بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اسلام نے جہاں ایک طرف اولاد کو اپنے والدین کی اطاعت و فرماں برداری کا
پابند بنایا ہے تو وہیں دوسری طرف والدین کے ذمے بھی اولاد کے کچھ حقوق
مقرر کیے ہیں۔تاکہ والدین اور اولاد کی باہمی معاشرتی و اجتماعی زندگی میں
توازن کا عنصر برقرار رہے اور انسانی معاشرہ اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ
ٹھیک طرح سے تشکیل پائے۔ آج ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر اسی لئے بگاڑ ،
فساد اور عدم توازن کا شکار ہے کہ اُس میں والدین اور اولاد کے باہمی حقوق
میں اسلامی تعلیمات کا عنصر مفقود ہے۔ والدین اولاد سے نالاں ہیں اور اولاد
والدین سے شاکی ہے۔ والدین شروع میں اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی اولاد کی
ٹھیک طرح سے تربیت نہیں کرپاتے، جس کے نتیجے میں بڑے ہوکر اولاد ماں باپ کو
آنکھیں دکھاتی اور اُن کے گلے پڑتی ہے، جس کی وجہ سے بڑھاپے میں اپنی
نوجوان اولاد سے طویل عمر سے وابستہ والدین کی امیدیں اپنا دَم توڑنے لگتی
ہیں اور والدین کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے سب سے پہلے تو والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ بچپن میں اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں، اُن کو اعلیٰ دینی و دُنیوی
تعلیم دلوائیں، اُن کو اخلاق و آداب سکھائیں اور اُن کو دین و ملت کی خدمت
کے لئے تیار فرمائیں ، تاکہ وہ آنے والے وقت میں معاشرے کی فلاح و بہبود
اور اس کی صلاح و فلاح میں اپنا کردار ادا کریں اور بڑھاپے میں اپنے والدین
کے لئے سہارا بن سکیں۔ اسی طرح نوجوان اولاد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے
کہ ان کے والدین نے بچپن میں جو اعلیٰ تعلیم و تربیت ، اور اچھے اخلاق و
آداب سے آراستہ کرکے انسانی معاشرے کی تعمیر و ترقی اور بڑھاپے میں اپنا
سہارا بننے کے لئے محنت کی ہے اس میں وہ اچھا کردار ادا رکے اپنے والدین
اور اساتذہ کی محنت کا عملی ثبوت پیش کریں۔
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا کہ ساتویں روز بچے کا عقیقہ کرنا چاہیے اور اس کا نام رکھنا
چاہیے اور اس کے سر کے بال مونڈھنے چاہئیں۔ پھر جب بچہ سات سال کا ہوجائے
تو اسے ادب و تہذیب سکھلانی چاہیے۔اسے نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہیے۔ جب نو
سال کا ہوجائے تو اس کی چار پائی الگ کردینی چاہیے۔جب دس سال کا ہوجائے تو
اسے نماز نہ پڑھنے پر مارنا چاہیے۔ اور ایک روایت میں جب تیرہ سال کا
ہوجائے تو اسے نماز نہ پڑھنے پر مارنا چاہیے۔ جب سولہ سال کا ہوجائے تو اس
کے باپ کو چاہیے کہ اس کا نکاح کردے۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑے اور کہے کہ میں
نے تجھے ادب سکھایا، تیری تعلیم و تربیت کی، اور اب تیرا نکاح کیا، اب میں
دُنیا میں تیرے فتنے سے اور آخرت میں تیرے عذاب سے پناہ مانگتا ہوں۔رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باپ پر اولاد کا حق ہے کہ وہ ان کو تہذیب
سکھائے۔ایک جگہ دعاء دیتے ہوئے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے اس باپ پرجس
نے اپنی اولاد کی نیک کاموں میں مدد کی۔ایک جگہ فرمایا کہ ایک شخص کا اپنی
اولاد کو ادب سکھانا ساڑھے تین سیر غلہ یا کھجوریں وغیرہ صدقہ کرنے سے بہتر
ہے۔ ایک جگہ فرمایاکہ ایک باپ کا اپنے بیٹے پر ادب سکھانے سے بڑھ کر اور
