ہجرتِ مدینہ اور ریاستِ مدینہ!

گردشِ لیل ونہار کا سلسلہ جاری و ساری ہے، زندگی برف کی طرح پگھلتی جا رہی ہے اور چودہ سو اکتالیس کا نيا قمری سال ہمارے اوپر سایہ فگن ہوچکا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ تمام مسلمانوں كيلئے امن وسلامتى، سعادت اور ترقى كا سال ثابت ہو۔ ہجری سال کے پہلے مہینے کا چاند ہر سال ہجرت کی یاد لیکر طلوع ہوتا ہے۔ سن ہجری کا آغاز درحقیقت اہلِ اسلام کو اس دور کی یاد دلاتا ہے، جب ان کو مکی دور کے ابتلاء وآزمائش کی تنگ زندگی سے نجات مل کر مستحکم اور پائیدار ریاست ملی تھی، اسلام اور اہل اسلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا تھا، ان کی قوت اور شان وشوکت کا ظہور ہوا تھا، اور باطل شکست وہزیمت سے دوچار ہو کر اپنی موت آپ مرنے لگا تھا۔ یہیں سے مسلمانوں نے کھلم کھلا، پوری دنیا کو رشد وہدایت اور توحید کا عالم گیر پیغام دینا شروع کیا یہاں تک کہ دنیا کے ایک بڑے حصے تک اسلام کی شعائیں پورے آب وتاب کے ساتھ پہونچ گئیں۔

واقعہِ ہجرت کی اسی اہمیت کی وجہ سے سيدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ كرام كے مشورے سے قمری سال كى ابتداء اس بابركت واقعے سے مر بوط فرمائى۔ یہی وہ ہجرت تھی جو اسلامی ریاست کے قيام کے لئے پیش خیمہ ثابت ہوئی، اور جس کے بعد نئی تہذ يب وتمدن كى شمعيں روشن ہوئیں۔

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منصبِ رسالت پر فائز ہونے كے بعد اپنے رب كا پيغام لوگوں تک پہونچانا شروع کیا تو مشرکین مکہ كو آپ كى تبليغ زرا بھی گوارا نہ ہوئى اور وه دين كى دعوت ميں آڑ بننے لگے یہاں تک کہ كفار كے ظلم وستم كى وجہ سے فريضۂ نبوت (تبلیغ) كى ادائيگى دشوار ہوگئى تو اسى دوران رب ذوالجلال نے سورہ اسرا کی یہ آيت نازل فرمائى: اور آپ یہ دعا کیجئے کہ اے میرے رب مجھے جہاں داخل فرما اچھائی کے ساتھ داخل فرما اور جہاں سے نکال اچھائی کے ساتھ نکال اور مجھے خاص اپنے پاس سے مدد گار غلبہ عطا فرما۔ آیت نمبر 80 ) اس آيت كے نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مكہ مكرمہ سے مدینہ منورہ(اس وقت یثرب) كى طرف ہجرت فرمائى۔ آپ کے مدینے میں داخلے کے متعلق حضرت انس بن مالك فرماتے ہیں كہ نبى كريم صلی اللہ علیہ وسلم جس دن مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اس دن مدينہ كى ہر چیز روشن ہو گئی۔ ترمذی) ہجرت كے بعد آپ نے سب سے پہلے لوگوں کو امن وسلامتى كى دعوت دیتے ہوئے سلام كو عام كرنے كى تاكيد فرمائى۔ حضرت عبدالله بن سلام فرما تے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدينہ منوره تشريف لائے تو اپنے پہلے ہى خطاب ميں فرمايا: اے لوگو! سلام كو خوب پھيلاؤ" ترمذی) امن وسلامتى كى اہميت كا اندازه اس سے لگائیے كہ بارى تعالى كے صفاتى ناموں ميں سے ايک نام ٫السّلام، بھى ہے۔ امن وامان كى بدولت ہر انسان كے لئے اپنے دين پر عمل كرنا آسان ہوتا ہے، جان ومال اور عزت وآبرو محفوظ رہتى ہے، مہذب معاشره وجود ميں آتا ہے اور لوگوں كو خوشحالى اور ترقى حاصل ہوتى ہے۔

یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مكہ كے مہاجرين اور مدينہ كے انصار كے درميان مواخات قائم فرما کر ان كو آپس ميں بھائى بھائى بنا ديا۔ جس کے نتیجے میں ان کے درمیان ایسی بے نظیر محبت قائم ہوئی کہ جس کی خود اللہ تعالیٰ نے سورہ حشر آیت نمبر 9 میں تعریف فرمائی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدينہ منوره پہنچنے کے بعد مسلمانوں اور پہلے سے آباد یہودیوں كے درميان تاريخى معاہده تحر ير فرمايا جو مد ينہ منوره كے تمام باشندوں كو مل جل كر الفت ومحبت كے ساتھ زندگى گزارنے، عدل وانصاف قائم كرنے اور مظلوموں كى مدد جیسے زریں اصولوں پر مشتمل تھا، چنانچہ اس ميں مذكور تھا: کہ تمام اہل ايمان اس شخص كے خلاف اٹھ کھڑے ہونگے جو كسى دوسرے پر ظلم وزيادتى كرے گا۔ معاہده كى رو سے رنگ ونسل ،زبان وعقائد ميں اختلاف كے باوجود معاشرے كے تمام لوگوں كو امن وآزادى كے ساتھ زندگى گزارنے كا حق حاصل تھا اور سب كے دين ومذہب، جان ومال اور عزت وآبرو كى حفاظت كى ضمانت دی گئی تھى، جس کی وجہ سے مدينہ منوره امن وامان كا گہواره بن گيا اور مسلم اور غیر مسلم امن وسلامتى اور الفت ومحبت كے ساتھ رہنے لگے۔ تاہم یہود معاہدے کی پاسداری زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکے اور اپنے قلبی بغض و عناد کی وجہ سے معاہدے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے، جس کی وجہ سے انہیں بعد میں مدینے سے جلاوطن کردیا گیا۔ (بدقسمتی سے ہمارے وزیراعظم صاحب جب ریاستِ مدینہ کی بات کرتے ہیں تو جلاوطنی کی بات کو گول کر جاتے ہیں، انہیں یا تو اس کا علم نہیں اور یا پھر وہ انہی یہودیوں کی روش ”میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو“ پر عمل پیرا ہیں۔ آنجناب کی خدمتِ اقدس میں عرض ہے کہ جب پکڑ دھکڑ سے فرصت ملے تو سورہ حشر کا مطالعہ ضرور فرمائیں، تاکہ آپ کو ریاستِ مدینہ قائم کرنے کے بعد ملک و ملت کے خلاف سازشیوں کی سرکوبی کرنے کا ڈھنگ آجائے۔)

ہجرت کے بعد نبى کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں كى تعليم وتربيت اور ان كى حفاظت وسلامتى پر توجہ مبذول فرمانے کے ساتھ ساتھ مدينہ منوره كى تعمير وترقى پر بھى خصوصى توجہ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور اس کے اطراف کا جائزہ لینے کے بعد سب سے پہلے مسجدِ قباء كى تعمير فرمائى جس كے بارے ميں الله تعالى سورہ توبہ کی آیت نمبر 108 نازل فرمائی۔ مسجدِ قباء كے بعد آپ نے اپنے دست مبارك سے مسجد نبوى كا سنگ بنياد ركھا، بنفس نفيس اس كى تعمير میں شرکت کی اور صحابۂ كرام كے ساتھ مِل كر اس كى تعمير مكمل فرمائى۔ اس كے بعد مدينہ منوره كى تعمير كا پلان بنایا، گھروں كى تعمير كا نقشہ مرتب كيا، حسب ضرورت راستے اور گلياں نكالیں اور یوں متفرق ٹکڑوں پر مشتمل ٫یثرب، کو ایک خوبصورت اور منظم ٫مدینہ، میں تبدیل کردیا۔ اسى طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحوليات پر بھی خصوصى توجہ دی، آپ كى خواہش تھى كہ مدينہ كى فضا اور اس كا ماحول صاف ستھرا رہے اسى لئے لوگوں كو گندگى اور تكليف دِه چيزوں كو راستے سے دور كرنے كى ترغيب دى اور گھرو ں كى صفائى پر توجہ دينے كى تاكيد فرمائى۔ وہاں کی پیداوار میں اضافہ اور تجارت میں ترقى كى فكر فرمائى، معیشت کى مضبوطى اور خوشحالى کے اسباب پر توجہ دى، اہل مدينہ كو فكر وعمل اور محنت ومشقت پر آماده كيا، زمينوں ميں كاشت كر كے اس سے فائده اٹھانے پر زور ديا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت کی بیوی کو اپنے باغ ميں محنت كرتے ديكھا تو ان كى ہمت افزائى كرتے ہوئے فرمايا: جو بھی مسلمان کوئی پھل دار درخت لگاتا ہے یا کوئی فصل اُگا تا ہے پھر کوئی انسان یا کوئی چوپایہ اس میں سے کچھ کھاتا ہے یا کوئی بھی جاندار اس سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کی وجہ سے اس شخص کو صد قہ کا اجر ملتا ہے۔ صحیح مسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدينہ والوں كى روزى اور كمائى ميں خير وبركت كى دعاء فرمائی، جس کی برکت سے مدينہ منوره ترقى اور خوش حالى کا گھر اور تجارتى مركز بن گیا۔ مشرق ومغرب سے وہاں تجارتى قافلے پہونچنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں كے باشندے الله تعالى کے فضل وكرم سے خير وبركت سے مالامال ہو گئے۔

ہجرت نبوی سے ہمیں دین برحق كى حفاظت كيلئے ہر طرح كى قربانى پيش کرنے کا واضح پیغام مل رہا ہے، اس میں تمام گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دینے کی ترغیب ہے، وسعت ظرفی اور رواداری کا سبق ہے، رنگ ونسل، زبان وعقائد ميں اختلاف كے باوجود الفت و محبت سے زندگى گزارنے کا درس اور انسانى قدروں کے لحاظ اور ہر ایک كى بھلائی اور خیر خواہی کی تعلیم ہے۔

 

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 40686 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.