات ہیں ۔ اس میں شرعی احکامات ، منافقین کا تذکرہ ہے ۔ اس سورہَ کا موضوع آخرت کا اِثبات اور اس کے ماننے یا ناماننے کے نتاءج سے لوگوں کا خبردار کرنا ہے ۔ عربی میں لفظ’ نبا‘ سے مطلب ’بڑی یا عظیم خبر‘ کے ہیں ، مفسرین نے اس بڑی خبر کے بارے میں ، جس سے کفار اختلاف کرتے ہیں کہا ،’’ ہرگزنہیں ! جلد ہی وہ جان لیں گے‘‘ ۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو بنوت کے منصب پر فائز کیا ، تو آپ ﷺ نے توحید، رسالت ، آخرت وقیامت کے بارے میں قرآنی آیات مکہ والوں کو سنائیں تو انہیں حیرت ہوئی اور پوچھا کہ کیا واقعی یہ کتاب اللہ کی جانب سے نازل کی گی ہے، جیسا کہ محمد ﷺ کہتے ہیں کہ قیامت آئے گی، مرنے کے بعد آخرت میں ہ میں دوبارہ اٹھایا جائے گا، وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر اللہ نے منکرین کوجواب دیا کہ وہ ’جلد ہی وہ جان لیں گے‘ ، اس سورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کا آغاز تین بنیادی باتوں سے ہوا ’ایک اللہ کا کوئی شریک نہیں ‘،’ دوسرے آپﷺ اللہ کے نبی ہیں ‘اور’ تیسری قیامت کے دن پر ایمان ، آخرت میں حساب کتاب ہوگا‘، مومن اور صالحہ جنت میں اور کافر و مشرک دوزخ میں ۔ پہلی آیت میں کہا گیا ۔ بڑی عظیم خبر قیامت اور آخرت کے بارے میں تھی جسے مکہ کے کفار بڑی حیرانی اور تعجب سے سنا کرتے تھے، اس سے پریشان بھی تھے اور اس کا مزاق بھی زیادہ اڑایا کرتے تھے، آپس میں چہ میگوئیاں بھی اسی موضوع پر ہوا کرتی تھیں ۔ یعنی انہیں عجیب لگ رہا تھا کہ انسان مرکردوبارہ زندہ ہوگا ۔ پھر آیت 5سے16اللہ تبارک و اتعالیٰ نے کائینات میں پیدا کردہ چیزیں بشمول انسان کے بارے میں مشرکین کی حیرت کا جواب دیتے ہوا فرمایا کہ ’’کیا ہم نے زمین کو بچھونا، پہاڑ وں کو میخیں ، انسان کو جوڑجوڑا پیدا نہیں کیا، نیند کو آرام کا ذریعہ نہیں بنایا، رات کو انسان کے لیے لباس بنایا، دن کو روزی کمانے کا ذریعہ ،سات آسمان، سورج، بارش، اناج، سبزہ، گھنے باغات نہیں اگائے ، انسان کے لیے ساری نعمتوں کو گنوایا گیا پھر آیت17 میں قیامت و آخرت کا ذکر کرتے ہوئے صُور پھونکنے اور سب کو اللہ کی عدالت میں حاضر ہوجانے کی بات کی ، جہنم کو ایک گھات قرار دیا ، سرکشوں کا ٹھکانا ، وہاں ان کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہوں گی ، اللہ کہے گا کہ تم نے میرے پیغام پر عمل نہ کیا بلکہ جھٹلایا اب چکھو مزا، انسان کا ہر ہر عمل اللہ کے پاس لکھا ہوا ہے لوح محفوظ میں ، جنہوں نے کفر کیا انہیں ان کا عمال نامہ دکھا دیا جائے گا، متقیوں کے لیے جنت ہوگی جہاں ہر نعمت انہیں میسر ہوگی ۔ کہا آیت 21سے28 میں ’’بیشک دوزخ تاک میں ہے، سرکشوں کا ٹھکانہ ہے، وہ اس میں مدتوں پڑے رہیں گے، وہ اس میں کسی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے نہ کسی مشروب کا، ہاں مگر کھولتا پانی اور بہتی پیپ، یہ ہے بدلہ پورا ، انہیں تو حساب کی امید ہی نہ تھی، انہوں نے ہماری آیات کو بے دریغ جھٹلایا ‘‘ ۔ جنہوں نے آخرت کی فکرکی انہیں اطمینان دلا یا گیا ، باغات، نوجوان ہم عمر عورتیں ، چھلکتے جام، وہ جنت میں بیہودہ باتیں سنیں گے اور نہ جوٹ، ۔ آخر میں اللہ کی عدالت کا نقشہ کھینچاگیا ہے، کہ وہاں کسی کی کوئی سفارش نہ چلے گی، یہ دن برحق ہے، اس دن انسان وہ سب کچھ دیکھے گا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے آگے بھیجا ہوگا اور کافر کہے گا : کاش میں مٹی ہوجاتا ۔ یعنی ہمارے اعمال ہمارے ساتھ ہوں گے ، نیک لوگ خوش ہوں گے جب کہ دوزخ میں جانے والے افسوس کریں گے اپنے اعمال ہر ۔

جاری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1280429 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More