قافلہ حجازمقدس کے سفرپرروانہ ہوا،تومیرے ساتھ والی سیٹ
پر بیٹھے صاحب نے مجھ سے پوچھا،اس سے پہلے کتنی بار حاضری کی سعادت نصیب
ہوئی ،عرض کیاکتنی بارسے زیادہ فکراس بات کی ہے کہ کاش کسی ایک بارکی حاضری
کو شرف ِقبولیت عطاء ہو، کوئی صورت ،حیلہ اورکوئی بہانہ قبولیت کابن جائے،
میرے اس جواب پر کہنے لگے، میں عالم ہوں اورنہ ہی اس قابل کہ قبولیت کی
شرائط بارے کچھ عرض کر سکوں ، ایک عام انسان کی حیثیت سے یقین ِکامل ہے کہ
جب بلانے والاکسی کوبلاتا ہے توشرط خوشی کے ساتھ حاضری ہے ،قبولیت میں شک
ہرگزنہیں ہونا چاہیے اورنہ ہی اس حوالہ سے پریشان اورفکرمند ہونے کی ضرورت
ہے۔ہاں البتہ اتنا ضرورہے کہ جب آپ اس یقین کے ساتھ سفرکرتے ہیں کہ یہ سفر
بہت بڑااعزازاورحاضری گناہوں سے نجات وچھٹکارا،اجروثواب اوررضائے الہٰی کے
حصول کا باعث ہے تواس سفرمقدس،حاضری کے اداب اورسلیقہ علمائے کرام سے
سیکھنا،مقدس مقامات کے بارے میں اہم اورضروری معلومات لینا،سمجھنا اوراچھی
طرح سے تحقیق کرنا کہ تمام احکامات و لوازمات بطریق احسن ادا ہوں اور حتی
المقدورحاضری کاحق ادا ہوسکے توحاضری کامزہ اورلطف ہی کچھ اورہے۔ جیسے
سفرمقدس کا ہرلمحہ مسافرکے لئے باعث خیروبرکت اور رحمت ہے،اس کے اداب
اورتمام ارکان واحکامات کی ادائیگی کے بارے میں جاننااور علم حاصل کرنا بھی
یقینا باعث اجروثواب ہے۔
کہنے لگے اس بات سے ہٹ کرکہ کتنی بار حاضری نصیب ہوئی ، حاضری اوربلاوے
بارے تمہارا کیا خیال ہے؟ عرض کیاایک عام مسلمان اورکلمہ گوکی حیثیت سے
مجھے اس بات کا کامل یقین ہے کہ حاضری کی توفیق کا براہ راست تعلق بلاوے سے
ہے اوربلاوے کاتعلق خواہش ،طلب ،تڑپ اوردعاسے ہے۔ سعودی عرب میں ایک مدت سے
قیام کے دوران کئی بارایسا ہوا کہ بظاہر نہ توحالات ایسے ہیں اورنہ ہی کوئی
صورت اورظاہری اسباب حاضری کے نظرآرہے ہیں، پھریک دم ایسا ہوا کہ بیٹھے
بیٹھائے کوئی سبب اوروسیلہ بنا،یہاں تک کہ بغیرکسی قسم کی تیاری کے حاضری
کے لئے جانے کااتفاق ہوا۔یہ بلاوا نہیں تواورکیا ہے؟ پھراس سے بھی دلچسپ
بات کہ سفرمقدس کی تیاری کئی دن پہلے سے، سامان سفراوردیگرضروریات کی تکمیل
کامکمل اہتمام کیاگیا، سفرپرخوشی خوشی روانگی ہوئی ،آدھا یا آدھے سے زیادہ
سفرطے کرلیا، وہم وگمان میں بھی کوئی ایسی بات نہیں ،سازگارحالات واسباب
اوروسائل سب کچھ ہونے کے باوجود(نہ چاہتے ہوئے بھی دکھی دل کے ساتھ )راستے
سے ہی واپس لوٹنا پڑا،ایسا اتفاق ایک سے زیادہ مرتبہ ہوا۔پھرآکرتوبہ ،استغفار
اوردرودپاک کااہتمام کرنے اورحاضری کی توفیق طلب کرنے پر محض اﷲ عزوجل کے
فضل وکرم سے حاضری کی سبیل پیداہوتی۔لہٰذامیراتواس بات پریقین ہے،مزیدوضاحت
کے لئے عرض کیا،کہ کئی بار ایسے خوش نصیب احباب سے ملاقات کا شرف بھی عطاء
