اسلام امن و سلامتی کا داعی، تحمل و برداشت، رواداری اور
احترامِ انسانیت کا علمبردار دین ہے۔یہ آفاقی تعلیمات کا حامل دین ہے ۔
مسلمان کی تعریف بھی یوں کی گئی ہے کہ من سلم المسلمون من لسانه ويده یعنی
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
اسلام نے پرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے "لکم دینکم ولی دین" کا نظریہ عطا
کر کے مذہبی رواداری اور امن وسلامتی کا فلسفہ عطا کیا ہے۔پیغمبر رحمت سفیر
امن و سلامتی ہادی اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد مسعود کے
وقت پوری دنیابالعموم اور سرزمین عرب بالخصوص شدید بحرانی کیفیت کا شکار
تھی۔ امن نام کی کوئی چیز دور دور تک بھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ عرب طویل
جنگیںلڑنے کے حوالے سے مشہور تھے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر تلواریں نیام سے باہر
آجاتیں اور کشت و خون کا بازار گرم ہو جاتا ۔ چالیس چالیس سال لمبیجنگیں
لڑی جاتیں اور نسل در نسل انتقام کا جذبہ پروان چڑھتا رہتا۔
"محسن انسانیت" کے مؤلف نعیم صدیقی لکھتے ہیں۔"محسن انسانیت کا ظہور ایسے
حالات میں ہوا، جبکہانسانیت تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی،مصر اور ہندوستان،
بابل اور نینوا، یونان اور چین میں بد تہذیبی اور بد امنی رواج پا چکی تھی
۔دنیا کے اکثر حصوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ٹکراؤ ہوتے،بار بار
کشت و خون ہوتے، بغاوتیں اٹھتیں، مذہبی فرقے خون ریزیاں کرتے ان ہنگاموں کے
درمیان انسان بحثیت انسان بری طرح پامال ہو رہا تھا”۔
ڈاکٹر حمید اللہ "بعثت نبوی کے وقت دنیا کی حالت" کے زیر عنوان مضمون میں
لکھتے ہیں۔"غرض زمانے میں جدھر بھی دیکھو، دنیا میں تباہی اور فتنہ و فساد
ہی تھا، کسی جگہ بلند نظرانہ عالی ہمتی اور دردمندانہ انسانیت پروری نظر ہی
نہ آتی تھی۔ ضرورت تھی کہ پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر یاد دلایا جائے کہ وہ سب
ایک ہی آدم کی اولاد ہیں۔"
اسلام سےقبل تمام سماوی و غیر سماوی مذاہب میں رواداری کا عنصر مفقود ہو
چکا تھا۔بہت سے انبیاء یہود کے ہاتھوں ناحق قتل ہوئے اور ہر وہ شخص یہودیوں
کے عتاب کا شکار تھا جو ان کو امن، انصاف،رواداری جیسی اعلی اقدار اپنانے
کا درس دیتا۔مذہبی تعصب کا عالم یہ تھا کہ اسلام سے پچاس یا ساٹھ برس قبل
یمن کے یہودیوں نے عیسائیوں کو جلتی ہوئی آگ کے گڑھوں میں دھکیل دیا تھا۔
پانچویں صدی عیسوی میں چرچ کا مشن تھا کہ جہاں جہاں اس کے پاس سیاسی قوت
موجود ہے یعنی مغرب اور مشرق دونوں جگہ وہاں دیگر مذاہب اور عقائد کا خاتمہ
کردیا جائے آئے۔پانچویں صدی عیسوی کے اوائل میں خود عیسائیوں کے دو گروہوں
کے درمیان ایک مذہبی جنگ چھڑ گئی جس میں 65 ہزار عیسائیوں کو جلاوطن ہونا
پڑا۔ ہندومت کی مذہبی تعلیمات کی بنیاد "وید" اپنے مخالفین اور دیگر مذاہب
کے پیروکاروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی تعلیم دیتی ہے۔ان کی مقدسکتاب "یجر
وید" میں ہے: دھرم کے مخالفوں کو زندہ آگ میں جلا دو۔
ان حالات میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین کا لقب لےکراس اس
معاشرے میں جلوہ گر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے روز سے ہی امن و
سلامتی اور خدمت خلق کا پیغام عام کیا۔بچپن سے ہی آپ ایسی مجالس میں شریک
ہوتے جہاں قوم کے لڑائی جھگڑے حل کیے جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "حلف
الفضول" نامی معاہدے میں شرکت کی جو قیام امن اور مظلوموں کی داد رسی کے
لیے عمل میں لایا گیا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوانی کی عمر میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہوئی جب
دیواریں کھڑی ہوگئیں اور حجر اسود کی تنصیب کا وقت آگیا تو ہر قبیلہ یہ
