قرآن کریم : پارہ28 ( قدْسَمِعَ اللّٰہ ) خلاصہ

ٓقدْسَمِعَ اللّٰہ ‘قرآن کریم کا اٹھائیسواں (28) پارہ ہے ۔ ٓقدْسَمِعَ اللّٰہ کا مطلب ہے ’’یقینا سن لی اللہ نے ‘‘ اس پارہ میں نو(9) سورتیں ہیں ۔ ان میں سُوْرۃٓ الْمُجَادَلۃٓ، سُوْرۃٓ الحَشْر، سُوْرۃٓ الممُتَحِنَۃ، سُوْرۃٓ الصّٰف، سُوْرۃٓ الْجُمُعَۃ ، سُوْرۃٓ الْمُنٰفِقُوْن، سُوْرۃٓ التَّغَابُن، سُوْرۃٓ الطّلاَق، سُوْرۃٓ التَّحْریْم شامل ہیں ۔

سُوْرۃٓ الْمُجَادَلۃ

سُوْرۃٓ الْمُجَادَلۃٓ مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اٹھانوی (58)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 105 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکوع ،22آیات ہیں ۔ اس میں شرعی احکامات ، منافقین کی سرگوشیاں ، مجلسی تہذیب کے آداب ، ضرورت سے زیادہ کسی کا وقت لینا، رسول اکرم ﷺ سے تخلے میں بات کرنے کی خواہش، انسان کے مخلص ہونے کا بیان ہے ۔

فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کررہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کررہی تھی ، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال و جواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے دیکھنے والا ہے‘‘ ۔ یہاں تین چیزیں وضاحت طلب ہیں ، وہ عورت کون تھی;238;، رسول ﷺ سے اپنے شوہر کے بارے میں کیا بات کررہی تھی ، ، تیسری چیز تکرار کس بات پر تھی ۔ عربی میں مجادلہ سے مراد تکرار کے ہیں یا بحث و مباحثہ، اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’سورہ مجادلہ ‘‘ ہوگیا ۔ یہ واقعہ ہے حضرت خولہ بنت مالک بن ثعلبہ رضی اللہ عنہا کا ہے ،ان کے خاوند حضرت اوس صامت رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی سے ’’ظہار ‘‘ کر لیا، ظہار کا مطلب ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو یہ کہہ دے کہ ’تو مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے، زمانہ جہالیت میں ظہار کو طلاق سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا تھا ، اس لیے کہ طلاق میں تو ایک صورت رجوع کرنے کی ہوتی ہے لیکن اس’ ظہار ‘ میں اُس وقت یہ گنجائش بھی نہیں تھی، حضر ت خولہ اس مسئلہ کو لے کر سخت پریشان تھیں ، اس وقت تک اس مسئلہ اور اس مشکل کے بارے میں کوئی حکم یا کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی،وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور اپنا مدعا بیان کیا،ان کا خیال یہ ہوگا کہ نبی ﷺ انہیں فوری ان کے مطلب کا کوئی فیصلہ سنادیں گے لیکن آپ ﷺ نے کچھ توقف فرمایا ، اور وہ آپ ﷺ سے مسلسل بحث و تکرار کرتی رہیں ، اللہ تعالیٰ یہ بحث و تکرار سن رہا تھا، چنانچہ رسول اکرم کی اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اللہ پاک نے یہ آیات نازل ہوئی، جس میں مسئلہ’ ظہار‘ اور اس کا حکم و کفارہ بیان فرمادیا گیا ۔

اللہ تعالیٰ نے’ ظہار ‘ کا جو حکم نازل فرمایا ’تم میں سے جو لوگ اپنی بیوریوں سے ظہار کرتے ہیں یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں وہ در اصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے، یقینا لوگ یہ نا معقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے‘ ۔ تیسری اور چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کی اور زیادہ کھل کر وضاحت کی، کہا ’’جو لوگ اپنی بیوریوں سے ظہار کریں ، پھر اپنی کہی ہوئی بات سے رجوع کرلیں توان کے ذمہ آپس میں ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ایک غلا م آزاد کرنا ہے، اس کے ذریعہ تم نصیحت کیے جاتے ہو اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے‘‘ ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہر طرح سے آسانیاں اور سہولتیں فراہم کرتا ہے ۔ آیت چار میں کہا ’’ہاں جو شخص نہ پائے اس کے ذمہ دو مہینوں کے لگاتار روزے ہیں اس سے پہلے کہ ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں اور جس شخص کو یہ طاقت بھی نہ ہو اس پر ساٹھ مسکینوں کا کھانا کھلانا ہے، یہ اس لیے کہ تم اللہ کی اور اس کے رسول کی حکم برداری کرو، یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور کفارہی کے لیے درد نا ک عذاب ہے‘‘ ۔

