ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی بھر مار ہے شہر ہو یا قصبہ
ہر جگہ تنظیم موجود ہے یہ تنظیمیں صحافیوں کے لئے کس قدر کا آمد ہیں یہ بات
کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہرتنظیم کے اندر حریت پسندوں کی موجودگی بھی لازم و
ملزوم ہے ہر تنظیم کا اپنا اپنا ایجنڈا اور قوانین موجود ہیں صحافی
کالونیوں کے کے اعلان کے بعد ملک بھر میں غیر صحافیوں کارڈ ہولڈ رپورٹرز کی
بھر اس قدر ہوئی کہ صحافیوں کو اپنا تعارف کروانے سے شرم آتی ہے چند سرمایہ
داروں نے اخبارات کے کارڈ خرید کر صحافت کا گلہ دبا دیا رہی سہی کسر سرمایہ
دار رپورٹرز نے صحافت کو اپنی لونڈی بنا کر شہر شہر ،گائوں ،گلی گلی، کوچے
کوچے نیلا م کر دیا پنجاب کے 48پریس کلب کے60فیصد رپورٹر ز کو میں ذاتی طور
جانتا ہوں جو خبر لکھنا جانتے ہیں اور نہ خبر بنانا ۔بہت سے قلم کاروں نے
قلم کی بجائے اپنے ساتھ بندوقیں یا گارڈ رکھے ہوئے ہیں ۔بندوق کا تاثر ایک
قلم کار پر کیا جاتا ہے یہ قلم کار خوب جانتے ہیں برائیاں معاشرے میںہوں یا
صحافیوں میں قابل مذمت ہیں جہاں ہم روز کی بنیادوں پر شہریوں کے مسائل
اجاگر کرتے رہتے ہیں وہاں صحافیوں کے مسائل بھی موجود ہیں جنہیں نہ تو خبر
کا حصہ بنایا جا سکا ہے اور نہ ہی آج تک کسی کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی ہر
دور میں صحافت کا گلہ کاٹنے کی کوشش کی گئی ہے ہر دور میں صحافت کو
اندھیروں میں بند کر کے سانس روکنے کی کوشش کی گئی ہے مگر ایسا ممکن نہیں
ہو سکا کیونکہ ملک میں ایک بھی قلم کار موجود ہے تو اس کے قلم کی آواز پوری
دنیا میں گونجے گی اور گونجتی رہی گی موجودہ حکومت نے اقتدار میں آنے کے
بعد صحافتی میدان میں کافی حد تک اکھاڑ بچھاڑ کی ہے سابقہ حکومتوں کی
نوازشات چنداداروں کیلئے مخصوص رہیں مگر اس کی سزا تمام صحافی برادری کو دی
گئی ،لوکل ایڈیشن بند ہونے کی وجہ سے سینکڑوں ورکر زبیروز گار ہوئے سرکاری
سطح پر اشتہار کی بندش سے ملک کے چوتھے ستون میں دراڑیں آنے شروع ہو چکی
ہیں ۔ با عزت قلم کار اپنے شعبے سے نہ صرف پریشان ہیں بلکہ بڑھتی ہوئی
مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس بے حس قوم کو اس کے حال پر چھوڑنے کا
فیصلہ بھی کرنے والے ہیں خیراتی صحافیوں کا م زورو شورسے چلتا رہے گا مگر
با ضمیرصحافی ملکی حالات سے تنگ آ چکے ہیں پچھلی دو دہائیوں سے میرا قلم
دہائی دے رہا ہے مگر کسی کے کانوں کبھی جوں نہیں رینگی صحافت لٹریچر کا حصہ
ہے اور لٹریچر زبان کی ترویج کے لئے انتہائی اہم درجہ رکھتا ہے اگر صحافت
دم توڑ گئی تو آپ سمجھیں زبان مر جائے گی اگر زبان مر گئی تو آپ سمجھیں قوم
مر گئی اگر قوم مر گئی تو سمجھیں غلامی آپ کا مقدر بن جائے گی بات اس وقت
آپ کو انتہائی معمولی معلوم ہوتی ہو گی مگر اس کی گہرائی اور سنجیدگی سے
شاید نام نہاد انقلابی واقف نہیں دنیا میں جب جب بھی انقلاب آیا وہ قلم
دوات کا محتاج رہا ہے ملکی سطح پر حکومتی مداخلت اخبارات اور چینلز میں
کافی حد تک بڑھ چکی ہے ۔گزشتہ روز ایک لاہور کے مقامی اخبار کے اشتہارت بند
کر دیئے گئے جس پر پوری صحافی برادری سراپا احتجاج ہے آج نئی بات کی باری
ہے تو کل دنیا ،جنگ ، نوائے وقت ، یا ایکسپریس کے اشتہارت بھی بند ہو سکتے
ہیں پاکستان کے سنکڑوں اخبارات میں ادب سے وابستہ لوگ اپنی ادبی پیاس
بجھانے کیلئے وابستہ ہیں مگر جس شجر سے ہماری وابستگی ہے اس شجر کو کاٹنے
کی کوشش کی جا رہی ہے ۔علاقائی سطح پر صحافی محرومیوں کا شکار ہو رہے ہیں
مقامی سطح پر قلم کی آواز کو بندوق کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے
۔صحافت معاشرے کی آنکھ ہوتی ہے خبر اچھی ہو یا بری اس کے اثرات معاشرے پر
گہرے مرتب ہوتے رہتے ہیں مگر اس کا ہونا لازمی قرار دیا جا چکا ہے پاکستان
کی تاریخ میں کبھی کسی سیاستدان نے پریس کلب کے معاملا ت میں مداخلت نہیں
