27جولائی کوبلوچستان میں ایف سی کے کیپٹن عاقب
جاوید،سپاہی نادر،سپاہی عاطف الطاف اورحفیظ اﷲ دہشتگردوں کی فائرنگ سے
شہیدہوئے، دوسری جانب شمالی وزیرستان پاک افغان سرحدپرگشت کے دوران
حوالدارخالد،سپاہی نوید،سپاہی بچل شاہ،سپاہی علی رضا،سپاہی بابر اورسپاہی
احسن کوبزدل دُشمن نے شہیدکردیا۔یہ تمام شہدائے وطن ابھرتی جوانی،مستقبل کے
عزائم اورامنگیں،سینہ میں موجزن ارمان، اپنے خاندان کی خوشیاں وطن عزیز پر
قربان کرتے ہوئے بالآخراپنی تمنا پاگئے ۔
ملک کی سرحدوں کے دفاع میں شہادت ہرمحافظ ِوطن کی سب سے بڑی خواہش وتمنا
ہوتی ہے، اُس کے نزدیک وطن سے مقدم و مقدس کوئی چیزنہیں ہوتی۔وہ وطن کی
خاطراپنی جان کی قربانی کوسب سے بڑافریضہ اور اعزازسمجھتاہے۔ وہ چاہتاہے
اُس کاوطن سلامت رہے ۔اُس کے ہم وطنوں پرکوئی آنچ نہ آئے۔وہ دُشمن کے شرسے
محفو ظ ومامون رہیں اوراُس کی جان کے بدلے، اس کا ساراخاندان ایسی اعلیٰ
جنت میں داخل ہوجس کی نعمتیں اورآسائشیں کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ابودرداء
نے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا "شہیدکی شفاعت اس کے
کنبے کے ستر افرادکے لیے قبول کی جائے گی" (ابوداود) ۔یہی وجہ ہے مسلمان تو
اﷲ کی راہ میں شہادت کواتنا ہی پسندکرتاہے، جتناکافرلوگ دُنیاوی زندگی کی
لذتوں اورنعمتوں کو پسندکرتے ہیں۔
ہرانسان جودُنیا میں آیاہے،اُس نے موت کے تکلیف دہ اوراذیت ناک مرحلہ سے
گزرنا ہی ہے اور ہرجسم نے مٹی میں مل کربکھرہی جانا ہے۔ہرلاش چاہے کتنے ہی
اہتمام عمدہ خوشبو،نفیس ترین کفن میں دفن کی جائے آخرگل سڑہی جاتی ہے۔
مگردفاع وطن میں گرا ہواخون انتہائی قیمتی ہوتا ہے اورشہیدکے مقام ومرتبہ
اوراعزازکاکیا کہنا ۔شہادت کی موت اتنی بڑی نعمت ہے کہ شہید جنت میں
جاکربھی اسے نہیں بھولے گا اورخواہش کرے گا کہ اسے پھردُنیا میں بھیجا جائے
اورشہیدہو،حتی کہ دس بار اسے دُنیا میں بھیجا جائے توبھی ہربارشہادت ہی اس
کی آرزوہوگی۔سیدالاولین والآخرین حضرت محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی
شہادت کی تمنا فرمایا کرتے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورصلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: میں پسندکرتاہوں کہ میں اﷲ تعالیٰ کے راستے
میں جہادکروں اور شہیدکیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھرشہیدکیا جاؤں پھرزندہ
کیا جاؤں پھرشہیدکیا جاؤں(بخاری شریف)
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ترجمہ: اورجوخداکی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت
کہوبلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبرنہیں (سورۃ البقرہ 2-154) اسی طرح سورۃ
آل عمران میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے۔ترجمہ : اورجواﷲ کی راہ میں مارے گئے
ہرگزانہیں مردہ نہ خیال کرنابلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں ،روزی پاتے
ہیں (3-169)
زندگی تو ہے ہی اﷲ کی امانت، جیسا کہ ارشادباری تعالیٰ ہے،انسان کی پیدائش
اتنی بے بودہ اوربے مقصدنہیں اورنہ زندگی کی نعمت، عقل ، حواس اورجسم کے
اعضاء انسان کوبے مقصدعطاء کئے گئے ہیں۔بلکہ یہ سب اﷲ تعالیٰ کی جانب سے
امانت ہیں تاکہ عطاء کی گئی تمام نعمتیں اﷲ کی منشاومرضی کے مطابق استعمال
کی جائیں۔جب موت کا ایک وقت مقرر ہے تو پھر کیوں نہ شہادت کی موت طلب کی
جائے۔اسی لئے شہادت جیسی عظیم ،پیاری اورلذیذموت کی دُعاکی ترغیب ہرمسلمان