فرمایا اللہ پاک نے ’کیا تم کو معلوم نہیں زمین وآسمان میں ہر چیز کا علم اللہ کو ہے ، کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ تین آدمیوں میں کوئی سرگوشی ہو اور ان کے درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یاپانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان میں چھٹا اللہ نہ ہو، خفیہ بات کرنے والوں کے ساتھ اللہ ہوتا ہے، قیامت کے دن اللہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا‘ ۔ در اصل یہ بات اللہ نے مشرکین کے لیے کہی جو اس وقت چھپ چھپ کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلا ف سرگوشیاں کیا کرتے تھے ۔ پوشیدہ طور پر بھی بات کرنے میں گناہ اور رسولﷺ کی نافرمانی سے منع کیا گیا ۔ مجلسوں میں کشادگی پیدا کرنے کا کہا، رسولﷺ سے اگر تخلیہ میں بات کرو تو بات کرنے سے پہلے صدقہ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ، یہ بات بھی اس وقت کی جب لوگوں کی خواہش ہوا کرتی تھی کہ وہ رسول ﷺ سے الگ سے تنہائی میں بات کریں ، یہاں بھی نماز قائم کرنے ،زکوٰۃ دینے اور رسول کی اطاعت کا حکم ہے،مکہ کے مشرکین سے کہا کہ یہودیوں کی دوستی کے بارے میں کہ یہ نہ تمہارے ہیں نہ ان کے، یہ اپنے مومن ہونے کی قس میں بھی کھاتے ہیں ،انہیں جھوٹا کہا اللہ نے، انہیں اللہ نے’ حزبِ الشیطٰن‘ یعنی شیطان کی جماعت قرار دیا، یہ ذلیل ترین مخلوقات میں سے ہیں ، جو لوگ ایمان لائے آخرت پر ان کے لیے نعمتوں کا ذکر ہیں ، وہ جنت میں جائیں گے اور ان سے اللہ راضی ہوگیا ہے، وہ اللہ کی جماعت کے لوگ ہیں ، کہا گیا خبردار ! اللہ کی جماعت والے ہی فلاح پانے والے ہیں ۔

سُوْرۃٓ الحَشْر

ٓ سُوْرۃٓ الحَشْر مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے انسٹھویں (59)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 101 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 3رکوع ،59آیات ہیں ۔ یہ سورہ غزوہ َ بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس طرح سورہ انفال غزوہَ بدر کے بارے میں نازل ہوئی ۔ یہ واقع غزوہَ بدر کے چھ مہینے بعد ہوا، بعض نے اسے ربیع الا ول ۴ ہجری کا لکھا ہے ۔ اس اعتبار سے اس سورہ کا موضوع جنگ بنی نضیر کے حالات ، اس کے انجام سے عبرت دلائی گئی ، جنگ کے قاعدہ ، ضروریات، زمینوں اور جائیدادوں کو بندوبست، جنگ کے موقع پر مشرکین کا رویہ اس کے خاص موضوعات ہیں ۔ حشر کے معنی ہیں منتشر افراد کو یکجا کرنا، یہاں حشر سے مراد یہ بھی لیاگیا کہ بنی نضیر کا مدینے سے اخراج ، ان کا دوسرا حشر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ہوا جب یہودو نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکالا گیا، اور آخری حشر قیامت کے روز ہوگا، اس سے مراد مسلمانوں کی فوج کا ایک جگہ جمع کرنا بھی ہے ۔