کوئی احسان نہیں ہے۔ (جامع ترمذی)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم منبر پر لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے کہ
اچانک حضرت حسن رضی اﷲ عنہ گر پڑے آپ علیہ السلام فوراً منبر سے نیچے تشریف
لائے اور انہیں اٹھالیا اور فرمایا کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش
ہے۔حضرت عبد اﷲ بن شداد رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور سجدے میں گئے ہوئے تھے کہ حضرت
حسین رضی اﷲ عنہ کھیلتے ہوئے آگئے اور آپ علیہ السلام کی گردن مبارک پر
سوار ہوگئے، آپ علیہ السلام بہت دیر تک سجدے میں پڑے رہے، یہاں تک کہ لوگوں
نے محسوس کیا کہ کوئی دوسرا امر تو واقع نہیں ہوگیا ، پھر جب آپ علیہ
السلام نے نماز پوری فرمائی تو لوگوں نے دریافت کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلم! آج آپ نے بہت لمبا سجد کیا، ہم نے تو خیال کیا کہ کوئی دوسرا
امر واقع ہوگیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا بیٹا (یعنی میرا
نواساحسین) مجھ پر سوار ہوگیا تھا، میں نے پسند نہیں کیا کہ اس کو اپنا
مطلب پورا کرنے سے پہلے اتار دوں۔(مکاشفۃ القلوب)
اس کے برعکس اولاد کے ذمے بھی اپنے والدین کے کچھ حقوق ہیں ان کو پورا کرنے
کی بھی قرآن و حدیث میں بڑی تاکید آئی ہے۔چنانچہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے
عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ
پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا نماز کو اس کے وقت پر ادا
کرنا۔ صحابی نے عرض کیا اس کے بعد؟ فرمایا والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش
آنا۔ صحابی نے عرض کیا اس کے بعد؟ فرمایا اﷲ کے راستے میں جہاد کرنا۔
(بخاری و مسلم) ایکمرتبہ ایک شخص نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جہاد میں
جانے کی اجازت طلب کی تو آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ تیرے والدین زندہ ہیں؟
اس نے عرض کیا جی ہاں زندہ ہیں! آپ علیہ السلام نے فرمایا ان ہی کی خدمت
کرکے جہاد کا ثواب کمایئے! (بخاری و مسلم)ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے
فرمایا کہ وہ دونوں تیری جنت اور جہنم ہیں (یعنی ان کے ساتھ حسن سلوک سے
جنت ملتی ہے اور بد سلوکی سے جہنم میں جانا پڑے گا)(سنن ابن ماجہ) ایک شخص
نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں ہجرت کی بیعت کرنے آیا ہوں۔ جب
میں چلا تھا تو ماں باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا تھا۔ حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فوراً واپس جاؤ اور انہیں جس طرح رلایا ہے اس طرح
انہیں ہنساؤ! (سنن ابوداؤد) ایک مرتبہ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اﷲ صؒی
اﷲ علیہ وسلم میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں مجھے اجازت دیجئے! آپ علیہ
السلام نے پوچھا تمہاری ماں زندہ ہے؟ عرض کیا جی ہاں زندہ ہے! فرمایا اسی
کے پاس رہیے کہ جنت ماں کے قدموں کے نزدیک ہے۔ (سنن نسائی) اور ایک روایت
میں ہے کہ ماں باپ کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔ (معجم طبرانی)
قاضی حیوہ بن شریحؒ مشہور مستجاب الدعواب بزرگ گزرے ہیں ۔ یہ لوگوں کے
فیصلوں کے بیٹھے ہوتے تھے۔ ان کی والدہ آکر کہتی تھیں : حیوہ! مرغی کو جَو
