محنت اور معاش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

اس عالم مادّی کامرحلہ معاشی محنت اور کوشش کے بغیر موت ہے۔
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ
اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔(سورہ نجم/39)
انسان خواہ کتنا ہی چڑچڑائے کہ اُس کو کھانا کھانے کی حاجت کیوں ہے، پانی کی احتیاج کیوں ہے تو جواباََ عرض ہے کہ ایک طرف جہاں یہ انسان کو خالق کی نعمت سے روشناس کراتی ہے تو دوسری طرف اس عالم مادّی کی فطرت بھی واضح کرتی ہے۔
بعض انسان ایسے بھی ہیں جن کی زندگی بھر جدوجہد کھانے، پینے تک ہی محدود ہوتی ہے اور صرف پیٹ بھرنے تک ہی نہیں بلکہ انواع و اقسام کی غذا سے لطف لینا اُن کی سرشت بن چکی ہوتی ہے۔
انگلستان کے صنعتی انقلاب سے پہلے اگر انسان صرف کھانے کیلئے محنت و کام کرتا تھا تو اِس کے بعد اور آج کے اس عالمی گاؤں بن جانے پر ارتباطات کے انقلاب میں انسان کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا، مکان کی محدودیت سے باہرنکل کر بے انتہا ہوگئی ہیں ۔ اس حرکت نے جہاں عالمی سماج کو بے شمار ایجادات کے ذریعے اُن کی زندگی کو آسانی دی ہے وہیں بعض انسان خوف و دہشت میں مبتلا ہوکر قدیم بنیادی ضرورت یعنی روٹی، کپڑا اور مکان کو بھی پورا نہیں کرپارہے۔
امام علی :إِذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِيهِ فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّيهِ أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْه
جب بھی تمھارا مقابلہ خوف و وحشت سے ہو تو اُس کام میں کود پڑو کیوں کہ شدید خوف اُس کام سے زیادہ دشوار اور نقصان دہ ہے۔(نهج البلاغه (صبحی صالح ) ص 501 ، ح175)
اس مسئلہ کو جہاں بعض انسانوں کی ہوس نے فروغ دیا وہیں خود اُن محروم افراد کی کمزوری اور بے چارگی نے بھی دوچند کیا۔
فردی معاشی حالت میں جہاں حکومتیں اور اقتصادی ادارے اثر انداز ہوتے ہیں وہیں خود فرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی معاشی جدوجہد اور روزگار کو اپنے اور اپنے خاندان والوں کی کفالت کا ذریعہ بنائے۔
بے شک اس مورد میں انسان اور خصوصاََ مسلمان کی ذمہ داری حلال کسب و کوشش میں ہونی چاہیے۔نیز اس کو عبادت کا درجہ دے کر خداوند تعالیٰ اس بات کا متقاضی ہے کہ اُس سے ہر مسئلہ میں دعا و توسل روا رکھا جائے۔
رسول اکرم ﷺ:امْنُنْ عَلَيْنَا بِالنَّشَاطِ وَ أَعِذْنَا مِنَ الْفَشَلِ وَ الْكَسَلِ وَ الْعَجْزِ وَ الْعِلَلِ وَ الضَّرَرِ وَ الضَّجَرِ وَ الْمَلَل
خدایا !ہم کو زندگی کا نشاط و خوشی اور ہمت سستے داموں دے دے اور ہم کو سستی، بوریت، کمزوری، بہانہ آوری، ضیاع، مردہ دلی اور غم سے محفوظ فرما دے۔
(بحار الانوار (ط - بیروت )‏ ج 91 ، ص 125)
اقتصادی اور معاشی حرکت جہاں ضروریات زندگی فراہم کرنے کا موجب ہے وہیں بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ بھی ہے۔
رسول اکرم ﷺ:إِنَّ مِنَ الذُّنُوبِ ذُنُوباً لَا يُكَفِّرُهَا صَلَاةٌ وَ لَا صَدَقَةٌ قِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَا يُكَفِّرُهَا قَالَ الْهُمُومُ فِي طَلَبِ الْمَعِيشَة
بعض گناہ ہیں جو نماز اور صدقہ کے ذریعے معاف نہیں کئے جاتے۔ سوال ہوا یا رسول اللہ! پھر کیا چیز معافی کی وجہ ہے؟ فرمایا: طلب معاش میں خلوص اور کوشش و جدوجہد۔(مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل ج‏13، ص 13)

