انسان نے جب آبادی کی صورت اکٹھے رہنا شروع کیا تو وہ
اپنے گھر،رہنے کی جگہ کے سامنے سے بچی ہوئی خوراک کے ذرات وغیرہ پھینک دیتے
تھے،اس وجہ سے وہ کثرت سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے لگے۔آج بھی دنیا
کے کئی ملکوں کو اقوام متحدہ کے متعلقہ ذیلی ادارے پینے کے پانی اور رفع
حاجت کے لئے محفوظ طریقے اختیار کئے جانے کے لئے بڑی رقوم خرچ کرتے ہیں۔
قریبا سوا ارب پر مشتمل دنیا کی بڑی آبادی اور ایک بڑی اقصادی طاقت انڈیا
کی غالب آبادی کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرتی ہے۔انڈیا میں حکومت نے لوگوں کو
راغب کرنے کی مہم چلا رکھی ہے کہ لوگ گھر میں ٹائلٹ بنائیں۔
اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر نے ٹوئٹر پہ شہریوں کو ایک '' میجک ٹرک '' آزمانے
کا چیلنج دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کوڑا کرکٹ سڑک کنارے پھینک دیا جائے ،
پھر تلاش کریں،وہ کوڑا غائب ہو گیا ہو گا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ
کتنے گھنٹوں میں کوڑا وہاں سے اٹھالیا جائے گا۔ صفائی رکھنے جانے کے سخت
قوانین کے نفاذ کے ساتھ اس حوالے سے مقررہ جگہ کے علاوہ کوڑا پھنکنے کے
خلاف یہ تادیبی کاروائی موثر ہو سکتی ہے کہ ایسا کرنے والے کو بوڑھوں،بچوں
کے کسی کفالت مرکز میں کچھ عرصہ رہ کر صفائی کا کام کرنے کی سزا دی جائے۔
دارلحکومت اسلام آباد میں پلاسٹک کے لفافوں کے استعمال پر پابندی کے بعد
راولپنڈی کے کنٹونمنٹ علاقے میں بھی پلاسٹک لفافے کے استعمال کے خلاف مہم
شروع کی گئی ہے۔ سرکاری اعلانات کے مطابق پلاسٹک کے لفافے استعمال کرنے کے
علاوہ اس کے بنانے پر بھی پابندی عائید کی گئی ہے لیکن اب تک راولپنڈی کے
مختلف گنجان آباد علاقوں کی گلیوں کے متعدد گھروں میں قائم پلاسٹک لفافے
بنانے کے خلاف کوئی مہم دیکھنے میں نہیں آئی ۔ امید کی جاتی ہے کہ مخصوص
علاقوں کے علاوہ ملک بھر سے پلاسٹک لفافوں کے استعمال کے خاتمے پر بھی توجہ
دی جائے گی۔ اس سے پہلے کئی بار ایسی پابندی لگائی گئی لیکن اس پر عملدرآمد
نہیں کیا گیا۔
صفائی کہنے کو ایک چھوٹا سا لفظ ہے لیکن مختلف اقسام کی ان گنت اشیاء کے
استعمال والی دنیا میں صفائی گھر،محلے ،علاقے،قصبے،شہر اور ملک کا ہی نہیں
بلکہ ایک سنگین عالمی مسئلہ بھی بن چکا ہے۔ماحولیاتی تحفظ کی طرح صفائی بھی
آج کی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔سمندروں ،دریائوں ،ندی نالوں،پانی
کے ذخیروں میں پلاسٹک و دیگر آلودگی، شہروں، قصبوں، دیہاتوں میں گندگی
،کوڑا کرکٹ اٹھانے کا باقاعدہ نظام نہ ہونا، لوگوں میں صفائی کا رجحان اور
شعور نہ ہونا ، نت نئی اشیاء کے عام استعمال سے کوڑے کرکٹ میں شامل اشیاء
کی تعداد اور مقدار میں اضافہ ،جیسے الیکٹرانک سکریپ۔اس کے علاوہ
فیکٹریوں،کارخانوں سے خارج ہونے والا کیمکل ملا آلودہ پانی بھی انسانوں اور
ماحول کے لئے گندگی سمیت کئی سنگین نقصانات کا موجب ہے۔
آج کے جدید دور میں صفائی انسان کے معیار کے تعین کا ایک پیمانہ بھی بن چکا
ہے۔صفائی کرنے سے صفائی نہیں ہوتی بلکہ صفائی رکھنے سے صفائی ممکن ہو پاتی
ہے۔ان دنوں کراچی میں سڑکوں کے کنارے جا بجا کوڑے کے لگے بڑے ڈھیروں کا
مسئلہ میڈیا پہ جاری ہے۔ اسی طرح دیگر شہروں ،قصبوں میں بھی جب کوڑے کے
ڈھیر ہر جگہ اور بڑی مقدار میں جمع ہو کرعوام کے لئے بڑا مسئلہ بنتے ہیں تب
ہی مطالبہ کیا جاتا ہے کہ خصوصی آپریشن کر کے کوڑا اٹھایا جائے۔ کوڑے کے
ڈھیر صاف بھی کر دیئے جائیں کیونکہ کچھ ہی عرصے بعد پھر ویسی ہی صورتحال
درپیش ہو جاتی ہے۔ یوں صفائی کا اچھا نظام قائم کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی
تا کہ کہیں بھی کوڑے کے ڈھیر نہ لگیں۔
شہری کیا ہمارے ملک میں انتظامی ادارے،محکمے بھی قصبوں،شہروں سے باقاعدہ
کوڑا ٹھانے کا اقاعدہ نظام قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ یوں معلوم
ہوتا ہے کہ ملک کو عارضی اہداف،عارضی بنیادوں پر چلانے کی طرح صفائی کا
معاملہ بھی عارضی بنیادوں پر ہی نمٹایا جاتا ہے۔ جن شہروں میں کسی حد تک
کوڑا کرکٹ اٹھایا جاتا ہے،وہاں بھی کوڑے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی محفوظ،
اطمینان بخش طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا۔ شہر کے اندر ہی یا شہر کے بیرونی
راستے کے ساتھ ہی شہر بھر سے جمع کئے جانے والے کوڑے کے ڈھیر لگا دیئے جاتے
ہیں۔
عوام میں صفائی سے متعلق معلومات نہ ہونے،محدود ہونے کی وجہ سے صفائی کے
حوالے سے شہری بھی اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتے۔ ہمارے معاشرے میں سکول
،کالج کی سطح پہ بھی عمومی صفائی کو بطور مضمون اپنانا ضروری ہے ۔اس کے
علاوہ گھروں، محلوں میں صفائی رکھنے کے طریقے بچوں،نوجوانوں ،خواتین کو
سکھانے کے لئے خصوصی ذرائع بروئے کار لانے کی ضرور ت ہے۔گھروں اور معاشرے
میں صفائی کو نمایاں رکھنے کے لئے شہریوں میں عمومی تربیت کا مستقل نظام
ناگزیر ہے۔
اطہر مسعود وانی
03335176429
|