موجودہ ھکومت کا ایک سال مکمل ہوچکا ہے۔ تعلیم کے میدان
میں کوئی انقلابی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے۔ پہلے نواز شریف اور زرداری کی
گرفتاریوں کی وجہ سے اصل مسائل عوام کی نظروں سے اوجھل رکھے جاتے رہے ہیں
اب کشمیر کا معاملے بہت اہم ہے یوں حکومت کی معاشی اور سماجی تبدیلی کے
حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں نظر آتا۔
ہمارئے ملک کے وسائل پر براجمان ایک خاص طبقہ ہے جن کی اولادیں ہی سول سروس
میں جاتی ہیں اِن کے ہی خاندان کے لوگ اعلیٰ عسکری اداروں میں اعلیٰ عہدوں
پر موجود ہیں اور یہی حال اعلیٰ عدلیہ کا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ سیاست پر
بھی وہی طبقہ پچھلے ستر سالوں سے چھایا ہوا ہے جس کے پاس حد سے زیاد ہ
وسائل ہیں۔اِس کی وجہ آخر کیا ہے۔پاکستان کو بنانے وقت صرف ایک ہی سوچ تھی
کہ اﷲ اور اُس کے رسولﷺ کے نظام کو نافذ کیا جائے گا۔ اﷲ اور اُس کے رسول ﷺ
کے نظام کا مطلب یہ ہے کہ فلاحی ریاست ہوگی۔ وسائل کی تقسیم مساویانہ ہوگی۔
ہر انسان کو ترقی کے برابر کے مواقع میسر آئیں گے۔ لیکن حضرت قائد اعظمؒؒکی
وفات کے بعد ملکی مفاد کو یکسر فراموش کردیا گیا۔
جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں نے ملکی وسائل کو اپنے ہاتھوں میں ہی
مرتکز کر لیا۔ نوکر شاہی اعلیٰ عدلیہ، فوج غرض یہ کہ تمام ریاستی اداروں پر
کنٹرول صرف با وسائل طبقے کا ہی رہا۔ اِسی لیے کبھی یہی طبقہ جموریت کے نام
پر اور کبھی مارشل لاء کے نام پر حکومت پر قابض رہا ہے اور اِسی طبقے نے
مذہبی رہنماؤں کو بھی اپنے پروں کے نیچے رکھا ہوا ہے تاکہ عوام کو ضرورت کے
مطابق کبھی جمہوریت کے نام پر کبھی مذہب کے نام پر غربت افلاس بے روزگاری
کے اندھے کنویں سے نکلنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ یوں عوام پچھلے ستر
سالوں میں روٹی پانی کے چکر میں پڑی ہوئے ہیں اور باوسائل طبقہ حکومت پر
براجمان رہا ہے۔ اُردو کی بجائے یا مادری زبانوں کی بجائے انگریزی زبان کو
دفتری زبان بناء کر، عدالتی زبان بنا کر، سول سروس کے امتحان کی زبان بنا
کر اِس قو م کے ساتھ وہ ظلم کیا گیا ہے کہ اِس قوم کو صدیوں پیچھے دھکیل
دیا گیا ہے۔
یوں عام آدمی معاشیات کی ایک ٹرم کے مطابق غربت کے منحوس چکر میں پھنسا ہوا
ہے۔نہ عام کو انگریزی آتی ہے نہ عام آدمی سول سروس میں جائے گا۔ نہ عام
آدمی کو انگریزی آتی ہے نہ اُسے پتہ چلے گا کہ جج نے اُسکے کیس کا کیا
فیصلہ لکھوایا ہے۔اٹھانوئے فی صد عوام کی حالت یہ ہے کہ شود سے بدتر زندگی
گزار رہے ہیں تو اِس معاشرئے میں جہاں سچ بولنا جُرم جہاں حق مانگنا بغاوت
ٹھر اہو وہاں خواتیں اور اقلیتوں کے حقوق کا کیا عالم ہوگا۔
نئے وزیر اعظم نے یکساں نظام تعلیم کی بات کی ہے اگر یکساں نظام تعلیم نافذ
ہوجائے تو بہت سی مشکلات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ بے روزگاری، تحمل مزاجی
برداشت کا نہ ہونا اِن سب کے پیچھے یہ ہی محرکات ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