یثرب کے قریب یہودیوں کا ایک بڑا گروہ آباد تھا، جو مضبوط اور ہر طرح سے مستحکم تھا، انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے مضبوط قلعے تعمیر کیے ہوئے تھے، یثرب کو مختلف طریقے سے اپنے شکنجے میں لیا ہوا تھا، ان کا خیال تھا کہ انہیں اس جگہ سے کوئی نہیں نکال سکتا، اس سورہ کی پہلی آیت میں کہا گیا کہ ’اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہی غالب اور حکیم ہے‘‘ ۔ اہل کتاب کافروں کو گھروں سے نکالا ،یہ وہی کفار تھے جو بنو نضیر میں آباد تھے ۔ اللہ نے انہیں وہاں سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا، ان کے ظاہری اسباب اور قوت ان کے کام نہ آسکے، یہ نوبت ان کی عہد شکنی، تکذیب و انکاراور سرکشی کی وجہ سے تھی ۔ بنو نضیر جب وہاں سے چلے گئے تو مال غنیمت مسلمانوں کے قبضے میں آیا، اس مال فیَ کے بارے میں اللہ نے احکامات دیئے، کہا آیت7 میں کہ بستی والوں کا جومال اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر ہاتھ لگا ہے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور غریبوں ، فقراء ، ضعفاء ، مساکین، حاجتمندوں کا ہے ۔ کہا گیا کہ اہل نار اور اہل جنت برابر نہیں ، آیت 21 میں فرمایا کہ ’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اترارتے تو تم دیکھتے کہ خوف الہٰی سے وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا، یہاں انسان کو سمجھایا جارہا ہے کہ عقل و فہم کے باوجود اگر قرآن سن کر تو کوئی اثر قبول نہیں کررہا تو تیرا انجام اچھا نہیں ہوگا ۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، آخری آیت میں کہا گیا کہ ’’وہی اللہ ہے پیدا کرنے والا ، وجود بخشنے والا، صورت بنانے والا، اسی کے لیے اچھے نام ، ہر چیز خواہ وہ آسمانوں میں ہو خواہ زمین میں ہو اس کی پاکی بیان کرتی ہے، اور وہی غالب حکمت والا ہے ۔

سُوْرۃٓ الممُتَحِنَۃ

سُوْرۃٓ الممُتَحِنَۃ مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے ساٹھویں (60)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 91ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکوع ،13آیات ہیں ۔ اس سورہ کے نازل ہونے کے اسباب کچھ اس طرح سے بیان ہوئے ہیں کہ اہل مکہ نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزیاں شروع کردیں اور مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی منصوبہ بندی کرنے لگے، جب رسول اللہ ﷺ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ ﷺ نے بھی مسلمانوں کو خفیہ طور پر جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا، مکہ میں بے شمار صحابہ کے عزیز رشتہ دار مقیم تھے، حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضہ اللہ عنہ کے بیوی بچے مکہ میں تھے، ان کی وہاں کوئی اور قریش سے رشتہ داری نہ تھی، انہوں نے سوچا کہ وہ قریش مکہ کو مسلمانوں کی جنگی تیاری کی خبر کردیں تاکہ وہ میرے اس احسان کے بدلے میں میری بیوی بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں ، انہوں نے ایک عورت کے ذریعہ تحریری طور پر قریش کے سردار کے نام یہ تفصیل لکھی اور اسے مکہ روانہ کردیا، وہ عورت مکہ کے لیے رونہ ہوگئی، اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی ﷺ کو وحی کے ذریعہ اطلاع کردی، آپ ﷺ نے حضرت علی ، حضرت مقداد اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم سے کہا کہ جاوَ روضہَ خاخ پر ایک عورت ہوگی ، جو مکہ جارہی ہوگی، اس کے پاس ایک رقعہ ہے، وہ لے آوَ چنانچہ وہ حضرات گئے اور اس سے یہ رقعہ لے آئے جو اس نے سر کے بالوں میں چھپا رکھا تھا، آپ ﷺ نے حاطب رضی اللہ عنہ کو طلب کیا اور پوچھا کہ ایسا کیوں کیا، انہوں نے سچ سچ بتا دیا، میرا مقصد مسلمانوں سے غداری کرنا ہرگز نہیں تھا صرف اپنے بچوں کی حفاظت کی خاطر ایسا کیا ۔ آپ ﷺ نے ان کی سچائی کی وجہ سے نہیں کچھ نہیں کہا، تاہم اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کے طور پر یہ اس سورہ میں کچھ آیات نازل فرمائیں ۔

