عالمی کپ کا میلہ سج کر اختتام پذیر ہونے کو ہے پاکستانی
کرکٹ ٹیم کا معیار پستی کی جانب گامزن ہے انڈیا سے روایت کو برقرار رکھتے
ہوئے پاکستان ہار گیا تو کپتان نےگروپ بندی کا بھانڈا پھوڑا افریقہ سے بازی
کی ابتداء ہونے کو تھی کہ کپتان نے انتہائی خطرناک یوٹرن لیا بلکہ اپنا
تھوکا چاٹتے ہوئے کہا ٹیم متحد ہے اور کوئی گروپ بندی نہیں ہے اس میچ میں
سابقہ مقابلوں کی طرح کپتانی کا شدید فقدان نظر آیا اور فیلڈنگ کا معیار
بدترین رہا کیچز چھوڑے گئے اسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک صارف
نے لکھا دونوں ٹیم ایک دوسرے کو میچ جتانے میں مصروف ہیں اس میچ میں اسپنرز
کو بےوقت اور ضرورت سے زیادہ استعمال کیاگیا-
اوپنرز میں امام الحق کچھ بہتر ہے جبکہ زمان مسلسل ناکام ہے عابد علی
بہترین چوائس ہے اس کو استعمال کرنا کپتان پر بھاری ہے خود کپتان ڈرپوک
اتنا ہے کہ دوسرا وکٹ کیپر لے جانے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی اگر لے
جاتے تو کپتان تباہ ہوجاتا آصف کو مسلسل غلط استعمال کیا گیا اور معلوم
نہیں کہ عماد کو کونسی مجبوری ہے کپتان کی-
افغانستان کے خلاف مسلسل اسپنرز کو کھلایا گیا اور پیسرز نظراندازرہے اسی
وجہ سے وہاب ٹوٹے دل سے گیند بازی کرتے رہے کپتان نہ تو فیلڈ کے معیار کو
بہتر کرسکے نہ ہی اسٹمپ کے پیچھے کارکردگی دکھا سکے اس جگہ پر صرف اور صرف
زبانی جمع خرچ نظرآیا-
کپتان کو اصل ڈر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے قوانین کا ہے جس کی تلوار کپتان
کے سر پر سلواوور ریٹ کی شکل میں لٹک رہی ہے کپتان اگر کسی ایک میچ میں
سلواوور ریٹ کا شکار ہوا تو اگلے تین میچز سے کپتان کپتانی کے ساتھ پلینگ
الیون سے باہر ہوگا اور یہ تین میچز کپتان کی کرکٹ زندگی پر مہر ثبت کردے
گا اور کپتان کے ساتھ دھوکہ ہوجائے گا اسی ڈر سے کپتان مسلسل غلطیاں کررہا
ہے اور کبھی ہار کا سہرا سر کرتا ہے تو کبھی رنزریٹ کا بیڑہ غرق -
دوسری طرف عوام بیانوے کے تانے بانے ملاتے ہیں تو حکمران کپتان کرکٹ کو
پرچیوں سے بھرتے جارہے ہیں-
|