جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے !

میں نہ چاہتے ہوئے بھی آج پھر اسی موضوع پر کچھ سطریں لکھ رہاہوں جس پر پاکستان کے سبھی قلم کار اور درد دل رکھنے والےاپنے اپنے انداز میں اظہار یکجہتی کررہے ہیں لیکن سب اصل حقیقت سے واقف نہیں اور میں بھی کوئی اصل حقیقت بتانے نہیں جارہا ۔ میں تو بس اپنے ہم وطنوں کی ہاں میں ہاں ملانے کے لیے یہ دو چار لفظ لکھ رہا ہوں حالانکہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر میں حقیقت حال کہہ دوں تو ایک طوفان کھڑا ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا ذی شعور طبقہ جانتا ہے کہ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں اس کے باوجودایسے میں جب حالات انتہائی alarming ہوں جنگ کی بات کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ محض اس لیےpublicly جنگ کی بات کر دینا تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں ساتھ رہیں اور کوئی موصوف قوم کے ہیرو بن جائیں یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں۔ پچھلے دور حکومت میں ایک وزیر موصوف تھے جنہیں خواب دیکھنے کی عادت تھی چنانچہ موجودہ حکومت میں ایک وزیر نے سوچا چلو ہم بھی خواب دیکھ لیتے ہیں، بھلے اس خواب کے بتانے سے عوام الناس کی نیندیں حرام ہی کیوں نہ ہو جائیں ، ملکی معشیت پہلے ہی ہچکولے کھا رہی ہے وہ مزید دگرگوں ہی کیوں نہ ہو جائے لیکن خواب سنانے سے میڈیا اور عوام میں بھلے بھلے تو ہو جائے گی۔

ساحر لدھیانوی مجھے آج بہت یاد آئے۔ کمال کا انسان تھا، نہ جانے اسے جنگ سے اتنا ڈر کیوں لگتا تھا کہ اس موضوع پر پوری نظم ہی لکھ ڈالی۔ دیکھئے کس طرح جنگ کے آسیب اور اس کے ما بعد اثرات کا احاطہ کیاہے۔
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسل آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی
آگ اور خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
پھر کہتا ہے:
برتری کے ثبوت کی خاطر
خوں بہانا ہی کیا ضروری ہے
گھر کی تاریکیاں مٹانے کو
گھر جلانا ہی کیا ضروری ہے
جنگ کے اور بھی تو میداں ہیں
صرف میدان کشت و خوں ہی نہیں
حاصل زندگی خرد بھی ہے
حاصل زندگی جنوں ہی نہیں
آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں
فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے
ایسی جنگوں کا اہتمام کریں
جنگ وحشت سے بربریت سے
امن تہذیب و ارتقا کے لئے
جنگ مرگ آفریں سیاست سے
امن انسان کی بقا کے لیے
جنگ افلاس اور غلامی سے
امن بہتر نظام کی خاطر
جنگ بھٹکی ہوئی قیادت سے
امن بے بس عوام کی خاطر
جنگ سرمائے کے تسلط سے
امن جمہور کی خوشی کے لیے
جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف
امن پر امن زندگی کے لیے

میں جانتا ہوں وزیراعظم پاکستان ایک اچھے کپتان تھے اور وہcricket world cup بھی جیت کر لائے تھےلیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کے حال ہی میں جب وہ دورہ امریکہ سے لوٹے تو پاکستانی قوم کو یہی بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم صاحب گویا ایک اور ورلڈ کپ جیت لائے ہیں کیونکہ کشمیر کے مسئلے پرامریکی صدر نے ثالث بننے کا اعلان کر دیا ہے لیکن چند روز بعد یہ سب ایک خواب اور وہمے کی طرح رفو ہو گیا اورموجودہ حالات۔۔۔لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے وزیراعظم صاحب پٹھان ہیں اور پٹھان کی ایک صفت تو ماننا پڑے گی کہ وہ کسی کی دھمکی میں تو کم از کم نہیں آتے اورنتیجہ کچھ بھی نکلے جب کچھ کرگزرنے پہ آجائیں تو کر گزرتے ہیں، پھر بے چارے ساحر لدھیانویں جیسوں کی نظمیں لکھی لکھائی رہ جاتی ہیں اور مودی جیسے احمق کہیں دکھائی بھی نہیں پڑتے لیکن اس کے لیےقیام پاکستان کی یاد تازہ کرنا پڑتی ہے اور شاید اس سے بھی بڑے خون کے دریا کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ اللہ کرے کہ میرے وطن کو ایسے حالات کا سامنا نہ کر نا پڑے لیکن اس کے باوجود پوری قوم کو کسی بھی نازک مرحلے کے لیے تیار رہنا چاہئے اور علامہ اقبال رح کے اس پیغام کو یاد رکھنا چاہیےکہ:
ہو حلقہ ء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 173598 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More