سعادت حاصل کرنے کے لیے معاشرے کے امن کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار
تھا۔اس صورتحال میں بہت بڑی جنگ چھڑ جانے کا خدشہ تھا چنانچہ چند اشراف مکہ
نے فیصلہ کیا کہ کل سب سے پہلے جو شخص حرم میں داخل ہو گا فیصلہ اس کے
حوالے کرتے ہیں۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اگلے دن صحن حرم میں تشریف
لائے تو سب نے آپ کو فیصلہ سپرد کردیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے
امن و استحکام کی خاطر نہایت دانش و حکمت کے ساتھ یہ مسئلہ حل کیا۔آپ نے
تمام قبائل کے معززین کو حجرِ اسود کی تنصیب میں شریک کیا اور یوں جنگ کے
جو بادل منڈلا رہے تھے ان پر قابو پایا۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحمت اللعالمینی شان کو زبان، نسل
اور وطن کے امتیاز سے پاک رکھا۔مکہ کے مہاجر، مدینہ کے انصار، فارس کے
سلمان، حبش کے بلال، روم کے صہیب، اغنیاء میں سے عثمان غنی اور فقراء میں
سے ابوہریرہ ایک ساتھ بیٹھتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ حبشی غلام حضرت بلال
رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا بلال کہ کر پکارتے۔ یوں ان اکرمکم عندالله
اتقاکم کی حسین عملی تفسیر نظر آتی۔
مدینہ میں ورود مسعود کے ساتھ ہی یہود مدینہ (جو کہ بدامنی اور سازشوں کے
حوالے سےمشہور تھے)کے ساتھ تاریخ ساز معاہدہ کیا جسے میثاق مدینہ کہا جاتا
ہے۔اس معاہدے کے نتیجے میں ہر فریق کو مذہبی آزادی حاصل ہوئی اور رواداری
کو فروغ ملا۔اس معاہدہ میں دو ٹوک وضاحت کر دی گئی تھی کہ غیرمسلم یہودیوں
کو ان کے دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔ یہ رواداری، مذہبی اعتدال
پسندی، فراخ دلی کی ایک روشن مثال ہے۔ یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ
میں حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست قائم کی۔
صلح حدیبیہ مدنی دور کا ایک اہم واقعہ ہے۔مکہ کے وہ کافر جنہوں نے مسلمانوں
پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی تھی، نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ میں ان کے ظلم و ستم اور زیادتیوں سے صرف نظر
کرتے ہوئے امن و صلح کی خاطرتمام ایسی شرائط کو قبول کیا جو مسلمانوں کے
سراسر خلاف تھیں۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی ان شرائط پر شدید
تحفظات کا اظہار فرمایا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سخت شرائط کو
قبول کرکے جنگ سے گریز فرمایا۔
معاہدہ حدیبیہ میں طے پایا تھا کہ مسلمان اس سال بغیر عمرہ ادا کیے واپس
چلے جائیں گے۔آئندہ سال آئیں گے اور وہ بھی صرف 30 دن کے لیے۔ہتھیار ساتھلے
کر نہیں آئیں گے، صرف تلواریں لے کر آئیں گے وہ بھی نیام میں ہونگی۔مکہ میں
جو مسلمان مقیم ہےاسے ساتھ نہ لے جایا جائے اور جو مدینے کا مسلمان باشندہ
مکہ میں ٹھہرنا چاہے اسے نہ روکا جائے۔اہل مکہ کا کوئی شخص مدینہ آ جائے تو
مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گےاور اگر کوئی مدینہ کامسلمان مکہ میں
آجائے تو اہل مکہ اسے واپس کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔عرب قبائل کا اختیار
ہوگا کہ فریقین میں سے جس کے ساتھ چاہیں، ہو جائیں۔نیزطے پایا کہ دس سال تک
مسلمان اور قریش جب ہم جنگ نہیں کریں گے۔
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے امن سلامتی اور رواداری کی عظیم الشان
مثال فتح مکہ کے واقعات سے بھی ملتی ہے۔ وہ کفار جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو دن رات تکلیفیں دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آبائی شہر چھوڑنے پر
مجبور کیا بالآخر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شان کے ساتھ اسےفتح