پہلی سورۃ میں فرمایا اللہ نے ’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! میرے اور خود اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناوَ ، تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں ، پیغمبر کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے جلا وطن کرتے ہیں کہ تم اپنے رب پر ایمان رکھتے ہو ، اگر تم میری راہ میں جہاد کے لیے اور میری طلب میں نکلتے ہو ان سے دوستیاں نہ کرو،تم ان کے پاس دوستی کا پیغام پوشیدہ پوشیدہ بھیجتے ہواور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپا یا اور وہ بھی جو تم نے ظاہر کیا ، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا وہ یقینا راہ راست سے بہک جائے گا‘‘ ۔ کہا آیت 4 میں مسلمانوں ! تمہارے لیے حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے‘‘ ۔ مدینہ سے جو عورتیں ہجرت کر کے مدینہ آئیں انہیں واپس نہ کرنے کا حکم اس سورہ کی آیت 10 میں دیا گیا ۔ قصہ کچھ اس طرح ہوا کہ ہجرت کے بعدبعض مرد مسلمان ہوکر مکہ آتے رہے، ان کی بیویاں مکہ میں رہیں ، بعض عورتیں بھی مدینہ آئیں ان کے شوہر مکہ میں رہے، ایسا بھی تھا کہ شوہر مسلمان تو بیوی کافر، بیوی مسلمان تو شوہر کافر ، اب کبھی شوہر کاکبھی بیوی کا مکہ جانا اپنے بچوں سے ملاقت کے لیے بھی ضروری ہی تھا ۔ صلحہ حدیبیہ کی شرائط کی روسے جو مکہ سے بھاگ کر مدینہ چلا جائے گا ، اہل مدینہ اسے واپس کردینے کے پابند تھے، جب کوئی مرد یا عورت مدینہ بھاگ کر آتا قریش اس کی واپسی کا مطالبہ کردیا کرتے، یہ صور حال خاصی پیچیدہ اور مشکل ہوگئی تھی، آپ ﷺ اس وقت کچھ پریشان ہوئے جب مدینہ آنے والی ایک عورت جس کا شوہر کافر بھی تھا مکہ والوں کو واپس کرنے کا مرحلہ آیا، اس موقع پر اللہ نے آپ ﷺ کی رہنمائی فرمائی ، فرمایا کہ ’اگر وہ مسلمان ہوں ور اطمینان کر لیا جائے کہ واقعی وہ ایمان ہی کی خاطر ہجرت کر کے آئی ہیں ، کوئی اور چیز انہیں نہیں لائی تو انہیں واپس نہ کیا جائے‘‘ ۔ اللہ کے حکم کے بعد صلح حدیبیہ کی شرائط کی بھی کوئی حیثیت نہ رہی، اس آیت میں قانونِ شہادت کا بھی ایک اصول بیان کردیا گیا، ان مسلمان عورتوں کے لیے کہا گیا جن کے شوہر کافر تھے کہ وہ ان کے لیے حلال نہیں اور نہ کفار ان کے لیے حلال،ان کے کافر شوہروں نے جو مہر ان کو دیے تھے وہ انہیں واپس کردو، مردوں کو بھی حکم دیا گیا کہ تم خود بھی کافر عورت اپنے نکاح میں نہ رکھو، اگر مہروں کا تبادلہ نہ ہو اور کافر بیویاں مکہ میں رہ گئیں ہوں تو ان کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا ۔ فرمایا رسول ﷺ سے ،مومن عورتیں جو صدق دل سے ایمان لے آئیں بیعت لے لو، یہ بیعت اس وقت لی جاتی تھی جب عورتیں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آیا کرتی تھیں ۔ آخر میں اللہ نے پھر اپنی بات دہرائی کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اُن کو دوست نہ بناوَ جن پر اللہ نے غصب فرمایا جو آخرت سے اسی طرح مایوس ہیں جس طرح قبروں میں پڑے ہوئے کافر مایوس ہیں ‘‘ ۔

سُوْرۃٓ الصّٰف

سُوْرۃٓ الصّٰفمدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے اکسٹھویں (61)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 109 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکو ع،14آیات ہیں ۔ اس سورہ کا موضوع مسلمان کو ایمان میں اخلاص اختیار کرنے اور اللہ کی راہ میں قربانی دینے کی تیاری ، ضعف الا یمان مسلمانوں سے بھی خطاب ہے، کہیں مومن کہیں مشرکین سے خطاب ہے ۔ اس سورہ کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ آپس میں بات کررہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند یدہ عمل ہیں ، وہ رسول ﷺ سے پوچھنے چاہئیں تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے ، لیکن مسئلہ یہ درپیش تھا کہ آپﷺ کے پاس کون جائے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی ۔ گویا یہ سورہ ’’سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال ‘‘ سے بحث کرتی ہے ۔