عبادت کو اگر کوئی مسلمان صرف نماز، روزہ اور حج و جہاد وغیرہ کی صورت میں تصور کرتا ہے تو وہ غلطی پر ہے بلکہ خود سے معاشی کوشش واقتصادی حرکت کرنی چاہیے۔
رسول اکرم ﷺ:الْعِبَادَةُ عَشَرَةُ أَجْزَاءٍ تِسْعَةُ أَجْزَاءٍ فِي طَلَبِ الْحَلَال
عبادت کے دس اجزاء ہیں جس میں سے نو جز کام کرنے اور جدوجہد و کوشش سے حلال روزی کمانے میں ہیں۔
(مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل ج‏13، ص 12)
البتہ آج کے صنعتی اور ارتباطات کے دور میں انسان اگر بہترین معاشی حالت نہیں بنا سکتا تو اُس کی بنیادی علت جدید تعلیمی نظام سے روگردانی ہے وہ نظام تعلیم جس میں موجودہ زمانے میں اقتصادی حالت کی بہتری کے لئے ہنر ہیں فنون ہیں۔ جہاں تک اقتصادی ہنر اور فنون کی بات ہے اِس کے حصول کو اسلامی تعلیمات رد نہیں کرتیں، ہاں اس کے ساتھ اخلاق و کردار کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
امام علی :كُلُّ ذِي صِنَاعَةٍ مُضْطَرٌّ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ يَجْتَلِبُ بِهَا الْمَكْسَبَ وَ هُوَ أَنْ يَكُونَ حَاذِقاً بِعَمَلِهِ مُؤَدِّياً لِلْأَمَانَةِ فِيهِ مُسْتَمِيلًا لِمَنِ اسْتَعْمَلَهُ
ہر اہل فن اپنے کام میں کامیابی کیلئے تین چیزوں کا ضرورت مند ہے:مورد نظر فن و ہنر میں ہشیاری اور مہارت رکھتا ہو، کام میں درستگی ہو اور لوگوں کے مال میں امانت دار ہو۔ کام دینے والے سے نیک کردار اورنیک دل ہو۔
(تحف العقول ص 322)
مگر ہنر و فنون کی مثال آلہ کی سی ہے جس کو حلال و حرام دونوں راستوں میں استعمال کیا جاسکتا ہےاور مسلمان پر ان جدید ہنر و فنون کو سیکھ کر حلال طریقے سے اپنی معاش کا بندوبست کرنا عین عبادت ہے۔
کسب معاش کیلئے آج کے دور میں جدید تعلیم کا حصول ایک مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے، پہلے مرحلے میں ہی اگر سستی اور کاہلی دکھائی تو اگلا مرحلہ دسترس سے باہر ہوتا ہے۔
امام علی :ضَادُّوا التَّوَانِيَ بِالْعَزْم
عزم و ارادہ کے ذریعے سستی سے جنگ کو نکل پڑو۔
(تصنیف غررالحکم و دررالکلم ص 476 ، ح 10908)
پہلا مرحلہ کامیابی سے پایہ تکمیل ہوگیا اور پھر سست پڑگئے تو نتیجہ اچھا نہیں ملے گا ، بلکہ انسان کے آخری سانس تک کوشش و جدو جہد جاری رہنی چاہیے۔
امام علی :مِنْ سَبَبِ الْحِرْمَانِ التَّوَانِي
اچھے نتیجہ سے محرومی کا ایک سبب سستی اور کاہلی ہے۔
(تحف العقول ص 80)
طلب معاش میں میانہ روی بھی بہت ضروری ہے۔ اور انسان کی اپنی ضروریات کے ساتھ مظلوموں اور محروموں اور کمزوروں کی بھی یاد رکھنا چاہے اور صدقہ، تحفہ، انفاق کو اپنی عادت بنانا چاہیے ، یہ عادت جہاں قلبی سکون کا باعث بنتی ہے وہیں دولت اور مال میں اضافہ کا سبب بھی بنتی ہے، وہ اس طرح کے سماج کے تمام لوگ آپس میں جب ایک دوسرے کی ضرورت پوری کریں گے تو معاشرہ امن و سکون اور جرائم سے دور رہ کر مزید اقتصادی ترقی کا باعث بنے گا جس کے نتائج سے صدقہ دینے والا، انفاق کرنے بھی بہرہ مند ہوگا۔ اور اسطرح نہ صرف دنیا میں ترقی و کامرانی نصیب ہوگی بلکہ اس دنیا کو سلامتی اور بہشت بنائے جانے پر خدا اُخروی جنت میں بھی داخل فرمائے گا۔ انشاءاللہ
امام علی:اعمل لدنياك كأنّك تعيش أبدا و اعمل لآخرتك كأنّك تموت غدا
اپنی دنیا کے لئے ایسے کام کرو جیسے یہاں ہمیشہ رہنا ہے اور اپنی اخرت کیلئے ایسے کوشش و محنت کرو جیسے کل ہی اس دنیا کو چھوڑ جانا ہے۔
(بحارالانوار(ط - بیروت) ج 44 ، ص 139)