ڈال دیجئے! آپؒ فوراً اُٹھ کھڑے ہوتے اور اپنی ماں کا حکم بجا لاتے۔(العقد
الفرید: جلد اوّل ص ۱۵۶)
حافظ ابونعیمؒ وغیرہ نے حضرت طاؤسؒ سے نقل کیا ہے کہ ایک آدمی بیمار ہوگیا،
اس کے ہاں اس کے چارلڑکے تھے،ان میں سے ایک لڑکے نے اپنے بھائیوں سے کہاکہ
یاتم میں سے کوئی والد کی خدمت کرے اور حق وراثت سے محروم ہوجائے، یاپھر یہ
کام میں کرلوں اور حق وراثت چھوڑدوں۔ بھائیوں نے کہا کہ تو ہی والد کا علاج
معالجہ کر اور حق وراثت سے محروم ہوجا۔ چنانچہ اس نے والد کی خدمت اور اس
کا علاج معالجہ کرنا شروع کردیا ،مگر وہ جانبر نہ ہوسکے اور اسی بیماری کی
حالت میں ان کا انتقال ہوگیا۔ والد کے انتقال کے بعد تینوں بیٹے وراثت کے
حق دار بن گئے اور یہ محروم رہ گیا۔ کچھ دنوں بعد اس لڑکے کو والد خواب میں
آئے اور کہا:’’فلاں جگہ جاؤاور وہاں سے سو دینار لے لو‘‘لڑکے نے پوچھا:
’’کیا ان میں برکت ہوگی؟‘‘والد نے کہا : ’’نہیں!‘‘جب صبح ہوئی تو لڑکے نے
اپنا خواب بیوی کے سامنے بیان کیا،بیوی نے ان کے لینے پر اصرار کیااور کہا
کہ کم از کم اس سے اتنا تو فائدہ تو ہوگا کہ کپڑے اور کھانے پینے کا کچھ
سامان مہیا ہو جائے گا،مگر لڑکے نے بیوی کی ایک نہ سنی۔ جب اگلی رات آئی تو
پھر یہی خواب نظر آیا،والد نے کہا:’’فلاں جگہ جاؤ !اور وہاں دس دینار رکھے
ہوئے ہیں لے لو‘‘لڑکے نے پھر وہی سوال دہرایا کہ ان میں کچھ برکت بھی ہوگی
یا نہیں؟والد نے اس بار بھی نفی میں جواب دیااور کہا کہ کچھ بھی برکت نہیں
ہوگی۔ صبح لڑکے نے پھر یہ خواب بیوی سے بیا ن کیااور بیوی نے پھر یہی مشورہ
دیا کہ لے آؤ کچھ تو سہارا مل جائے گا،مگر اس بار بھی لڑکے نے بیوی کی بات
نہ مانی ۔ تیسری رات پھر یہی خواب لڑکے نے دیکھا کہ والد کہہ رہیں ہیں کہ
فلاں جگہ جاؤ!اور وہاں صرف ایک دینار رکھا ہوا ہے لے لو،لڑکے نے پھر وہی
سوال دہرایا کہ اس میں کچھ برکت بھی ہوگی یا نہیں ؟والد نے کہا: ہاں! اس
میں برکت ہوگی ، جب صبح ہوئی تو لڑکا اس مقررہ جگہ پرپہنچ گیا اور وہاں سے
وہ ایک دینار اٹھالایا ،دینار لے کر جب وہ بازار کی طرف گیا تواس کو ایک
شخص ملاجس کے پاس دو مچھلیاں تھیں اور وہ انہیں بیچنا چاہتا تھا، لڑکے نے
ان کی قیمت معلوم کی تو اس نے ان دونوں کی قیمت ایک دینار بتلائی،لڑکے نے
ایک دینار میں وہ دونوں مچھلیاں خرید لیں اور گھر لے آیا۔ جب ان کو صاف
کرنے بیٹھااور ان کا پیٹ چاک کیا تو ان دونوں مچھلیوں کے پیٹ سے ایک ایک
قیمتی موتی برآمد ہوا،اتفاقاً اس وقت بادشاہ کو ایک قیمتی موتی کی سخت
ضرورت پیش آگئی، جب تلاش کیا گیا تو اس لڑکے کے علاوہ ایسا قیمتی موتی کہیں
سے بھی برآمد نہ ہوسکا،بادشاہ نے وہ موتی اس لڑکے سے بیس وقرسونے کے عوض
خرید لیااوراسے اس کا کثیر معاوضہ ادا کردیا۔بعد میں بادشاہ کے حاشیۂ خیال
میں یہ بات آئی کہ یہ موتی اپنے جوڑے کے بغیر اچھا معلوم نہیں ہوتااس لئے
اس کا جوڑابھی تلاش کیا جائے۔ چنانچہ اس نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ
ایسا ہی ایک اور موتی تلاش کرکے لاؤ چاہے وہ دوگنی قیمت پرہی دستیاب کیوں
نہ ہوسکے۔ چنانچہ شاہی کارندے اس کی تلاش میں پھرتے پھراتے دوبارہ اسی لڑکے
کے پاس آپہنچے اور اس سے اس موتی کے جوڑے کا پوچھا اور کہا وہ ہمیں ہر حال
میں لے جانا ہے، چاہے دوگنی قیمت پر ہی کیوں نہ مل سکے، لڑکے نے دوگنی قیمت
پرمعاملہ طے کرکے وہ دوسراموتی بھی ان کے ہاتھ فروخت کردیااور پیسوں سے
مالامال ہوگیا۔(نقوشِ رفتہ گاں: جلد اوّل ص۶۹)
|