محکمہ پولیس 1861 میں بنایا گیا ، جو برطانوی حکومت کے
زیر انتظام تھا۔ اس کے قوانین دوہری پالیسیوں پر منحصر تھے ، یعنی غریبوں
اور سچ بولنے کیلئے قانون الگ، اشراف اور پراپیگنڈا بازوں کیلئے الگ۔اگر ہم
برطانوی دورحکومتی دورانیے کا برصغیر میں مبہم سا جائزہ لیں تو ہمیں صاف
نظر آتا ہے کہ نہ صرف رشوت خوری بلکہ چاپلوسی اور غنڈہ گردی بھی اس محکمہ
کو وراثت میں ملی ہے۔اس طرح سے ریاست کے اندر چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کی
گئیں جس سے برطانوی حکومت باآسانی تما علاقوں کو کنٹرول کرتی اور بغاوت
کرنے والوں تک اس کی رسائی باآسانی رہتی۔ ہر تھانے کا ایس ایچ او اس علاقے
کا مالک ہوتا تھا اور قوانین و انسانی حقوق سے بالا تر جو وہ چاہتا وہی
کرتا تھا۔حالات بے قابو ہوتے گئے ، ہر آنے والا دن برطانوی حکومت کے ہاتھوں
سے جاتا رہا نتیجتاََ بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم ہو گئی ، لیکن اگر کچھ نہ
بدلا تو محکمہ پولیس۔یہ ایک سب سے بڑا ناسور ہمیں وراثت میں ملا ، جسے شاید
کہ ٹھیک کیا جا سکتا تھا مگر سب نے اپنے مفاد کو دیکھتے ہوئے اس کیلئے کوئی
اصلاحات پیش نہیں کیں۔ یوں کہیں کہ برطانوی تھنک ٹینکس کے بعد برصغیر نے
کوئی تھنک ٹینک نہیں جنما تو بے جا نہ ہوگا۔ پاکستان کے مفاد اور حفاظت
کیلئے سب سے ضروری اور اہم اگر کوئی اقدام ہونا چاہئے تھا تو وہ محکمہ
پولیس کو قوانین تابع کرنے کا تھا۔کیونکہ جہاں ملکی سالمیت کو خطرہ سرحد پر
ہوتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر خانہ جنگی خطرہ ہے ۔اگر ادارے اس طرح استحصال
کرتے رہیں اور عوام کیلئے پنپنا محال ہو جائے تو ملک اندرونی سطح پر
کھوکھلا ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ اور دیمک صورت جب جڑھیں اور اندرونی نظام
ختم ہو جائے تو باہر کا حصار بے معنی اور قابل تسخیر ہوجاتا ہے۔پولیس کے
غلط کردار اور بے لگام ہونے کی وجہ سے ہی پی ٹی ایم وجود میں آئی اور ملکی
سلامتی کیلئے خطرہ بنی ہوئی ہے۔پی ٹی ایم نے نقیب اﷲ محسود کے قتل کو کیش
کرایا جسے پولیس کے ایک ایس ایس پی راؤ انوار نے قتل کیا اور اس کے بعد ایک
منظم طریقے سے ٹویٹر ٹرینڈ چلا اور منظم طریقے سے میڈیا پر مہم چلی
نتیجتاََ پی ٹی ایم کا بت کھڑا ہوا۔جس کے نشانے پر ہونا تو معاشرے کی کالی
بھیڑوں کو چاہئے تھا مگر لانچ کرنے والوں نے تو پی ٹی ایم کو لانچ ہی ملکی
سلامتی کے اداروں پر بھونکنے کیلئے کیا تھا۔ پولیس گردی آج کی بات نہیں ہے
اور نہ ہی یہ کوئی پہلا پولیس تشدد سے ہونے والا قتل ہے۔ وہ کراچی میں ہو،
سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو کہ سانحہ ساہیوال ہو یا حالیہ پولیس کی حراست میں صلاح
الدین کا مارورائے عدالت قتل ہو پولیس گردی کی مثال بے مثال ہے۔صلاح الدین
گوجرانوالہ کا رہائشی اور ایک ریٹائرڈ ٹیچر کا فرزند تھا۔ ان کے والد اور
چچا کے مطابق وہ ایک ذہنی مریض تھا اور یونہی ادھر ادھر گھومتا رہتا تھا،
جس کی دلیل ہمیں اس وائرل ویڈیو میں بھی ملتی ہے جس میں جب ایس ایچ او صلاح