معاشی حرکت جہاں انسان کے پیٹ کو پرودگار کی انواع و اقسام کی غذاؤں سے مستفید کرتی ہے وہیں اُس کی عقل کو بھی تقویت دیتی ہے، فہم ادراک اور سمجھ بوجھ میں اضافہ کرتی ہے، انسانی زندگی کو فطرت سے روشناس کراتی ہے اور اس زندگی میں جیسا لینا ویسا دینا کے اصول کو سکھاتی ہے۔
امام علی:ترك التجاره ينقص العقل
کام کاج ترک کردینا عقل کے نقص کا باعث ہے
(اصول کافی (ط-الاسلامیه) ج 5 ، ص 148 ، ح 1)
مسلسل کوشش اور جدوجہد پر مبنی انسانی زندگی کی معاشی حرکت اُس کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کی تکمیل کے بعد خداوند تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور معاشرے کی بھی ضروریات کو حتیٰ الوسع پورا کرتا رہے یہ ایک ایسا فریضہ ہے جو خدا وند تعالیٰ نے ہر صاحب نعمت یعنی صاحب ہمت و ارادہ پر واجب کردیا ہے۔
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا
ور جو کوئی آخرت(اچھے نتیجے ) کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لئے ایسی کوشش بھی کرے جیسی کہ کرنی چاہیئے درآنحالیکہ وہ مؤمن(ہنرمند) بھی ہو تو یہ وہ ہیں جن کی کوشش فائدہ مند ہوگی۔(سورہ اسراء/19)
انفرادی طور پر خلوص ، دیانت داری، صداقت، امانت داری کے ساتھ معاشی افعال میں مشغول ہو تو یہ منطقی طور پر انسان کو کامیاب کرتا ہے اور یہی اصول مجموعی طور پر بھی کامیاب کرتے ہیں۔ البتہ جب بات ہوتی ہے قومی اور ملکی سطح پر اقتصادی حالت کی تو اِ س میں حکومت اور سماجی انتظامیہ کا بہت بڑا دخل ہے، حکومتیں ہی ہوتی ہیں جو ایسی پالیسیاں اور قوانین کو مرتب کریں نیز اس اقتصادی حرکت کو مثبت بنانے کیلئے عمومی ذہن کی تیاری یعنی میڈیا کے ذریعے ایسی تربیت انجام دی جائے کہ جس سے ہر شخص حلال روزی کیلئے کی جانے والی حرکات میں دیانت داری اختیار کرے۔
قومی اور ملکی سطح پر مرکزی بینکوں کا کردار بھی اہم ہے کہ وہ کاغذی کرنسی کی رسد طلب کے مطابق قرار دیں، طلب کی بنیاد محنت اور مہارت کو قرار دیا جائے، ملک سے کرپشن ، رشوت، ربا کے خاتمے کیلئے ذہن سازی کی جائے نیز حلال روزی کے حصول کیلئے ہر سطح پر ذہن سازی کی جائے۔ تعلیم اور ثقافتی میلوں اور محفلوں کے میدانوں کے ذریعے اس ذہن سازی کو انجام دیا جاسکتا ہے۔ حکومتی سطح پر مثبت اقدامات اسلئے ضروری ہیں کہ افراط زر غیرمنطقی نہ قرار پائے، بلکہ زر کی چھپائی یا معاشرے میں اس کی ترسیل محنت کے ساتھ انجام پائے گئے اقتصادی اعمال کے نتیجے میں ہو۔ گھر بیٹھے کمانے اور بغیر محنت کیے روزی میں اضافہ کے خواہشمندوں کی حوصلہ شکنی کی جائے، انسان کی ضروریات کے مطابق اشیاء کی تیاری، صنعتوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ٹیکس وصولی کو موثر بنایا جائے، وغیرہ؛ البتہ اس مورد میں انتظامیہ کو سماج کو جدید شہری سہولیات اور اجرتوں کو بھی اس انداز اور مقدار میں ادا کرنا چاہیے تاکہ تاکہ لوگوں میں کرپشن، فراڈ اور دھوکہ بازیوں کے ذریعے اپنی آمدنیوں میں اضافہ کرنے کے خواہاں نہ ہوں نیز اپنے محکمے اور کام سے مخلص ہوکر لگن اور توجہ سے سرگرمیاں جاری رکھیں۔ عادلانہ حکومت کے زیر سایہ معاشی سرگرمیوں میں بدگمانیاں، فراڈ اور بددیانتی کرنے والوں سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔
امن و امان کی اچھی صورتحال سرمایہ جذب کرتی ہے، اس پر توجہ دی جائے اوربے جا افراط زر اور مہنگائی سے بچنا ، پیداوار اور خلاقیت کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔
آج جدید دور کے تمام قسم کے اقتصادی مسائل کی بنیاد "ربا"ہے ۔ ربا بغیر محنت کیے حاصل کی گئی رقم ، شہ یاجائز معاوضہ دیئے بغیر حاصل کی گئی خدمت کو کہتے ہیں۔ اسکے خطرناک نتائج ہم کساد بازاری اورمعاشرے میں معاشی طور پرغیر متوازن طرز زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں،یعنی کچھ طبقے یا گروہ حد سے زیادہ سرمایہ دار ہوجاتے ہیں اور کچھ طبقات غربت کی لکیر سے بھی نیچے پہنچ جاتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
“اے ایمان والو! یہ دوگنا چوگنا بڑھتا چڑھتا سود نہ کھاؤ (اللہ کی نافرمانی) سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔”( سورہ آل عمران/130)
ہم کو اپنے ملک میں اسلامی ہونے کے تقدس میں ہی "ربا" کو ختم کرنا چاہیے، ربا کی تمام اقسام سے دوری اختیار کرکے ہی ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر 95 ٪ اقتصادی مسائل پر قابو پاسکتے ہیں۔انشاءاللہ ---معاشرے کے باقی اقتصادی مسائل پر انفاق، زکواۃ، فطرہ، صدقہ ، خمس وغیرہ کا منظم نیٹورک بنا کر قابو پایا جاسکتا ہے،
مَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ۔
“جو چیز (روپیہ) تم اس لئے سود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم خوشنودئ خدا کیلئے دیتے ہو ایسے ہی لوگ اپنا مال (کئی گنا) بڑھانے والے ہیں۔” (سورہ روم/39)
ربا جہاں مذہبی طور پر حرام ہے اور اُخروی نقصانات کا حامل ہے وہیں ربااس دنیا میں بھی scientifically سرمایہ کی نابودی ہے۔ (کتاب ااسلامی اقتصادیات اور جدید اقتصادی مکاتب- از شہید باقر الصدر سے رجوع فرمائیں)۔
بین الاقوامی سطح پر بھی اوّل تو اقتصادی معاملات سےاسلامی 'حرام ربا' کو یکسر ختم کردینا چاہیے نیز کسی بھی ایک کرنسی کو بین الاقوامی تجارتی معاملات کی بنیاد نہیں ہونا چاہیے بلکہ جس ملک سے بھی تجارت ہورہی ہو وہیں کی کرنسی کو زر مبارلہ کے طور پر لینا چاہیے اس طرح کسی ایک کرنسی کی بالا دستی ختم ہوجائے گی اور اس سے جہاں جو پیداوار ہورہی ہے اُس ملک کی اپنی معاشی حالت اور کرنسی طاقت پکڑے گی اور کسی ایک کرنسی کے اسٹینڈرد بنے رہنے سے اُس ایک کرنسی کے مالکان کی حرام خوری رک جائے گی نیز برآمد کنندہ ملک اتنا ہی زر مبادلہ حاصل کرسکے گا جتنا اُس حق بن رہا ہوگا۔
یا پھر ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک ملک کی کرنسی کو بن الاقوامی تجارتی معاملات میں اسٹینڈرد بنایا جائے تو اُس ملک پر لازم کیا جائے کہ بین الاقوامی شرح افراط زرکے باعث غریب ممالک کو جو اپنی کرنسی کی قیمت کم ہونے کے باعث زر مبادلہ نہیں کما پارہے ہیں ، اُس عالمی اسٹینڈرڈ کرنسی میں صدقات اور انفاق کے ذریعے مدد کی جائے۔
البتہ ان تمام اقتصادی معاملات کو منظم کرنے کیلئے عادل، صالح اور بندگان خدا کی خدمت کیلئے خلوص رکھنے والی حکومت اور انتظامیہ بھی درکار ہے جو دیانت دار اور امانت دار ہو، جیسے کہ اوپر بھی ترقی یافتہ اقتصادی معاشرے کے قیام کیلئے عادلانہ حکومت کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔یہ حکومت خواہ ایک ملک کی ہو یا کسی خاص خطے پر ہو یا پھر پوری دنیا پر ایک حکومت ہو۔
خدا وندا ! ہم کو فقر سے محفوظ فرما، ہم کواخلاق ِاقتصادی اپنانے کی توفیق دے اور ہم کو معاشی انحرافات سے محفوظ فرما ہم کو غنی کردے اور ہمارے معاملات کو درست کردے، کمزوروں پر رحم فرما ، ظالموں سے مظلوموں کا حق واپس دلوا دے اور ہمیں اس دنیا سے اپنی یاد کے ساتھ اور اپنی معرفت کے ساتھ اٹھانا۔ آمین یا رب العالمین
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57818 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.