ایک مرتبہ بابا گرونانک نے اپنے مرید سے کہا کہ امام
حسینؓ کا غم منایا کرو مرید نے کہا وہ تو مسلمانوں کا لیڈر ہے بابا گرو
نانک نے کہا کہ میں تمہارے گرو ہونے کی حیثیت سے حکم دیتا ہوں کہ گھر جاکر
اپنی بہن سے شادی کرو مرید نے کہا کہ میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دیتا۔بابا
گرونانک مسکرائے اور کہا ارے نادان اسی ضمیر کو تو حسینؓ کہتے ہے کیونکہ
امام حسینؓ صرف مسلمانوں کا نہیں ضمیر والوں کے امام ہے۔ اگر انسان کا ضمیر
بیدار ہو تو دل و دماغ روشن رہتے ہیں عرب کی کچھ روایات ہیں ان کے بزرگ
تلقین کرتے تھے کہ آپ کا بیٹا جب اسکول جا رہا ہو اور آپ اسے رخصت کر رہی
ہوں تو اس کے ٹفن میں کھانے کی چیز دو عدد رکھیں اور اس سے کہیں : ایک
تمہارے لئے ہے اور دوسرا تمہارے سب سے محبوب دوست کے لئے اس طرح آپ کا بچہ
محبت اور احسان کا سبق سیکھے گا بچے کے بیگ میں قلم ایک سے زائد رکھیں اور
اس سے کہیں : اگر کوئی اسٹوڈنٹ اپنا قلم بھول جائے تو آپ مدد کے طور پر یہ
قلم اس کو دے دینا۔ اس طرح آپ کا بچہ اپنی ذمہ داریاں اور دوسروں کی مدد
کرنے کا جذبہ سیکھے گاجب بچہ گھر واپس آئے تو اسے بتائیں کہ اس کے آنے سے
گھر کی رونق بڑھ جاتی ہے اس طرح اسے اپنی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا.جب وہ
گھر لوٹے تو اس سے پوچھیں : آج آپ نے سب سے اچھا کام کیا کیا ہے ؟ اس طرح
اسے اچھے برے کی تمیز ہوگی اور اگلی بار وہ آپ کے بغیر پوچھے آپ کو بتائے
گا.تربیت ایک سادہ اور آسان سا فن ہے، زبان سے لمبی چوڑی تقریر کرنے سے
تربیت نہیں ہوسکتی۔ یقینا سچائی براہ ِ راست تو دل و دماغ پر اثراندازہوتی
ہے میں نے ایک واقعہ پڑھا-
ایک پاکستانی جاپان گیا اس نے اپنے دوست کے گھر جانے کے لیے ٹیکسی ڈرائیور
کو روکا ڈرائیور نے پاکستانی کو جھک کر سلام کیا سفر کے دوران راستے میں
ڈرائیور نے ٹیکسی کا میٹر بند کردیا دو تین کلومیٹر کے بعد پھر ٹیکسی کا
میٹر چلا دیا پاکستانی بہت پریشان ہوا چونکہ جاپانی زبان نہیں جانتا تھا اس
لیے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھ نہ سکا جب اپنے دوست کے گھر پہنچا تو اس کو کہا
کہ وہ ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھے کہ اس نے راستے میں ٹیکسی کا میٹر بند کیوں
کیا ٹیکسی ڈرائیور نے بتایا کہ وہ غلطی سے ایک موڑ مس کر گیا تھا اور اسے
تین کلومیٹر کا چکر کاٹ کر اسی جگہ واپس آنا پڑاا لہذااس نے میٹر بند کر
دیا تاکہ اس کی غلطی کا بوجھ مسافر پر نہ پڑے دیانت کی یہ مثال ناقابل یقین
لگتی ہے مگر یہ سچ ہے- ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے امانت اور
دیانت کی عظیم الشان مثال پیش کی تھی جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ
سے پہلے ان کفار کو امانتیں واپس کیں جنہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جبر
و تشدد کا نشانہ بنایا تھا یہ ہوتاہے کردار جس سے ہرکوئی متاثر ہوئے بغیر
نہیں رہ سکتا ایسے ہی کردار سے ایک بہترین معاشرے کی تشکیل ممکن ہے چلتے
چلتے ایک اور واقعہ بھی سن لیجئے پھرفیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی کہ اخلاقی
اعتبار سے ہم ذلت کی کتنی بڑی کھائی میں گر چکے ہیں اور ہمیں اس کا مطلق
احساس تک نہیں-
ایک پاکستانی بزنس مین نے بتایا کہ ناروے میں اسکے ملازم نے 50 ڈالر کا چیک
چوری کر لیا وہ پولیس سٹیشن پہنچا ایک افسر نے اس کا بیان ریکارڈ کیا اور
اسے کہا ایک ہفتے بعد آ نے کا کہہ دیا تاکہ تفتیش مکمل کر لی جائے پاکستانی
ایک ہفتے کے بعد دوبارہ پولیس سٹیشن پہنچا آفیسر نے بتایا کہ ملازم نے چیک
کیش کرایا ہے مگر اس نے چوری نہیں کی آفیسر نے وضاحت کی کہ ملازم کی تنخواہ
اس کا والد لے لیتا تھا ملازم کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا ناروے کے
قانون کے مطابق اگر کوئی شخص بھوک کی وجہ سے چوری کرے تو اسے چوری نھیں
انسانی ضرورت سمجھا جاتا ہے آفیسر نے 50 ڈالر کا چیک حکومت کی جانب سے
پاکستانی بزنس مین کودیدیا یہ ہوتی ہے ریاست اور اس کی ذمہ داریاں۔پاکستان
میں تو روٹی کھانے کے جرم میں مالک نوکرکو مار مار کر لہولہان کردیتاہے اور
اسے کچھ ترس آتاہے نہ شرم۔اب ایسے معاشرے کا کیا کیا جائے یہ سوچنا آپ کا
کام ہے۔
7 ذلت کی گہرائی
|