الدین سے پوچھ رہا تھا کہ تمہیں یہ ٹرین والااشارہ کس نے سکھایا تو آگے سے
اس نے بڑے معصومانہ انداز میں پوچھا کہ’’صاحب ایک بات پوچھوں؟ مارو گے تو
نہیں نا؟ ایس ایچ او نے کہا نہیں ماریں گے تو اس نے کہا آپ کو مارنا کس نے
سکھایا ہے‘‘۔ایک ذہنی مریض کے منہ سے نکلنے والی یہ بات اشارہ ہی تو تھا کہ
وہ ا ب اس دنیا میں نہیں رہے گا، پولیس والے اسے نہیں چھوڑیں گے۔’’یہی ذہنی
مریض محرم الحرام کے مقدس مہینے میں مقدس شہادتوں سے کربلا کی مٹی میں شامل
ہونے والے مقدس خون کا واسطہ دیتا رہا، مگر تھانیدار نے یہ کہہ کر ٹال
دیاکہ تم تو اہلحدیث ہو‘‘۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتے ہیں کہ جب سوشل میڈیا پر
چلنے والی سی سی ٹی وی ویڈیوز میں اس پر ثابت تھا کہ اس نے اے ٹی ایم نکالا
ہے تو اس کی جسمانی تفتیش کیوں کی گئی ؟ جس لکھت کا ذکر اس کے چچا اور والد
محترم نے کیا وہ صلاح الدین کے بازو پر پولیس کو مارتے ہوئے نظر کیوں نہ
آئی؟سی سی ٹی وی کی موجودگی میں سمجھ بالاتر ہے کہ اور کیا اعتراف جرم
کروانا تھا ؟ کیا کوئی قتل کا اعتراف جرم ہونا تھا جو اس پر اس قدر غیر
انسانی تشدد کیا گیا؟یوں تو تھانے والے مساجد کے سپیکروں پر پابندیاں
لگواتے ہیں لیکن خود ہی تھانے میں اہلحدیث ، سنی، شیعہ کا تعصب کیوں
پھیلاتے ہیں؟ اس سے ایک چیز ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے محکمہ پولیس میں انسانیت
کا وجود دور دور تک نہیں، حالانکہ مولانا طارق جمیل جیسے دیگر دانشوروں کو
بلا کر محکمہ پولیس کے افسران کو انسانیت کے بارے کئی بار لیکچر بھی دلوائے
جا چکے ہیں اس کے باوجود محکمہ پولیس کا عوام کے ساتھ ایسا رویہ گویا ان
افسران کو لوگوں پر تشدد کر کے لوگوں کی آہ و گریہ سننے سے مزہ آتا ہو۔
مجھے تو محکمہ پولیس کے اہلکاروں سے بڑھ کر کوئی ذہنی مریض نظر نہیں آتا۔
ایسے اقدامات سے ملک میں اندرونی سطح پر اداروں سے اعتماد اٹھ جاتا ہے اور
لوگ قانون ہاتھ میں لینا شروع کر دیتے ہیں۔میری رائے میں سب سے پہلے تو
محکمہ کو آزاد کیا جائے، اس میں کوئی سیاسی یا جاگیردارانہ مداخلت نہ ہو۔
بھرتیاں خالصتاََ میرٹ پر ہوں، سیاسی بھرتیاں نہ ہوں جیسے ماضی میں ہوتا
رہا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ٹرانسفر اور تبادلے نہ ہوں۔ پورے پاکستان کے
محکمہ پولیس کو صوبائیت سے نکال کر وفاقی وزیر داخلہ کے زیر انتظام کیا
جائے ۔ بے شک وزارتیں رہیں لیکن وہ وفاقی وزیر داخلہ کو رپورٹ کریں۔نجی
ٹارچر سیل رکھنے والوں اور غیر انسانی تشدد میں ملوث اہلکاروں کو فوری
ملازمت سے برخواست کر دیا جائے۔ ٹارچر کو بالکل ختم کیا جائے، دنیا کے ساتھ
مل کر تفتیش کے جدید اور ٹیکنیکل طریقہ کار اختیار کئے جائیں۔انیسویں صدی
میں بنائے گئے قانون اکیسویں صدی میں کس طرح کارگر ہو سکتے ہیں، ان کو بدل
کر نئی محکمہ جاتی اصطلاحات و اصلاحات لائی جائیں۔ پولیس کے خلاف جسارت
کرنے سے ذہنی طور پر عدم تحفظ کا شکار ہوں، آئندہ اس پولیس گردی سے بچا تو
کالم ضرور لکھوں گا۔
|