سرکاری سکولوں میں اگر اراکین اسمبلی اراکین،سینٹ، تمام سرکاری ملازمین
بشمول سول سروس کے بچوں کو پڑھایا جانا لازمی قرار دئے دیا جائے توصرف چار
دن میں سرکاری سکولوں کا معیار آسمان کو چھو لے گا۔اِس وقت ایک اور بات
سردست وزیراعظم صاحب کی خدمت میں پیش کرنا ہے وہ یہ کہ آپ اقلیتوں اور
خواتین کے لیے پرائیوٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں میں کم ازکم دس فی صد کوٹہ
مختص فرمائے جانے کا حکم صادر فرمائیں کہ اِن کو بغیر کسی فیس کے تعلیم ملے
تاکہ معاشرئے کا یہ طبقہ بھی قومی دھارئے میں آسکے۔
اِس حوالے سے ناچیز نے وزیر اعظم صاحب کی خدمت میں ایک مراسلے بھی بھیجا ہے
جو آپ بھی ملاحظہ فرمالیں۔پبلک و پرائیوٹ کالجز، یونیورسٹیز میں بلا کسی
فیس و دیگر واجبات کے اقلیتوں اور خواتین کے لیے کم ازکم دس فی صد نشستیں
مختص کی جائیں اور اِس حوالے سے صوبائی گورنرز، وزراء اعلیٰ، وفاقی وزیر
تعلیم کو فوری طور پر احکامات جاری کیے جائیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار
ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کا
وزیر اعظم پاکستان کے نام مراسلہ۔پبلک و پرائیوٹ کالجز، یونیورسٹیز میں بلا
کسی فیس و دیگر واجبات کے اقلیتوں اور خواتین کے کے لیے کم ازکم دس فی صد
نشستیں مختص کی جائیں اور اِس حوالے سے صوبائی گورنرز، وزراء اعلیٰ، وفاقی
وزیر تعلیم کو فوری طور پر احکامات دئیے جائیں اِن خیالات کا اظہار انسانی
حقوق کے علمبردار ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل کے چیئرمین صاحبزادہ اشرف
عاصمی ایڈووکیٹ نے وزیر اعظم پاکستان کے نام ایک مراسلے میں کیا ہے۔
صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے وزیر اعظم کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی
ہے کہ پاکستان میں نجی و سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنا
بہت منگا ہوگیا ہے۔ سرکاری کالجز او ر یونیورسٹیز بھی خودمختار ادارہ بنائے
جانے کی آڑ میں غریب پاکستانی عوام کا کچومر نکال رہے ہیں۔آئین پاکستان کے
آرٹیکل25 کے تحت ہر شہری کو تعلیم دلوانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔لیکن تعلیم
اداروں میں کاروباری عنصر کی وجہ سے غرب آدمی پس کر رہ گیا ہے۔ اشرف عاصمی
نے مراسلے میں کہا ہے کہ جو مزدور پندرہ ہزار روپے ماہانہ کماتا ہے وہ اپنے
بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیسے دلوا سکتا ہے۔اِن حالات کا شکار سب سے زیادہ
خواتین اور اقلیتی طبقہ ہے۔ اقلیتیں اور خواتین قومی ترقی میں فعال کردار
اِس لیے نہیں ادا کر پارہے ہے کہ اِس طبقے کی رسائی اعلیٰ تعلیم تک نہیں
ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ تمام نجی و سرکاری کالجز اور یونیورسٹیز میں
خواتین اور اقلیتوں کے لیے کم از کم 0% 1نشستیں مختص کی جائے۔ قار ئین
اکرام میری نفوس پذیری کے حامل پاکستا نیوں سے گزارش ہے کہ وہ میری اِس
آواز کے ساتھ اپنی آواز ملائیں۔
|