مجھے کسی دوست نے دعوت دی کہ یکساں نظام تعلیم کے حوالے
سے ایک سیمینار ہے ۔ کوئی وزیر تعلیم بھی تشریف لا رہے ہیں۔ کچھ آراء تم
بھی دے سکتے ہو۔ آنا اور سننابھی۔تعلیم کے وزرا کی بھی ایک فوج ظفر موج ہے
، ہم نے تعلیمی نظام کے علم برداروں کو کئی حصوں میں بانٹ دیا ہے ان کی
رائے آپس میں نہیں ملتی اور ہم ایک جیسے نصاب کے خواب دیکھتے ہیں۔ تعلیم کے
نظام کو مربوط ہونا چائیے جب کہ ہماری کوئی کل آپس میں نہیں ملتی۔ دنیا بہت
آگے جا چکی ہے ۔بہر حال میں نے کہا کہ آپ کی دعوت پر میں آ تو جاؤں گا مگر
ان وزرا کی کون سی بات ہے جو سننے والی ہوتی ہے۔ وزیر صاحب نے تعلیم پر
کوئی بات نہیں کرنی اور جو کہنا ہے اس کا لب لباب یہی ہے کہ ہمیں بہت برے
حالات ملے ہیں۔ نظام تعلیم کو پچھلی ْھکومت نے اس قدر تباہ کر دیا ہے کہ ہم
ابھی تک غور ہی میں مصروف ہیں کہ ان کھنڈرات کی صفائی کہاں سے شروع کریں۔
مصیبت یہ ہے کہ ان کھنڈات کی ہر اینٹ کے نیچے سے کرپشن کا سانپ نکل آتا ہے۔
ہم اس سانپ کو ہی دیکھ دیکھ کر خائف ہیں، صفائی کیسے کریں اور جب تک صفائی
نہ ہو گی تعمیر نو ممکن نہیں۔ مگر آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم
اپنے لیڈر کی قیادت میں ، اگر ہماری حکومت قائم رہی تو ان پانچ سالوں میں
کرپشن کے سانپوں پرامید ہے قابو پا لیں گے اور اگلے پانچ سال میں پاکستان
دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے لگے گا۔ بس دس بارہ سال کی بات ہے۔ اس وقت
مہنگائی اگر آپ کے کپڑے اتار رہی ہے تو قصور ہمارا نہیں ، پچھلی حکومت کا
ہے۔ لیکن پریشان نہیں ہونا ۔ حکومت غور کر رہی ہے کہ نئے لباس کے لئے
درختوں کی چھال بہتر ہے یا پتے۔ چند سالوں میں فیصلہ کرنے کے بعد حکومت جلد
نئے لباس بنوا لے گی امید ہے اگلے الیکشن سے پہلے آپ کو پتھر کے دور سے
ملتا جلتا یعنی انٹیک، جس کی نئی نسل دلدادہ ہے ، قسم کاایک نیا اور
بہترجدید لباس مل جائے گا۔
ایک سال کی صفر کارکردگی کے باوجود یہ بڑی ڈھٹائی سے ایسی ہی بڑی بڑی باتیں
کرتے ہیں۔ کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔مزے سے اپنی نالائقی کا دفاع کرتے
ہیں۔اس حکومت کی نالائقیوں کا کون کون سا تذکرہ کروں۔ ایک یونیورسٹی میں
ایک پوسٹ پر تعیناتی کے لئے تین سینئر ترین لوگوں کا نام بھیجا گیا۔ سینئر
کا حق تھا۔ وہ بیچارہ چھ ماہ انتظار کرتا رہا۔ان کی پھرتیاں دیکھتا رہا۔
خیال تھا کہ یہ لوگ جتنی باتیں بناتے ہیں ان کا کچھ نہ کچھ اصول ہو گا۔ان
کا میرٹ حوالے سے جڑا نہیں ہو گا۔ مگر پتہ چلا کہ ان کی سست روی اور ان کا
میرٹ تو پچھلی حکومت سے بھی بد تر ہے۔ وہ شخص جو چھٹے نمبر پر تھا اور جس
کا نام بھی لسٹ میں نہ تھا وہ منتخب ہو گیا۔ اس کا میرٹ یہ تھا کہ سائیں وہ
اپنے علاقے کا تھا۔ یہ ہے ان کا انداز حکومت اور باتیں مدینے کی ریاست کی
کرتے ہیں۔ مدینے کی ریاست میں صرف ایک چیز تھی ،وہ تھی بر وقت انصاف کی
فراہمی۔ باقی سارے نظام خود بخود ٹھیک ہو گئے تھے۔ ہمارے انصاف اور ہماری