کی اور نہ کسی ایک گروپ کی حمایت کی مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے سابق وفاقی
وزیر اطلاعات و نشریات قمر الزمان کائرہ کی پریس کانفرنس گوجرانوالہ پریس
کلب میں منعقد ہو رہی تھی کہ اچانک بد مزگی پیدا ہو گئی اور پریس کانفرنس
کا بائیکاٹ کر دیاگیا مگر سابق وزیر نے کہا کہ ہم دونوں گروپس کے مہمان ہیں
اور دونوں گروپس میں صحافی ہیں یہ آپ کا ذاتی معاملہ ہے اس میں کوئی
سیاستدان اور انتظامیہ مداخلت نہیں کر سکتی لہذا پریس کلب میں اجارہ داری
کو ختم کر کے وہاں الیکشن بھی ہوئے ایک گروپ نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا
اور پرائیویٹ دفتر میں بیٹھ کر نامزدگیاں کر لیں اور کئی لوگوں نے آپس میں
صدارتیں بانٹ لیں مگر پریس کلب کی بلڈنگ میں ہونے والے انتخابات میں 400سے
زائد ووٹر نے اپنے ووٹ کاسٹ کئے جس میں ایک ووٹ راقم کا بھی بطور ممبر کاسٹ
ہوا تھا وہاں پر موجود سیکورٹی اداروں نے تمام امور کا جائزہ لیتے ہوئے
رپورٹ مرتب کی کہ پریس کلب کی بلڈنگ میں ہونے والے انتخابات کے ذریعے آنے
والے صحافی ہی پریس کلب کے حق دار ہیں دوسرے گروپ نے نہ تو کسی سیاستدان کا
سہارا لیا ہے اور نہ ہی پریس کلب کے ماحول کو خراب کرنے کیلئے کسی ایم این
اے یا ایم پی اے سے سفارش کی کہ ہم صحافی لاچار ہو چکے ہیں لہذا آپ پریس
کلب کو تالے لگوا کر چابی ہمیں سونپ دیں ۔گوجرانوالہ پریس کلب کی چاہی کسی
ایک کے پاس نہیں تمام صحافیوں کیلئے ملک بھر میں پریس کلب ہمیشہ کھلے رہتے
ہیں پاکستان کا کوئی ایسا پریس کلب نہیں جہاں اس کا کنجی بردار صدر یا جنرل
سیکرٹری ہو ، پریس کلب میں مستقل بنیادوں پر ایک سیکرٹری ملازم ہے کوئی
گروپ بھی ہو وہ ان کا نہ صرف خیر مقدم کرتا ہے بلکہ ان کی آئو بھگت بھی
کرتا ہے اور پریس کلب کے اوقات میں پریس کلب کھلا رہتا ہے تمام گروپس کے
صحافی بلاتخصیص وہاں آتے جاتے ہیں کسی پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہے
پریس کانفرنسز بھی ہوتی ہیں جہاں رپورٹز کی زیادتی ہے وہاں سینکڑوں کی
تعداد میں قلم کار بھی موجود ہیں مگر حافظ آباد محرومیوں کا شکار قلم کی
طاقت اور حرمت سے عاری چند نا م نہاد صحافیوں نے پریس کلب کے ماحول اور
صحافتی سرگرمیوں کو اس قدر آلودہ کیا ہے آج دس سال بعد بھی حافظ آباد واپسی
پر مجھے خودکو صحافی کہنے پر شرم محسوس ہوتی ہے ۔حافظ آباد قلم کاروں کے
ہاتھوں میں بندوقیں ہونا انتہائی قابل مذمت بات ہے جن کہ اپنی جان کا خطرہ
ہے وہ صحافت کے میدان سے ہٹ کر اپنی ذاتی معاملات میں دلچسپی لیں اور نہ
صحافیوں کو ہراساں کر کے قلم کے حرمت کو تارتار کیا جائے ۔حافظ آباد پریس
کلب کی سنگینی پر انتظامیہ کی خاموشی سنگین صورتحال پیدا کر سکتی ہے ۔تمام
سیاسی صحافیوں سے اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ شہر کے ماحول کو خدا را برباد مت
کریں کیا معلوم کب الیکشن ہو جائیں اور آپ کا اقتدار ڈوب جائے پریس کلب کی
کرسیِ صدارت پر براجمان ہونے کے سوا سنیکڑوں کام ایسے پڑے ہیں جو صحافیوں
کے فلاح و بہبود کیلئے انتہائی ضروری ہیں آئیں مل کر صحافیوں کی فلاح و
بہبود کیلئے کام کریں آئیں سب مل کر تنگ دست صحافیوں کی تعلیم و تربیت اور
ان کے خاندان کیلئے صحت کا بندو بست کریں ۔ملک بھر کے مختلف تنظیموں میں
اتحاد کی لوگ مثالیں دیتے ہیں ، ہم نے ریلوے کے تنظیموں کا دور دیکھا ہوا
ہے تنظیم سازی بھی جانتے ہیں تنظیم بنانا بھی جانتے ہیں مگر قلم کے ذریعے
ہمیشہ قلم کی حرمت کو سامنے رکھا ہے امید کرتے ہیں تمام صحافی اس مسئلے پر
غور فرمائیں گے ۔پریس کلب کسی سیاستدان کی ذاتی جاگیر نہیں یہ پبلک پراپرٹی
ہے اگر مسائل جلد ختم نہ ہوئے تو ضلعی انتطامیہ اس پر قبضہ کرنے کیلئے کوئی
اقدامات اٹھا سکتی ہے پھر نہ رہے گا بانس نہ رہے گی بانسری اور صورتحال سے
بچنے کیلئے ہمیں مل بیٹھنا ہو گا ۔
|