کیا کہ کوئی خون خرابہ ہوا اور نہ کسی کوقید کیا گیا بلکہ عام معافی کا
اعلان کردیا گیا۔رسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم نے تمام امیدوں اور تصورات کے
برعکس رواداری پر مبنی نوید افزا اعلان فرمایا: "اليوم يوم المرحمة"۔یعنی
آج تو رحم وکرم، عفو و درگزر اور ایثار و رواداری کا دن ہے۔اسلام کے سخت
دشمن ابو سفیان سے انتقام لینے کی بجائے اسے عزت سے نوازا اور فرمایا کہ جو
ابو سفیان کے گھر داخل ہو جائے اس کے لیے امان ہے۔
اسلام معاشرے میں امن قائم کرنے کے لئے بدامنی، دہشتگردی اور قتل و غارت
گری کے ذریعے فساد فی الارض کے مرتکبین کے لیے شدید ترین سزائیں تجویز کرتا
ہے۔ارشاد پاک ہے۔ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ
وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ
يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ
يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ
فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ یعنیجو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا
ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں،یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف
کے پاؤں کاٹ دیے جائیں،ملک سے نکال دیے جائیں یہ تو دنیا میں ان کے رسوائی
ہے اور آخرت میں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
اسلام میں بدامنی، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا سختی سے سدباب کیا گیا
ہے۔وہیں معاشرے کے امن کو سبو تاژ کرنے والے عوامل تعصب، کینہ اور بغض
وغیرہ کو باطنی امراض کہا گیا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس نے ہم (اہل ایمان) پر اسلحہ اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں۔
خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا کے امن
و سکون کو مدنظر رکھ کر آفاقی سطح کی تعلیمات دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے کے
لئے ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے لئے آج کے دن، اس شہر اور اس مہینہ کی
حرمت ہے۔خبردار! میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے
لگو۔
یوں تو جنگ کی حالت میں دشمن کو کسی قسم کے رعایت نہیں دی جاتی۔لیکن اسلام
دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے دوران جنگ بھی اسلامی فوج کے لیے باقاعدہ اصول
و ضوابط کا تعین کیا ہے۔ چنانچہ حالت جنگ میں بچوں عورتوں، بوڑھوں اور
مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے اور ان کی عبادت گاہوں کو
نقصان پہنچانے سے روکا گیاہے۔دشمن کے کھیتوں اور درختوں کو کاٹنے سے منع
کیا گیا ہے۔لاشوں کو مثلہ کرنے سے بھی سختی سے منع کیا گیا ہے۔مفتوحہ
علاقوں میں غیر مسلموں کوہر قسم کی مذہبی آزادی دی گئی ہے۔
دور جدید میں امن عالم مفقود ہے۔اسلام کو انتہاپسند دین کے طور پر متعارف
کروایا جا رہا ہے۔اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے سامنے اپنےعلم و
عمل اور قلم کے ذریعے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کریں۔ اس وقت غیر مسلم تو
درکنار بعض مسلم ممالک بھی عدم برداشت اور عدم رواداری کا مظاہرہ کر رہے
ہیں نتیجتا اخوت، بے مثال ربط و ضبط، ایثار، قربانی اور برداشت و حلم کے
جذبے مجروح ہورہے ہیں۔فلسطین، عراق، افغانستان، یمن، شام کشمیر اور دنیا کے
دیگر خطوں میں مسلمانوں کا لہو کتنا ارزاں ہے۔ بین الاقوامی دہشت گردی،
فرقہ واریت اور اسلحہ کی دوڑ عدم برداشت کی ہی شکلیں ہیں۔ قومی اور بین
الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کی طرف سے ظاہر ہونے والا عدم برداشت کا
رجحان دنیا کو خطرات کی دلدل میں دھکیلے جا رہا ہے۔عدم برداشت کے اس رجحان
کو ہم تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں روک سکتے ہیں۔
|