ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلی
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری محدث بریلوی(ولادت ۱۲۷۲ھ/۱۸۵۶ء؛ وصال
۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء) اُس دور میں جلوہ گر ہوئے؛ جب ملک ہندوستان انگریزی تسلط میں
جا چکا تھا۔ آخری مغل تاج دار زوال سے دوچار ہوئے۔ صدیوں سے قائم مسلم
حکومت و امارت کا خاتمہ ہوا۔ گویا عہدِ تاریک میں اُمیدوں کی سحر بن کر
اعلیٰ حضرت پیدا ہوئے۔ جنگِ آزادی ۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد رہی سہی مسلم
قوت بھی منتشر ہو گئی۔حامیانِ انگریزاکرام و مال سےنوازے گئے۔ علماےحق دار
و رَسَن پر چڑھائے گئے۔اہلِ حق کے مدارس مٹائے گئے؛ جزائر انڈمان میں اَسیر
ہوئے۔ مبتلاے رنج و ظلم ہوئے۔
موافق و مخالف:
اس زمانے میں وہ طبقہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کا
قائل تھا وہ انگریز کے مقابل تھا۔ جو طبقہ انگریز کا حامی اور ناموسِ رسالت
ﷺ میں جری و بے باک تھا اسے جملہ مراعات حاصل تھیں۔ ان کے ادارے اور مدارس
ترقی کی منازل طے کر رہے تھے بلکہ انگریز کے منظورِ نظر تھے۔
امام احمد رضا کے معاصر سید الطاف علی بریلوی، اخبار جنگ کراچی (شمارہ ۲۵؍
جنوری ۱۹۷۹ء ،ص۶،ک۴۔۵)میں لکھتے ہیں:
’’سیاسی نظریے کے اعتبار سے حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بلا شبہہ حریّت
پسند تھے، انگریز اور انگریزی حکومت سے دلی نفرت تھی۔ ’’شمس العلماء‘‘ قسم
کے کسی خطاب وغیرہ کو حاصل کرنے کا ان کو یا ان کے صاحب زادگان مولانا حامد
رضا خاں، مصطفیٰ رضاخاں صاحب کو کبھی تصور بھی نہ ہوا، والیانِ ریاست اور
حکامِ وقت سے بھی قطعاً راہ و رسم نہ تھی۔‘‘ (گناہ بے گناہی،پروفیسر ڈاکٹر
محمد مسعود احمد،المجمع الاسلامی مبارک پور۱۹۹۳ء،ص۱۶)
محورِ نگاہ:
امام احمد رضا ساری زندگی رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مدح سرائی
کرتے رہے۔ ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ میں ہر سانس گزاری۔ خود فرماتے ہیں:
کروں مدح اہلِ دول رضاؔ پڑے اِس بَلا میں مِری بَلا
مَیں گدا ہوں اپنے کریم کا، مِرا دین پارۂ ناں نہیں
بہر کیف! غبار چھَٹا ہے۔ اور دُنیا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی اسلامی فکر
و بصیرت کے جلوے دیکھتی ہے۔ ہر بزم میں ان کا چرچا ہوتا ہے۔ ہر زباں ان کی
مدحت میں سرشار ہوتی ہے۔آج! عالم یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ،
اسکالرز، دانش گاہوں کے خوشہ چیں خدماتِ اعلیٰ حضرت کی نت نئی جہتوں سے
آشنا کروا رہے ہیں۔اعلیٰ حضرت کی ذات علم و تحقیق کا مرکز و محور بن چکی
ہے۔
فیض رضاؔ کی جلوہ آرائی:
16؍جون اتوار کو سرزمین پونہ پر عظیم الشان ’’نیشنل سیمینار آن امام احمد
رضا‘‘ کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب کہ ملکی سطح پر فرقہ
پرستوں کی سازشیں شباب پر ہیں، عالمی سطح پر یہود و نصاریٰ کی ریشہ دوانیاں
ہیں؛ اس طرح کے علمی سیمینار کے ذریعے یقینی طور پر مسلم امہ کے استحکام کا
عظیم پیغام عام ہو گا۔ اس لیے کہ اعلیٰ حضرت نے ساری زندگی مسلمانوں کو
اسلامی قوانین پر عمل کا درس دیا۔ مسلم اتحاد کے لیے آپ نے نئےو باطل
عقائد کی تردید کی اور مسلمانوں میں محبت رسول ﷺ کی روح پھونک دی۔ آج جب
کہ چہار جانب توہینِ رسالت کی فضا قائم کی جا رہی ہے، پادریوں، مستشرقوں کا
طوفانِ بدتمیزی برپا ہے؛ اعلیٰ حضرت کے مشنِ تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کے فروغ
سے مسلمان اپنے استحکام کی سمت بتدریج بڑھ سکتے ہیں۔
سیمینار پر اِک نظر:
مذکورہ سیمینار کے ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید احسن قادری نے بتایا کہ
اس سیمینار میں اعلیٰ حضرت کے علوم و فنون کے ساتھ ہی ان کی اصلاحی کوششوں،
ردِ بدعات کے لیے جدوجہد، فروغِ عشقِ رسول ﷺ کو مقالہ نگار اُجاگر کریں گے۔
موصوف نے بتایا کہ ملک کے درجنوں تعلیمی مراکز، دانش گاہوں اور یونیورسٹیوں
کے پروفیسرز، اساتذہ و اسکالرز مقالہ خوانی کریں گے۔ اس سلسلے میں علی گڑھ
مسلم یونیورسٹی، ہمدرد یونیورسٹی، جامعہ ملیہ، امام احمد رضا اکیڈمی بریلی
شریف سمیت متعدد تحقیقی مراکز کے اربابِ علم شریکِ سیمینار ہوں گے۔ جن میں
خصوصیت سے مولانا محمد حنیف خان رضوی، ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی، مولانا
یاسین اختر مصباحی، پروفیسر ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم مصباحی، مولانا محمد احمد
نعیمی، ڈاکٹر محمد عباس، ڈاکٹر ریحان اختر، ڈاکٹر شجاع الدین، ڈاکٹر محمد
افضل، غلام مصطفیٰ رضوی، ڈاکٹر عبیداللہ، ڈاکٹر سراج احمد، پروفیسر
عبدالمجید صدیقی، ڈاکٹر جاوید احمد، ڈاکٹر محب الحق، مولانا ازہار
احمدامجدی ازہری، محمد آصف علوی شریک ہوں گے۔ جب کہ جن اہم شخصیات نے اپنے
تاثرات ارسال کیے ان میں ملک و بیرون ملک کے درجنوں علما شامل ہیں۔
علامہ قمرالزماں اعظمی (سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن لندن) نے گراں قدر
مقالہ اعلیٰ حضرت کے تجدیدی کارناموں کی جامعیت کے عنوان پر بھیجا۔ آپ نے
اپنے پیغا م میں اعلیٰ حضرت کے مشن تحفظِ عظمتِ رسولﷺ کی اس زمانے میں شدید
ضرورت کو واضح کیا۔ اور محبت رسول ﷺ میں سرشاری کی فکر اجاگر کی۔ رضویات پر
کام کے ضمن میں فرمایا کہ:
’’گزشتہ ایک صدی میں ان کے حوالے سے جتنا کام ہوا ہے وہ صرف دس فی صد ہے
بقیہ ۹۰؍ فی صد کے لیے کئی صدیاں درکار ہیں۔‘‘
صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری نے اپنے پیغام میں کہا کہ: ’’امید ہے کہ یہ
سیمینار رضویات پر تحقیقات کے سلسلے میں نئی سمتیں متعارف کرانے میں ان شاء
اللہ تعالیٰ کامیاب ہوگا۔‘‘
سیمینار کے انعقاد پر ڈاکٹر سید محمد امین میاں برکاتی (مارہرہ شریف)، مفتی
سید رضوان احمد شافعی(مفتی دیارِ کوکن)، حضرت سید فرقان علی چشتی
(اجمیر)،سید محمد اویس (جرمنی)،محمد میاں مالیگ، علامہ محمد ارشد
مصباحی(اعلیٰ حضرت فاؤنڈیشن انٹرنیشنل مانچسٹر)،ابوزہرہ رضوی، بیرسٹر معین
الزماں خان ابن قمر اعظمی (مانچسٹر)،پروفیسر دلاور خان نوری(کراچی)، مولانا
محمد عبدالمبین نعمانی (المجمع الاسلامی مبارک پور)،مفتی محمد اسلم رضا
تحسینی (ابوظہبی، امارات)، مفتی فیاض احمد اویسی (مدینہ منورہ)، الحاج محمد
سعید نوری(سربراہ رضا اکیڈمی ممبئی)،مفتی محمد ذوالفقار خان نعیمی (کاشی
پور) ، مولانا غلام مصطفیٰ نعیمی (دہلی) نے نیک خواہشات کا اظہار کیا،
تہنیت پیش کی، دُعاؤں سے نوازا۔
واضح ہو کہ صد سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت کی مناسبت سے منعقدہ اس سیمینار کے
مقالات کا مجموعہ بھی سیمینار میں ہی منصہ شہود پر ہوگا۔ جسے علمی دنیا اور
دانش گاہوں کی بزم میں پیش کیا جائے گا۔اِس سیمینار کا اہتمام ایسے وقت میں
ہو رہا ہے جب کہ تحریک فروغِ اسلام کے اعلان پر یومِ ولادتِ اعلیٰ حضرت کو
تحفظِ ناموسِ رسالت ﷺ کے عنوان سے منایا جا رہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کے
اعتقادی، علمی، فکری و عملی استحکام کے لیے اُمید افزا نتائج متوقع ہیں۔
***
*نوری مشن مالیگاؤں
|