پہلی آیت میں فرمایا اللہ تعالیٰ نے ’اللہ کی تسبیح کہ ہے ہر اُس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے، اور وہ غالب اور حکیم ہے‘ ۔ پھر کہا اللہ نے ’اے لوگوں ! جو ایمان لائے ہو ، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو، اللہ کے نذدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں ‘‘ ۔ اس کے بعد وہ واقعہ ہے جسے اوپر بیان کیا جاچکا ۔ آیات5 میں موسیٰ علیہ السلام کاذکر کیا گیا ہے، ان کی قوم نے علم ہونے کے باوجود اعراض کیا ، اللہ نے ان پر عذاب نازل فرمادیا، پھر عیسیٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا ہے ، آیت 6 میں ، عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے رسول اکرم ﷺ کی آمد کی بشارت دی فرمایا ’ میں ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا، اس کا نام احمد ہوگا‘‘ ۔ آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اے ایمان والو!تم اللہ کے مدد گار ہوجاوَ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اللہ کی راہ میں میرا مدد گار کون ہے;238; حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں توبنی اسرئیل میں سے ایک گروہ ایمان لے آیا اور دوسرے گروہ نے کفر کیا ، تو تم نے ان لوگوں کو جو ایمان لائے ، ان کے دشمنوں پر قوت دی تو وہ غا لب آگئے‘‘ ۔

سُوْرۃٓ الْجُمُعَۃ

سُوْرۃٓ الْجُمُعَۃ مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے باسٹھویں (62)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 110 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکوع ،11آیات ہیں ۔ نبی ﷺ جمعہ کی نماز میں سورہ جمعہ اور منافقون پڑھا کرتے تھے ۔ اس سورہ کے دو رکوع دو الگ زمانوں میں نازل ہوئے ، اسی لیے دونوں کے موضوع الگ الگ ہیں ۔ پہلا رکوع اس وقت نازل ہوا جب کفا ر ناکام ہوچکے تھے، یعنی مکہ کے قریش ہتھیار ڈال چکے تھے، مسلمانوں نے دعوت دینے کا کام آزادی اور کھلے عام شروع کردیا تھا، دوسرے ر کوع میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جمعہ عطا فرمایا ۔ جمعہ کی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔

سورہ جمعہ کی پہلی آیت میں فرمایا ’’ اللہ کی تسبیح کرتی ہے جو چیز آسمانون میں اور زمین میں ہے ، وہ بادشاہ ہے نہایت پاک ذات، زبر دست حکمت والا،وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول بھیجا ،انہی میں سے ، وہ اس کی آیات ان پر تلاوت کرتاہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اوربلاشبہ اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں پڑے تھے‘‘ ۔ آیت 5 میں کہا گیا کہ ان لوگو ں کی مثال جنہیں حاملِ’ تورات‘ بنا یا گیا پھر انہوں نے اسے نہیں اٹھایا، اس گدھے کی سی ہے جو کتابیں اٹھاتا ہے ،بڑی مثال ہے اس قوم کی جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔ آیت10 میں کہا گیا کہ اے ایمان والو ! جب اذان دی جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو

تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ و اور خرید و فروخت چھوڑ دو ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو، پھر جب نماز پوری ہوجائے تو تم زمین میں پھیل جاوَ اور اللہ کا فضل تلاش کرواللہ کو کثرت سے یاد کرو ، شاید م فلاح پاوَ‘‘ ۔

سُوْرۃٓ الْمُنٰفِقُوْن

سُوْرۃٓ الْمُنٰفِقُوْنمدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے تریسٹھویں (63)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 104 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکوع ،11آیات ہیں ۔ یہ سورۃ غزوہ َ بنی المصُطَلقِ سے نبی ﷺ کی واپسی پر یا دوران سفر میں نازل ہوئی ، بعض مفسرین نے لکھا کہ رسول اکرم ﷺ کے مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد یہ سورہ نازل ہوئی ۔ یہ غزوہ شعبان 6ھ میں واقع ہوا تھا ۔ اس سورہ میں منافقوں کے اخلاق ، ان کے جھوٹ ، ان کی غلط حرکات، بغض و کینہ، ظاہر اور باطن میں تضاد کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ یہ باتیں دیگر سورتوں میں بھی آئی ہیں لیکن یہ مکمل سورت ہے ہی منافقوں کے بارے میں ۔

