ویگن میں رش تھا مگر پروین کو گھر جانے کی جلدی تھی اس
لیے ویگن رکتے ہی وہ اسکی جانب لپکی، کنڈیکٹر نے ایک آدمی کو اٹھا کے اس کے
لیے جگہ بنائی، پروین نے کپڑوں لتوں کے دو شاپر اندر پھینکے اور پھرتی سے
سوار ہو گئی.
'لائیں بچی کو میری گود میں بٹھا دیں' ساتھ بیٹھے ادھیڑ عمر آدمی نے بازو
آگے بڑھایا. " نہیں" اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا، لہجے میں ہلکی سے غراہٹ
تھی، آدمی چونکا اور کھسیانا ہو کر پرے دیکھنے لگا.
لمحے کے ہزارویں حصے میں اٹھارہ سال پرانے خیالات بجلی بن کر اسکے دماغ میں
کوندے، ماضی کے پردے سے اسی قسم کی بازگشت سنائی دے رہی تھی، کوئی کہہ رہا
تھا
اماں بچی کو میں گود میں بٹھا لیتا ہوں، کوئی بات نہیں اپنی بیٹی ہے، اپنا
عصا اور کپڑوں کی گٹھڑی سنبھالے ہانپتی ہوئی بڑھیا بڑے تشکر سے اس شریف
آدمی کو دیکھتی جو بعد میں سارے راستے پروین کے بدن کو سہلاتا رہتا، اسے
گود میں بٹھائے پہلو بدلتا، چپکے سے اس کے گالوں پر،، ہونٹوں پر بوسے دیتا،
سات سالہ پروین گود میں یہ حرکتیں اسے ذرا بھی اچھی نا لگتی تھی، وہ بہت بے
چینی محسوس کرتی مگراس بے چینی کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہتی، پروین کبھی
اپنی نانی کو بھی کچھ نہ بتا سکی کیونکہ بتانے کو کچھ تھا ہی نہیں، وہ
ننھیال میں رہتی تھی اور نانی کے ساتھ اپنی ماں سے ملنے جاتی تھی.
ایسا اکثر ہوتا کہ کوئی نہ کوئی با اخلاق آدمی اسکی نانی کی مدد کرنے کو
تیار رہتا، وہ ضد کرتی کہ نہیں بیٹھنا تو نانی ڈانٹ دیتی، یوں وہ ہونقوں کی
طرح سوکھے حلق اور گندے احساسات کے بوجھ تلے دبی، سہمی اور ڈری اپنے اسٹاپ
آنے کا انتظار کرنے لگتی.... ساتھ بیٹھی نانی یا تو خراٹے لے رہی ہوتی یا
اسی شریف آدمی کو اپنی پراسرار بیماریوں کی علامات بیان کر رہی ہوتی.
نانی تو کچھ عرصے بعد مر گئی مگربچپن کے دور کی وہ بے چینی اب غلاظت اور
شرمندگی کے احساسات میں بدلتی جا رہی تھی.... اور تین بچوں کی ماں بننے کے
باوجود وہ واقعات اب تک ڈراونے خوابوں کی طرح اسے یاد تھے. جب وہ یہ سوچتی
کہ اسے کس مقصد کے لئے اور کس طریقے سے اور کس انداز سے استعمال کیا جاتا
رہا تو اسے خود سے گھن آنے لگتی.. بیٹھے بیٹھے اسکا خون کھولنے لگتا.. مگر
کہیں کچھ بدلا بھی تھا..
میری ماں اور نانی نے تو مجھے شریف آدمیوں سے نہیں بچایا تھا مگر میری بچی
کسی شریف آدمی کا لقمہ نہیں بنے گی.. پروین نے اپنی بیٹی کو بھینچ کرسینے
سے لگا لیا۔
|