ہوا،کہ جن کی ظاہری صحت ،جسمانی اورمالی حالت بظاہرایسی کہ اس حالت میں
حاضری کیسے ممکن ہے۔ایک بارحج کے موقع پرالوداعی طواف کے دوران معمرمیاں
بیوی پرنظرپڑی،جوطواف کی غرض سے آرہے تھے، کمزوری اورضعیف العمری کے باعث
ہاتھ گھٹنوں پرجیسے نمازمیں رکوع کی حالت ہوتی ہے بلکہ کمراس سے بھی زیادہ
جھکی ہوئی،ان کے ساتھ اورکوئی جوانہیں سہارادیتا، نظرنہیں آرہاتھا۔بے ساختہ
زبان سے نکلا یااﷲ رحم، ان کا کیا بنے گا، ان کے ساتھ کوئی بھی نہیں، کون
ان کا سہارا بنے گا اوروہ بھی اس حالت میں جب صحت منداورنوجوان انسان کے
پاؤں زمین پرنہیں ٹک رہے،انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندرکے ریلے میں آدمی
پلک جھپکنے کی دیرمیں کہاں سے کہاں پہنچ جائے ،اس حال میں نوجوان آدمی
لڑکھڑائے توسمبھلناناممکن،ایسی حالت میں طواف تودورکی بات ان کازندہ بچنا
ناممکن ہوگا۔ابھی یہ سوچ ہی رہاتھا کہ عین اسی لمحہ محافظوں کے ساتھ شاہی
خاندان کے افرادطواف کی غرض سے حرم پاک میں داخل ہوئے ،جیسے ہی اُن کی
نظراس صعیف العمرجوڑے پر پڑی ، انہوں نے انتہائی عزت واحترام اور عقیدت سے
ان کے ہاتھوں کوبوسہ دیتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ طواف میں شامل ہونے کے لئے
اصرارکیا اورساتھ ہی مجھے ترجمانی کی غرض سے اپنے ساتھ شامل کرلیا ،میں اُن
کے ساتھ رہا یہاں تک کہ بطریق احسن اورآسانی کے ساتھ طواف مکمل ہوا۔بیشک اﷲ
ہی بہترین کار ساز، حالات اوروسائل کا خالق ومالک اوراپنی مخلوق پربے
حدمہربان ہے۔دوسری طرف دیکھاجائے تو کئی ایسے مقامی احباب جوتمام وسائل کے
باوجودسالہاسال سے حج وعمرہ پرنہیں جاسکے اورکچھ ایسے بھی جن کی عمرڈھلنے
لگی مگرتاحال حاضری نہیں ہوسکی ۔بہرحال اﷲ ہی سب سے بہترجاننے والا اورسب
کے حال سے واقف ہے۔
بات ہورہی تھی،حرمین شریفین کی حاضری کے لئے تشریف لانے والے خوش نصیبوں کی
کہ اگرسفر سے پہلے مختلف مقامات پرنوافل،مخصوص دُعائیں اور ان مقدس مقامات
کے بارے معلومات اورحاضری کا سلیقہ علمائے کرام سے سیکھ لیا جائے یاکتابوں
سے کچھ پڑھ لیا جائے تویقینا عاشقوں کی پیاس اورحسرت کی تکمیل کسی حدتک
ممکن ہوسکے،لیکن اصل بات تو ہے ،اگر ان مقدس مقامات کی زیارت میں ساری
عمربتا دی جائے توبھی کم ہے کہ تشنگی توپھربھی رہے گی۔
مکہ مکرمہ میں رسول پاک ﷺ کا گھرمبارک(اب لائبریری،مکتبہ مکہ مکرمہ
)،مسجدجن،جنت المعلیٰ جہاں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ،صحابہ کرام
وتابعین اوراولیا وصالحین کے مزارات مقدسہ ہیں،کعبہ سے جنوب مشرقی جانب
قریب ہی ہے،اس کے علاوہ کئی ایسے مقامات ہیں جہاں کی زیارت آسانی سے کی
جاسکتی ہے، اسی طرح مسجدنبوی اورروضہ رسول ﷺ کے آس پاس کئی ایسے مقامات اور
جگہیں ،جن کی نشاندہی کی گئی ہے، ہم میں سے اکثراحباب صرف علم نہ ہونے کی
وجہ سے ایسے مقامات کی زیارت سے فیض یاب نہیں ہوپاتے۔حضرت فاطمۃالزہرہ کا
مبارک گھر،محراب تہجد،آقائے دوجہاں ﷺکے نمازپڑھنے کی جگہ،ریاض الجنۃ،محراب
نبویﷺ ، منبررسول ﷺ،اصحاب صفہ کی جگہ،جس جگہ خلیفۃالرسول حضرت ابوبکرصدیق ؓ
کاگھر،جس مقام پرعبداﷲ ابن عمرؓ کاگھر،خلیفۃ الرسول حضرت عثمان غنی ؓ
کاگھر،زوجۃ الرسول حضرت حفصہ ؓ،حضرت ایوب انصاریؓ،باغ ابوطلحہؓ،حضرت
جعفرؓ،حضرت عباسؓ،حضرت نوفل بن حارث ؓ کے جن مقامات پرگھرواقع تھے ،اس کے
علاوہ مسجدکے مخصوص ستون،باہرسے آنے والے وفودکی مخصوص جگہ سمیت مزیدکئی
مقامات جومسجدنبوی ﷺ کے اندریاصحن کی حدودمیں ہیں اورمزیدبہت کچھ معلومات
علمائے کرام کی خدمت میں حاضری سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ مسجدنبوی سے
چندقدموں کی مسافت پرکئی ایسے مقامات ہیں جہاں باآسانی پیدل ہر شخص
جاسکتاہے، مسجد بلالؓ، مسجد جمعہ ،مسجدالسقیاجیسے کئی مقامات کی زیارت صرف
علم نہ ہونے یاپیشگی شیڈول (ترتیب)طے نہ کرنے کی وجہ سے رہ جاتی ہیں۔
اسی طرح مدینہ طیبہ آنے پہلے سے سلام اورحاضری کے اوقات اورجنت البقیع میں
حاضری کے اوقات بارے معلومات حاصل کرلی جائیں۔جنت البقیع میں مدفون مبارک
ہستیوں کی قبروں کی تفصیل پہلے سے ہی حاصل کرلی جائے تاکہ جنت البقیع کی
زیارت کے اس مختصردورانیے میں جلدسے جلدتمام قبروں پرحاضری ،سلام اوردعا کی
جاسکے،پڑھے لکھے احباب کے لئے تواوربھی آسانی ہے،کیونکہ آج کل انٹرنیٹ سے
بھی با آسانی ساری معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں،انٹرنیٹ پرجنت البقیع کا
نقشہ بھی دستیاب ہے،جسے پرنٹ کرکے اپنے ساتھ رکھ لیاجائے توزیادہ بہتررہے
گا۔پھربھی افضل یہ ہوگا کہ ان معلومات کی تصدیق اورتفصیل علمائے کرام سے
حاصل کرلی جائے اور مختصر نوٹس بنالئے جائیں اورشیڈول ترتیب دیاجائے
توقیمتی وقت کاصحیح طورپراستعمال کیا جاسکتاہے۔
مدینہ پاک میں توہمیشہ غالب اکثریت پاکستانی عاشقان رسول ﷺ کی نظرآئی،یہاں
تک کہ مختلف ممالک کے لوگوں سے یہ کہتے سناہے،کہ بیشک مدینہ پاک سے محبت
اورجذباتی ودلی وابستگی میں پاکستانی سب سے بڑھ کرہیں۔اﷲ پاک سے دُعاہے کہ
اﷲ عزوجل ،نبی آخرالزمان حضرت محمدمصطفیﷺ،صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین
مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ سے محبت کوکمال درجہ اورشرف قبولیت عطاء
فرمائے،اﷲ کریم محض اپنے فضل وکرم سے ہرمسلمان کو باربارمقبول حاضری نصیب
فرمائے اور( نبی کریم ﷺ کے صدقہ سے خصوصی کرم فرماتے ہوئے اس تحریرمیں کمی
وبیشی اورغلطی وکوتاہی کو معاف فرمائے) آمین ثم آمین
|