کودی گئی ہے ۔حدیث کامفہوم کچھ یوں ہے "جوشخص سچے دل سے اﷲ کی راہ میں مارے
جانے کی دعا مانگے تواﷲ تعالیٰ اسے شہادت کاثواب دے دے گاـ" (ترمذی)
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا،اہل جنت
میں سے ایک شخص کولایاجائے گا،اﷲ تعالیٰ اس سے فرمائے گااے آدم کے بیٹے
تونے کیسا مقام پایا وہ کہے گااے میرے پروردگارمیں نے بہترین جگہ پائی۔اﷲ
تعالیٰ فرمائے گاتومجھ سے مانگ اورکسی چیزکی تمنا کر!وہ کہے گامیں تجھ
سے]اور[ کیامانگوں اورکس چیزکی تمناکروں؟میں تجھ سے یہی مانگتا ہوں کہ مجھے
دُنیامیں لوٹادے تاکہ تیرے راستے میں دس بارشہیدکیاجاؤں وہ یہ تمنا شہادت
کی فضیلت دیکھنے کی وجہ سے کرے گاپھرایک جہنمی کولایا جائے گااﷲ تعالیٰ اس
سے فرمائیں گے اے آدم کے بیٹے تونے کیسی جگہ پائی وہ کہے گااے پروردگارمیں
نے بہت بری جگہ پائی اﷲ تعالیٰ فرمائے گاکیا تواس عذاب سے بچنے کے لیے فدیے
میں زمین بھرسونادے گاوہ کہے گاہاں۔اﷲ تعالیٰ فرمائے گاجھوٹ بولتاہے میں نے
تجھ سے اس سے کم مانگاتھامگرتونے نہیں دیا تھا۔]یعنی دُنیامیں تھوڑاسامال
بھی تونے میرے راستے میں اورنیکی کے کاموں میں خرچ نہیں
کیاتھا[(المستدرک،نسائی،ابوعوانہ)
امام مالک نے یحی بن سعیدسے روایت کیا ہے کہ عمربن خطاب ؓ نے فرمایا"مومن
کی قابلیت اس کا تقوی ہے۔اس کا دین اس کی اعلی نسل ہے۔اس کا کردار اس کی
اہمیت ہے۔بہادری اوربزدلی جبلتیں ہیں جواﷲ جہاں چاہے رکھ دیتے ہیں۔بزدل
اپنے ماں باپ کادفاع کرنے سے بھی ڈرتاہے اوربہادرمال ِغنیمت کے لئے نہیں
بلکہ جنگ کے لئے لڑتاہے۔قتل ہونا موت کاایک طریقہ ہے اورشہیدوہ ہے جواﷲ کے
لیے خودکوپیش کرتاہے"(الموطا)
اس دھرتی پرماؤں نے کیسے کیسے جوان لخت جگرقربان کردیئے ،شہیدکیپٹن عاقب
جاوید کا تعلق ضلع سرگودھا ،بھیرہ کے گاؤں نوتھیں سے تھا ۔شہیدکیپٹن عاقب
جاوید کی24اگست کوشادی تھی۔مگرقدرت کو کچھ اورہی منظورتھا،کیپٹن عاقب
جاویدنے چندروزقبل ہی مختصررخصت گزارنے کے بعددوبارہ ڈیوٹی جائن کی تھی۔
27جولائی 2019کوبلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے دوران اپنی ٹیم
کے ساتھیوں سپاہی نادر،سپاہی عاطف الطاف اورسپاہی حفیظ اﷲ کے ساتھ
دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہادت کے مرتبہ پرفائزہوئے۔
رگوں میں ہے جنوں میں ہے وطن کا عشق خوں میں ہے
جوبیٹے ہیں وطن تیرے وطن ان کے لہو میں ہے
ابتدائے اسلام کے زمانے میں سب سے زیادہ باعث ِفخربات ہی یہ تھی کہ فلاں
قبیلہ ، خاندان اورگھرمیں اتنے شہدا کا اعزازہے۔سلام ان عظیم ماؤں، بہنوں
،بیٹیوں اوروالدین پرجنہوں نے یہ روایت زندہ رکھی ہوئی ہے،جوآج بھی اپنے
جوان بیٹوں کی شہادت پر ہمت وحوصلہ نہیں ہارتے ۔جواں سال شہیدکیپٹن عاقب
جاویدکے باپ کاتدفین کے موقع پریہ کہنا،کہ مجھے خوشی اورفخرہے،کسی باپ کے
لئے اس سے بڑھ کرفخرکی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اس کا بیٹاوطن پرقربان ہو
جائے، دراصل وطن ِ عزیزکے دُشمنوں کوپیغام ہے کہ ہمارے حوصلے
بلندہیں،تمہاری بزدلانہ چالیں ہماراکچھ نہیں بگاڑسکتی ،دُنیا وآخرت میں ذلت
ورسوا ئی تمہارا مقدرہے ۔پاکستان توبنا ہی قائم رہنے کے لئے ہیں،ان شاء اﷲ
وطن عزیزمیں امن بھی آئے گااوریہ تاقیامت قائم ودائم بھی رہیگا۔ یقیناتمام
شہداء کے والدین کے یہی جذبات ہوں گے،کیونکہ اسلامی تاریخ ایسے واقعات سے
بھری پڑی ہے ،کہ اپنے پیاروں کی شہادت پرفخرکیا جاتاہے۔پوری پاکستانی قوم
ان تمام شہداکوخراج تحسین پیش کرتی ہے ،اﷲ عزوجل ان کی شہادت قبول فرمائے۔
آمین
|