نا اہلی کا یہ عالم ہے کہ سینکڑوں لوگوں کے کیسز ایل ڈی اے ٹریبونل میں
فیصلے کے منتظر ہیں۔ اور یہ نالائق پچھلے آٹھ ماہ میں وہاں جج تعینات نہیں
کر سکے۔میں نے اس بارے بارہا لکھا۔ پورٹل سمیت ہر فورم پر شکایت کی مگر
انہیں صرف گالیوں کا مقابلہ کرناآتا ہے۔ عوام کے مسائل سے عوام کوخود ہی
نپٹنا ہو گا۔شاید ایل ڈی اے کے منسٹر کو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ اس محکمے
میں کوئی ٹریبونل بھی ہوتا ہے جسے چلانے کے لئے ایک عدد جج بھی درکار
ہوتاہے ۔ماشا اﷲ سارے وزرا ایسے ہی ہونہار اور ایسے ہی انتہائی قابل ہیں۔وہ
اپنے لیڈر کا نام لے کر ڈھول کی تھاپ پر خوبصورت رقص کر سکتے ہیں۔اور آج کے
دور میں کارکردگی کا چونکہ یہی معیار ہے اس لئے اس سے بہتر کارکردگی کیا ہو
سکتی ہے۔
سیمنار اچھا تھا۔ خوبصورت بات یہ ہوئی کہ وزیر تعلیم اپنی بے پناہ مصروفیت
کے سبب ، جیسے ہمیشہ ہوتا ہے،تشریف نہ لاسکے اور صدارت کا قرعہ فال ایک
سینئر استاد کے نام نکلا۔ استاد مہذب معاشروں میں ایک بڑا آدمی ہوتا ہے جب
کہ ہمارے وزرا جو تعلیمی اعتبار سے بس گزارا ہی کرتے ہیں کو بڑا کہلوانے کے
لئے اخلاقی طور پر پست معاشرہ درکار ہوتا ہے۔میں خوش ہوا کہ لوگوں میں
استاد کے احترام کی حس ابھی زندہ ہے۔موضوع یکساں تعلیم تھا۔ مقررین میں ایک
بڑی تعداد ایسے تبصرہ نگاروں کی تھی جس طرح کے تبصرہ کرنے والے ٹی وی پر
ہوتے ہیں ۔ موضوع جو بھی ہو ، مگر انہیں جو یاد ہو وہی بیان کر کے چلے جاتے
ہیں ۔ سوال گندم کا جواب چنا بتاتے ہیں اور ڈھٹائی سے اس پر قائم رہتے ہیں۔
البتہ یہاں مرغوں کی طرح لڑنے کی گنجائش نہیں تھی۔ بہت سے اہل لوگوں نے
موضوع کے بارے بہت خوبصورت گفتگوکی اور حکومت پر زور دیا کہ اس ملک سے
طبقاتی نظام تعلیم کو ختم کرکے یکساں نظام تعلیم کا نفاد کرے۔ مقررین اور
سامعین میں استاد صحافت جناب شفیق جالندھری، نامور آٹسٹ جناب شفیق فاروقی،
شاعر اور محقق لیجنڈ میجر خالد نصر، مشہور صحافی تاثیر مصطفےٰ، اردو کے
مشہور استاد اور محقق جناب رضوان الحق، جنہوں نے ایک خوبصورت مقالہ بھی
تقسیم کیا، الفاظ کے زیرو بم پر مکمل عبور رکھنے والے استاد صحافی جناب
منشا قاضی اوراساتذہ کی جدوجہد کے علم بردار جناب مشکور صدیقی سمیت ایسے
بہت سے لوگ تھے جن کی موجودگی اس محفل کا حسن تھی۔ رائے ونڈ گرلز کالج کی
پرنسپل نے جو مقالہ پڑھا ، بہت تفصیلی تھا اور اسے سب نے سراہا۔ ایک مقررکے
پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو مافیا قرار دینے پر مشہور ماہر تعلیم جناب ادیب
جاودانی مرحوم کے فرزند کاشف ادیب جاودانی نے احتجاج کیا۔ میرے جیسے بہت سے
لوگوں نے اس کی تائید کی ۔ اس لئے کہ پرائیویٹ شعبے میں ایک مافیا ضرور ہے
مگر بہت سے لوگ جو معقول فیس اور بہتر سہولتوں کے ساتھ عوام کی خدمت کر رہے
ہیں ان کی حوصلی افزائی بہت ضروری ہے۔ ایسے سیمینار وقت کی گرورت ہیں اور
اسے منعقد کرنے والے یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ |