علامہ اقبالؒ کو قوم کی پستی وذلت کا حد درجہ احساس
تھا۔انہوں نے محسوس کیا کہ قوم کا ضمیر زندگی کے شعور سے یکسر خالی ہو چکا
ہے۔مغربی اقوام کی ہیبت اس کے دل و دماغ پر اس طرح مسلط ہے کہ اس کے سوچنے
سمجھنے کی صلاحیتیں بھی مفقود ہو گئی ہیں۔علامہ اقبال ؒ قوم میں خوداری کی
روح پھونکنا چاہتے تھے اور بے بسی،بیچارگی، خودشکستی اور قنوطیت کے امراض
کے جرثومے کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہتے تھے اور وہ اس کے لیے مفرد علاج
بالمثل کی تلاش میں سرگرداں تھے،یعنی علامہ وہ طریقہ علاج اپنانا چاہتے تھے
جس میں کسی ایک مرض کی تشخیص کرکے دوا تجویز نہ کی جائے بلکہ ان اسباب وعلل
کو تلاش کیا جائے جو روح(Vital Force) کو بیمار کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
علامہ اقبال ؒ کے نزدیک روح اور خودی مترادفات ہیں۔علامہ سمجھتے ہیں کہ جب
روح کمزور ہو تی ہے تو خودی خود بخود کمزور ہو جاتی ہے۔وہ کہتے ہیں:
”خودی کے سلسلے میں تین باتیں ہیں جو ازروئے قرآن واضح طور پر ہمارے سامنے
آتی ہیں۔ اول یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ہے،دوسرے یہ کہ
باوجود اپنی خامیوں کے وہ اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے اور تیسرے یہ کہ وہ ایک
ایسی شخصیت کا مالک ہے جس کو اس نے خود اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر قبول
کیا ہے۔“
خودی کے متعلق قرآن پاک کی جس آیتِ کریمہ سے علامہ اقبال ؒ نے خودی کا
استدلال کیا ہے اس میں بھی لفظ روح ہی آیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی
”وہ سوال کرتے ہیں کہ روح کیا ہے تو کہہ دیجیے کہ روح امرِ ربی ہے۔“
تو گویاعلامہ اقبالؒ امرِربی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں میں ہمت،
شجاعت،حوصلہ، استقلال اور صداقت کے جذبات پیدا کرنا چاہتے تھے اس مقصد کے
لیے ایک تعمیری پروگرام مرتب کیا۔اس کی تربیت کے لیے ان کو کچھ لوازمات کی
ضرورت تھی لیکن اس سے قبل وہ قوم کے زوال کی وجہ جاننا چاہتے تھے؛ جس کے
باعث وہ ذلت وخواری میں مبتلا ہوئی چنانچہ قوم کے تنزل کا سب سے بڑا سبب جو
علامہ اقبالؒ کی باریک بین نگاہ نے دریافت کیا وہ یہ تھا کہ یہ قوم قوتِ
عمل سے عاری ہو گئی ہے اور چونکہ قوتِ عمل نہیں رہی اس لیے اس کی خودی بھی
مردہ ہو گئی ہے اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب کسی قوم کی
خودی مردہ ہو جاتی ہے تو اس کو اپنے وجود اور عدمِ وجود تک کا احساس نہیں
رہتا اور تنزلی اس کا مقدر بن جاتی ہے چنانچہ وہ برملا کہتے ہیں:
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
علامہ اقبال سب سے پہلے قوم کو قوتِ عمل کے احیا کی ضرورت کا احساس دلاتے
ہیں۔نظم تصویر ِ درد میں کہتے ہیں:
یہی آئینِ قدرت ہے،یہی اسلوبِ فطرت ہے
جو ہے راہِ عمل میں گامزن، محبوبِ فطرت ہے
ڈاکٹر آصف جاہ کاروانی فلسفہ خودی کی بابت لکھتے ہیں:
”اہلِ ایشیا کے پاس روحانیت ہے،دنیا ان کے ہاتھوں سے نکل گئی ہے۔اہلِ یورپ
کے پاس دنیا ہے،کائنات ان کو مسخر کرنے کے ذرائع ہیں؛ لیکن روحانیت کا دامن
انہوں نے چھوڑ دیا ہے۔ اول الذکر اپنے آپ اور اپنے حال سے محروم ہیں اور
آخرالذکر نعمتِ ایمان سے دور ہیں اور مستقبل سے مایوس، دونوں ہی اپنی عملی
اور روحانی کو تا ہیوں کے باعث حقیقت سے دور ہو گئے ہیں۔ وہ مشرق کی دنیا
سے روگرداں روحانیت کو اپنانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں؛لہذاان کے دل میں
یہ خواہش پیدا ہو تی ہے کہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے جو مشرق کی صحت مند
روحانیت اور مغرب کی ترقی پسندانہ جہانگیری وجہانبانی کو ملادے۔“
ڈاکٹر آصف جاہ کا مندرجہ بالا نظریہ ممکن ہے اپنی جگہ درست ہو؛لیکن میری
دانست کے مطابق علامہ اقبال ؒ کی خودی کا سب سے بڑا محرک یہ تھا کہ وہ قوم
کے ہر فرد کو اس کی ہستی کی اہمیت کا احساس دلانا چاہتے تھے اور خودی سے
جہدِ مسلسل کا سبق سکھانا چاہتے تھے کیونکہ جب انسان خودی کی منزل پالیتا
ہے تو پھر ساکن نہیں رہتا بلکہ وہ ترقی کی نئی نئی شاہراہوں کی تلاش میں
سرگرداں ہو جاتا ہے اور پھر اسی حرکت کی بدولت آسمانوں پر کمندیں ڈالتا ہے
اور دنیا پر چھا جاتا ہے۔علامہ یہی پیغام مسلمانوں کو دیتے ہوئے فرماتے
ہیں:
تورازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سرِ زندگانی ہے
نکل کر شام و سحر سے جا وداں ہو جا
اور یہی پیغام جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں
خودی کے زور سے دنیا پہ چھا جا
مقامِ رنگ و بو کا راز پا جا
علامہ اقبا ل ؒ سب سے پہلے قوم کو قوتِ عمل کے احیا کی ضرورت کا احساس
دلاتے ہوئے ان میں اپنی ہستی کا شعور پیدا کرنا چاہتے تھے، ایک ایسا شعور
جو اپنی ’انا‘ سے واقف ہو اور جو اپنی فطری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر
تمام کا ئنات کو مسخرکرنے کی سعی کرے۔وہ مسلمانوں کی خودی کو اس حدتک
ابھارنا چاہتے تھے کہ جہاں پہنچ کر:
ع خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے
(جاری ہے)
|