اسلام دین فطرت ہے جو انساں کی دینی و دنیاوی ضروریات کا
خیال رکھتی ہیں۔ اسلام کی آمد سے پہلے دنیا میں جتنے نظام حیات و معییشت
رائج تھے، ان تمام تجربہ شدہ و آزمودہ کردہ نظاموں کی بدولت آج تک دنیا
سے پستی، افلاس ، غربت اور جنگ و جدل کا خاتمہ نہ ہو سکا اور نہ ہی یہ ممکن
ہے کہ ان نظاموں سے کوئی رجاء رکھی جائے۔ اگر یہ کہیں تو مبالغہ نہ ہو گا ،
کہ تاحال ان بے اعتدال و بے ہنگم نظاموں نے انسانیت کی سکون و آشتی اور
طریق حیات کو حتی الان سنبھلنے نہیں دئے ۔آج کا انساں ابھی تک سعید حقیقی
اور فطرتی تفریح کے حصول میں سرگرداں ہے ، جو Man-oriented system) (انسان
کے وضع کردہ نظام میں ناپید ہے یقین اغلب کے ساتھ ! ۱۹۴۸ میں United
Nations Organization کے قیام کے باوجود بھی امن عالم کے لئے ساری قومیں
ایک پیج و مقعد پہ اکھٹا نہ ہو سکے اور بالمجموعی طور پر انسانیت کو درپیش
مسائل کا حل نہ دے سکے ۔
اسلام کی یہ ابدی خاصیت ہے کہ وہ دنیا کی ثانوی نظام حیات سے یکسر مختلف ،
بتمام کمال دینی و دنیوی پہلو سے ہر ذی عقل و ذی شعور فرد کو انفرادی اور
اجتماعی طور پر چراغ ہدایت عطا کرتا ہے۔ برعکس اس کے ماضی قریب اور حال میں
جتنی بلاد معرض وجود میں آہیں اور جن افکار و نظریات کی بنیاد پہ ان کی
تعمیر و توسیع ہوئیں باوجود یکہ انسانیت پھر بھی منزل معراج تک پہنچنے سے
قاصر رہی ہیں۔
اللہ تعالی نے صحیفہ انقلاب میں (إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ)
یعنی تحقیق اللہ کے ہاں قبول تریں دین اسلام فرما کر بنی نوع انساں کو عظیم
احسان اور تمںین و تکریم سے سرفراز کیا۔ قابل غور کلام جو عقل سلیم کو
ادراک پہ ابھارتی ہیں ، کہ جب خالق کائنات انساں کو کسی نظام میں پرو دیتا
ہے تو بلا تشکیک و تردد skepticism and doubt)) ان کے لئے زبردست اور
ابدالآباد تشکیل حیات کا نظام بھی عطا کرتا ہے، چاہے اس کا تعلق اخلاقی ،سیاسی،
معاشی اور معاشرتی اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تو ممکن ہی نہیں اللہ تعالی
الدین کا انتخاب اسلام کو کرے اور دین اسلام عند اللہ مقبول و منصور بھی ہو،
مگر کسی ایک جہت اور زاوے میں ہدایت سے خالی ہو بدیں یہ کہ وہ ہدایت دینی
ہو یا دنیوی۔چنانچہ دین اسلام ہر لمحے اور تغیرات زمانے پر انسان کو قرآن
اور حدیث پاک سے ضیاء و نور عطا کرتا رہتا ہے اور بٹھکتے ، گرتے ضلالت و
اندیھروں میں پڑے ہووں کو راہ نجات کی طرف امثال ، تبشیر و انذار سے بلاتا
ہے ۔ تاآنکہ انسان نتیجتا و حقیقتا فلاح داریں حاصل کرے۔
عبادات ،معاملات اور مناکحات و معاشرت اور سیاسیات الغرض ہر وہ فعل و عمل
جس کا تعلق انساں کی اپنی ذات سے ہو یا ملک وملت کے افراد دیگر سے ، فرمان
نبویﷺ کے مطابق (الدین النصیحۃ) دین اسلام ہر اعتبار سے مدلل نصحت کا ضامن
ہے، اللہ کے بندوں کو راہ راست پر رکھتا ہے۔مگر یہ کہ انسان اس قندیل ہدایت
کو پانے کے باوجود ، اس سے پہلو تہی کرے اور ہدایت سے عاری استعماری و
فسطائیت سے لبریز لٹریچر کے بل بوتے پہ یہ کہے کہ اسلام زندگی کے ہر گوشے
سے متعلق رہنمائی و ہدایت دینےسے قاصر ہے ۔
اسلام کا تعلق بیک وقت ثقافت و عقائد پہ مشتمل نظام سے ہے اور بالمجموعی
بہتریں سیاسی نظریہ رکھتا ہے۔ اسلام کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ ہر کام کی
درجہ بندی کرتا ہے چاہے عبادات ہوں یا سیاسیات و دیگر است۔ قرآن جو حجۃ من
بعد الرسل ہے ، سیاسی و معاشرتی ہر نظریہ واعتبار سے ہماری رہنمائی کرتا
ہے۔حضرت محمد ﷺ کی ۱۳ سالہ مدنی زندگی بالخصوص سیاسی پہلو سے ہمارے لئے
مشعل راہ ہے۔بعد کو یہ مجتہد کا کام ہے کہ وہ تغیر زمن کے حساب سے اسلامی
تعلیمات کو chronologically بیاں کرے۔بالفرض اسلام کا سیاست سے رشتہ مقطوق
ہو جاوئے تو حکیم الامت کی پیشیں گوئی ’’ جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی
ہے چنگیزی‘‘ فی الواقعہ درست ثابت ہو گی۔ اس وسیع و عریض موضوع پہ متقدمیں
و متاخریں اور حالییں ائمہ نے بہتریں طریق سے روشنی ڈالی ہیں۔انہی میں سے
ایک عمدہ انتحاب استاد محترم مفتی محمد تقی عثمانیععثمانی کی تالیف ’’اسلام
اور سیاسی نظریات‘‘ صاحباں مطالعہ کے لیے مانند چراغ ہے۔اس کے علاوہ استاذی
ڈاکٹر طاہر القادری کی تالیف “قرآنی فلسفہ انقلاب “ اور حضرت امیر کبیر
سید علی ھمدانی ؒ کی تصنیف” ذخیرۃ الملوک “ اہل علم کے لیے بیش بہا معلومات
سے بھرپور ہے۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی لٹریچر مختلف النوع زبانوں میں موجود
ہیں جن سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
|