پہلی آیت میں ان مفافقوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا ’’اے نبی ﷺ! جب یہ منافق تمہارے پا س آتے ہیں : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ‘‘ ۔ ہاں ، اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اُس کے رسول ہو مگر اللہ گواہہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں ۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستے سے خود رُکتے اور دنیا کو روکتے ہیں ‘‘ ۔ ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے، ان کی ظاہری شکل و صورت دیکھو ان کے جُبے تمہیں بڑے شاندار نظرآئیں گے ، یہ در اصل لکڑی کے کنڈے ہیں جو دیوار میں چن دیے گئے ہیں ، آخر میں مسلمانوں کو سمجھا یاگیا کہ کہیں وہ بھی منافقوں کی طرح مال و اولاد میں مشغول ہوکر اللہ کے ذکر اور اطاعت سے غافل نہ ہوجائیں ، انہیں ترغیب دی گئی کہ موت آجانے سے پہلے خرچ کر لیں ورنہ موت آجانے کے بعد سوائے حسرت کے کچھ باقی نہیں رہے گا ۔

سُوْرۃٓ التَّغَابُن

سُوْرۃٓ التَّغَابُن مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چونسٹھویں ;40@41;اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 108ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکوع ،64آیات ہیں ۔ اس سورہ کا موضوع ایمان و اطاعت کی دعوت دینا، اخلاق حسنی کی تعلیم ہے ۔ ابتداء چار آیات میں خطاب انسانوں سے ہے، پھر ان لوگوں سے جو قرآن کی دعوت کو نہیں مانتے یعنی کفار ، آخر میں پھر مومنین سے خطاب ہے ۔

اللہ کی تسبیح کر رہی ہے کائینات کی ہر چیز، انسان کے مختلف گروہ کے بارے میں کہا کہ کوئی کافر ہے کوئی مومن ، اللہ سب دیکھ رہا ہے، پہلے کفر کرنے والوں ، نبی ﷺ کی باتوں کا انکار کرنے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے، منکرین انکاری ہیں مرنے کے بعد اٹھائے جانے کے ، اللہ نے کہا ان سے کہو کہ تم ضرور اٹھائے جاوَگے، پھر تمہیں بتایا جائے گا کہ تم نے دنیا میں کیا کچھ کیا ۔ ان کے برعکس ایمان والوں پر رحمتیں اور برکتیں ہوں گی، انہیں جنت میں جگہ ملے گی ۔ پھر کہا اللہ نے کوئی مصیبت ، پریشانی اللہ کے اِذن سے آتی ہے، رسول ﷺ کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ آیت 14 میں کہا ’’اے لوگوجو ایمان لائے ہو، تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں ، ان سے ہوشیار رہو ، اور اگر عَفو و درگزر سے کام لو اور معاف کردو تو اللہ غفورور حیم ہے، تمہارے مال اور تمہاری اولاد تو ایک آزمائش ہیں ، اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجر ہے‘‘ ۔ آخر میں کہا گیا کہ اللہ حاضر اور غائب ہر چیز کو جانتا ہے ، زبردست دانا ہے‘‘ ۔

سُوْرۃٓ الطّلاَق

سُوْرۃٓ الطّلاَق مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے پینسٹھویں (65)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 9 9 ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکوع ،12آیات ہیں ۔ موضوع صاف ظاہر ہے طلاق ہی ہے ۔ اس میں طلاق اور عدت کے موضوعات بیان کیے گئے ہیں ۔ ورہ کی اولین آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تم لوگ طلاق دینے کے معاملے میں جلد بازی نہ کیا کرو کہ جوں ہی بیوی سے کوئی جھگڑا ہوا ، فوراً ہی غصے میں آکر طلاق دے ڈالی ۔ طلاق عورت کی عدت سے جڑی ہوئی ہے، اللہ نے فرمایا ’’اے نبی ﷺ! اپنی امت سے کہو کہ جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دیناچاہو تو ان کی عدت کے دنوں کے آغاز‘ میں انہیں طلاق دواور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کھلی برائی کر بیٹھیں ، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جو شخص اللہ کی حدود سے آگے بڑھ جائے اس نے یقینا اپنے اوپر ظلم کیا ، تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ تعالیٰ کوئی نئی بات پیدا کردے گا‘‘ ۔ اس کے بعد عورتوں کے نسوانی مسائل جیسے حیض کی مدت، حاملہ عورتوں کی عدت، بچوں کو دودھ پلانے والی عورتوں کو اجرت کی ادائیگی باہمی رضامندی سے کرنے کی ہدایت ہے ۔ جن لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولوں کے حکم عدولی کی اللہ نے ان بستیوں کو تباہ کردیا، اللہ نے سات آسمان و زمین بنائی، اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔

سُوْرۃٓ التَّحْریْم

سُوْرۃٓ التَّحْریْم مدنی سورۃ ہے، قرآن کریم کی ترتیب کے اعتبار سے چھیاسٹھویں (66)اور نزولِ ترتیب کے اعتبارسے 107ویں سورۃ ہے ۔ اس میں 2رکوع ،12آیات ہیں ۔ یہ سورہ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضوان اللہ علیہماکے متعلق بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چند مہمات مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ تحریم کے واقع میں نبی ﷺ کی ازواج ِ مطہرات سے بعض روایات شامل ہیں ۔

پہلی آیت میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے ، اے نبی ﷺ! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں ;238; کیا آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے‘‘ ۔ سوال جو ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ ہمارے نبی ﷺ نے جس چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا وہ کیا تھی;238;جس پر اللہ نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔ اس حوالے سے دو واقعات مفسرین نے بیان کیے ہیں پہلا واقعہ بخاری ومسلم کی حدیث ہے ۔ آپ ﷺ اپنی ازواج حضرت زینب رضی اللہ عنہاکے پاس کچھ دیر ٹہرتے اور وہاں شہد پیتے، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ کے ٹہرنے سے روکنے کے لیے منصوبہ بنایا کہ ان دونوں میں سے جس کے پاس بھی آپ ﷺ تشریف لائیں تو وہ ان سے یہ کہے کہ اللہ کے رسول آپ کے منہ سے مغفیر (ایک قسم کا پھول جس میں بساند ہوتی ہے) کی بو آرہی ہے ، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا ، میں نے زینب کے گھر شہد پیا ہے، اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا، لیکن یہ بات تم کسی کو بتانا نہیں ‘‘ ۔ دوسری روایت مفسرین نے یہ لکھی کہ حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا جن سے نبی ﷺ کے صاحبزادے ابرہیم تولد ہوئے تھے، یہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر آگئی تھیں جب کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا موجود نہیں تھیں ، اتفاق سے انہی کی موجودگی میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا آگئیں ، انہیں نبی ﷺ کے ساتھ اپنے گھر میں خلوت میں دیکھنا ناگوار گزرا، جسے نبی ﷺ نے بھی محسوس فرمایا، جس پر آپ ﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو راضی کرنے کے لیے قسم کھاکر ماریہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کو تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتلائے‘‘ ۔ تحریم ‘کا یہ راز فاش ہوگیا تو آپ ﷺ کو سخت صدمہ ہوا یہاں تک کہ آپ نے بعض ازواج کو طلاق دینے کا اراہ بھی فرمالیا، لیکن اس کی نوبت نہیں آئی ۔ اللہ نے وحی نازل فرمائی جس میں ازواجِ مطہرات کو بھی تنبیہ کی گئی ۔ وحی میں نبی ﷺ کو خود سے کوئی چیز اپنے اوپر حرام کرنے سے منع فرمایا ۔ آیت 4 میں اللہ نے فرمایا کہ’ اے نبی کی دونوں بیویو! اگر تم دونوں اللہ کے سامنے وعدہ کر لو تو بہت بہتر ہے یقینا تمہارے دل جھک پڑے ہیں اور اگر تم نبیﷺ کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کروگی، پس یقینا ا ن کا کارساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک اہل ایمان اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں ۔ یہاں پیغمبروں کو اپنی بیویوں کو طلاق دینے کے بات کی گئی ہے ۔ بنی ﷺ کو کفار اور مفافقین سے جہاد کرنے کو کہا ، اللہ کافروں کے معاملے میں نوح علیہ السلام اور لوط علیہ السلام کی بیویوں کو بطور مثال پیش کرتا ہے، انہوں نے بھی اپنے شوہروں سے خیانت کی، اس کے بعد اللہ فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے اس نے دعا کی ’’اے میرے رب! میرے لیے اپنے ہاں جنت میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل سے بچا لے ،پھر مثال بیان فرمائی مریم بنت عمران کی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی پھر ہم نے اپنی طرف سے اس میں جان پھونک دی اور مریم نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور عبادت گزاروں میں سے تھی ۔ (28رمضان المبارک 1440ھ ،3 جون2019ء)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1274138 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More