موجودہ دورایک مہذب دور ہے لیکن مسائل کا ایک ایسا انبار
موجود ہے جس نے پوری دنیا کے امن کو خطرات میں ڈال رکھا ہے۔ان مسائل میں سے
ایک مسئلہ توہین رسالت کا مسئلہ بھی ہے۔ماضی میں بوقت ضرورت مغربی ممالک
میں اس حوالے سے قانون سازی ہوتی رہی ہے اور اب بھی توہین انبیاء، توہین
مذہب، توہین مقامات مقدسہ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔
توہین انبیاء اور توہین مذہب کی سزا جرم کی نوعیت کے مطابق سزائے موت اور
عمر قید سمیت مختلف شکلوں میں موجود ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی مذاہب
کی حرمت اور تقدس کے حوالے سے مختلف شقیں موجود ہیں۔فی زمانہ اسلام توہین
رسالت جیسے مسائل کا بڑی شدت سے سامنا کر رہا ہے۔پوری دنیا میں بالعموم اور
مغربی ممالک میں بالخصوص یہ مسئلہ انتہائی سنگین شکل اختیار کرتا جا رہا
ہے۔آئے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ کو توہین کا ہدف
بنایا جا رہا ہے۔
کبھی کارٹون بنا کر، کبھی فلمیں بنا کر، کبھی توہین آمیز کلمات لکھ کر،
کبھی سوشل میڈیا پر آزادئ اظہار رائے کی آڑ میں اور بہت سے دیگر حربوں کو
بروئے کار لایا جاتا ہے۔
مسلم امہ جذبات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان شنیع و قبیح جسارتوں کی تردید بھی
کرتی ہے،احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا ہے، سفارتی تعلقات اور مصنوعات کے
بائیکاٹ کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ یہ سب کام اپنی جگہ اہم اور جذبہ
ایمانی کے متقاضی ہیں لیکن یہ کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ توہین
انبیاء و رسل کے اسباب ومحرکات کیا ہیں اور اس شنیع عمل کے پیچھے دشمنان
اسلام کے کیا مقاصد کار فرما ہیں؟
اسلام پر امن دین ہے اور اسکی تعلیمات آفاقی نوعیت کی ہیں۔یہ جس تیزی کے
ساتھ پھیلتا جارہا ہے اور دوسرے ادیان کو شکست دے کر اپنا سکہ منوا رہا ہے
اس سے دشمنوں کے اندر اپنی بقا کے لیے خوف کی سی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔لہذا
وہ اسلام کی حقیقی صورت پر پردہ ڈالنے کے لیے توہین رسالت اور توہین مذہب
کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور مسلمانوں کے جذبات کو ہوا دے کر اسے
انتہا پسند اور شدت پسند دین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلمانوں کی
کامیابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق و رشتہ کی مضبوطی میں مضمر
ہے۔دشمنان اسلام بزعم خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھال کر
داغدار کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کے دل میں انکے نبی کی صورت گھٹیا
انداز میں پیش کرنا چاہتے ہیں پھر وہ ایسی شنیع حرکات کا ارتکاب کر کے اسے
آزادئ اظہار رائے کا نام دیتے ہیں۔
اکثر مسلم ممالک آئی ایم ایف اور دیگر مغربی اداروں سے مشروط قرض لے کر
اپنا نظام چلا رہے ہیں۔یہ ادارے سود پر قرض دیتے ہیں اور بہت سی باتیں
منواتے ہیں جب توہین رسالت جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو ان اداروں کی
شرائط اور معاہدے آڑے آجاتے ہیں اور حکومتیں سخت ردعمل دینے سے کتراتی
ہیں۔سفارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی جاتی
ہے۔اس وقت پوری دنیا میں یہودیوں کا معیشت پر قبضہ ہے۔
جب یہودیوں میں سے کوئی شان رسالت میں ہرزہ سرائی کرتا ہے تو معاشی
پابندیوں کے خوف سے ہمارے حکمران آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات نہیں کر سکتے۔اس
وقت دنیا میں لادینیت اور الحاد تیزی سے فروغ پا رہے ہیں۔لا دین اور ملحدین
اپنے نظریات کی ترویج میں مذاہب سماویہ اور بالخصوص اسلام کو سب سے بڑی
رکاوٹ سمجھتے ہیں اسلیے وہ مذاہب کو فرسودہ اور قدامت پسند ثابت کرنے کے
لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں اور مذاہب اور بانیان مذاہب پر کاری وار
کرتے ہیں اس دوران توہین رسالت کا ارتکاب بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کرتے ہیں۔مادہ
پرست اور کمرشل لوگ انکی تائید کرتے ہیں، آزادئ اظہار رائے کی آڑ میں توہین
رسالت کا ارتکاب ہوتا ہے۔
اسلام بیزار لوگ مسلمانوں کو لایعنی کاموں میں مشغول رکھنے کے لیے گستاخی
اور اہانت رسول کا ارتکاب کرکے خاموش ہو جاتے ہیں اسکے بعد مسلمانی ایمانی
جذبے کے ساتھ اسکا دفاع کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو اسی
کام میں صرف کرتے رہتے ہیں۔اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی کی طرف صحیح طرح توجہ
مرکوز نہیں کر پاتے یوں مسلم معاشرہ زوال کی جانب بڑھتا جاتا ہے۔بعض دفعہ
دشمن بھی انارکی اور بدامنی پھیلانے کے لیے توہین رسالت کو استعمال کرتا ہے
اسکے بعد عوام کے جذبات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔
معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور لوگ اپنے ہی ملک کو نقصان پہنچاتے اور
افراتفری کا ماحول گرم ہو جاتا ہے۔
بعض دفعہ انبیاء و رسل کی شان میں لاعلمی میں نامناسب الفاظ استعمال ہو
جاتے ہیں تو لوگ ذاتی انتقام کی خاطر اسے توہین رسالت کا نام بھی دے دیتے
ہیں۔اسلیے ہمیں چاہیے کہ بحیثیت امت مسلمہ رواداری، امن اور سلامتی کی خاطر
دوسرے ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات ضرور قائم کریں لیکن دین و مذہب کے بارے
میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں۔اور دینی حمیت و خود داری کا مظاہرہ کریں۔
معیشت کو مضبوط کیا جائے۔افواہوں اور بے سروپا باتوں کی طرف دھیان نہ دیا
جائے۔دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے جذبات کی بجائے دلائل و
دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے۔تب ہی ہم اسلام کی حقیقی معنوں میں خدمت کر
سکتے ہیں اور اپنے وطن کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔
|