’’تمہیں کتنی مرتبہ کہا ہے، مجھ سے دُور کھڑے ہوا کرو۔ تم
سے بہت بدبو آتی ہے۔اور ہاں! تم تو مہینے کی د س تاریخ کو پیسے لیتے ہو ،
ابھی کس لیے چاہئیں؟ آج تو چار تاریخ ہے ۔ بھاگ جاؤ یہاں سے ، کتنی گندی بو
پھیلا دی تم نے یہاں۔‘‘
رُندھی ہوئی آوازسے وہ بس ’ جی‘ کہہ کر رہ گیا۔ اس بڑے سے گھر کا مالک اپنی
سخن کی مثال دے کر ، دروازے سے ہی بے شرمی و بے ضمیری کا منظر دِکھا کر کے
اندر چلا گیا۔
کہتے ہیں کہ انسان جب بولتا ہے تو وہ ہزار پردوں میں ڈھکی اپنی شخصیت کی
کنڈی کھولتا ہے۔ آج جب وہ بولا تو بولتا ہی چلا گیا ۔بولتا کیسے نہیں ، ہم
نے اس کی دُھکتی رَگ پر ہاتھ جو رکھ دیا تھا۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنا ہو تو
بھڑاس نکال دینی چاہئے ۔ ہم نے آج ایسا ہی کیا ۔اس کی ساری آگ بجھا دی۔
پراگندگی،بے توقیری اوردھتکار نے نہ جانے کتنے گھاؤ ڈالے ہوں گے۔وہ خالق کی
شاہکار تخلیق ہی تو ہے۔ہم نے اس کی شکوہ کناں آنکھوں کو رب ذولجلال سے ہزار
دلیلیں پوچھتے دیکھا ۔ آہیں گلے میں پھانس کی طرح اٹک گئی ہوں جیسے۔انسان
کے آنے کا مقصد کچھ اور تھا،لیکن اُس نے مقصد کسی اور چیز کو جان لیا
ہے۔ہماری مہربان آواز سن کر وہ ہمارے پاس آیا ۔ہم نے کہا :
’’ تم ہمارے گھروں کا کچرا اُٹھاتے ہو۔ ہمارے گھروں کی ساری گندگی، کوڑا
کرکٹ اور غلیظ اشیاء جسے ہم ہاتھ تک لگانا گوارہ نہیں کرتے ،تم اسے اپنے
ہاتھوں سے اُٹھا کر ،جسم اور کپڑوں کی پروا کئے بغیر دُور پھینک آتے ہو۔ وہ
صاحب تمہاری بے عزتی کر کے چلے گئے اور تم خاموش کھڑے رہے۔‘‘ وہ ہماری بات
سن کر خاموش کھڑا رہا اور ایک ٹک ہماری طرف دیکھتا رہا۔
’’تم ہمارے گھروں ، گلیوں، محلوں ،علاقوں اور سوسائٹیوں کو صاف کرتے ہو۔اور
ہم معاشرے کا سب سے کم تردرجہ تمہیں دیتے ہیں۔ ہماری تہذیب و اخلاق کا
دائرہ تم پر آکر نہ جانے کیوں چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ہماری اظہار ہمدردی اور
خندہ پیشانی کا راستہ تم پر آکر مڑ جاتا ہے۔ آداب مہمانی کا دروازہ بھی تم
پر بند ہوتا ہے کہ تم سے کوئی ایک گلاس پانی تک کا نہیں پوچھتا ۔‘‘
ہمارے احساسات اورجذبات کو وہ سمجھ گیا تھا ۔وہ آہستہ آواز میں گویاہوا:’’
یہ قدرت کی تقسیم ہے صاحب۔ ہم حالات کے ڈسے ہوئے ہیں ۔معاشرہ ہمارے کام سے
تو فیض یاب ہوتاہے مگر ہماری محنت کا پھل دینے کو تیار نہیں۔پیدائش تو ان
صاحب کی بھی قدرت کے اسی طریقہ کار سے ہوئی،جیسے میری ہوئی مگر ایسے لوگ ہم
جیسوں کو ذلیل کرنا ،کم تر سمجھنا ،اپنا جدی پشتی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کی اس
اونچائی ا ور میری اس مغلوبیت میں فرق صرف’ ’بخت‘ ‘کا ہے۔ ان کا بخت اچھا
نکلا تو وہ بلیوں اُچھلتے ہیں ۔ ہم ایسوں کا’’ بخت ‘‘ان کی نظر میں مضحکہ
خیز ہے توہی معاشرے میں مجروح ٹھہرا۔مجھے آج والدہ کے علاج کے لیے پیسوں کی
سخت ضرورت تھی۔گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔بھیک مانگنے سے موت بہتر
سمجھتا ہوں ،اس لیے سوچا کہ آج کچرا بھی اُٹھا لوں گا اور اپنی ماہوار
تنخواہ بھی مانگ لوں گالیکن اس بڑے گھر سے نکلنے والے صاحب اتنے چھوٹے
نکلیں گے ، کبھی سوچا ہی نہیں تھا ۔ہمیں اپنی زندگی کی گاڑی کا پہیہ چلانے
کے لیے مہینے میں سو ، دو سو روپے ہر گھر سے چاہیے ہوتے ہیں اور یہ صاحب
سو، دو سو روپے سے زاید تو اپنے بچوں کی جیب خرچ پر لٹا دیتے ہوں گے۔‘‘ وہ
کہتاجار ہا تھا اور ہم سن رہے تھے:
’’پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ایک روٹی کافی ہوتی ہے۔اس ایک روٹی کو حاصل کرنے
کے طریقے میں بہت بڑا فرق ہے ۔ہم بچی ہوئی ایک روٹی کھا لیتے ہیں اور یہ
ہزاروں روپے ایک روٹی کھانے کے لیے خرچ کر دیتے ہیں ۔ہم ایک روٹی کو حاصل
کرنے کے لیے دَر دَر جاتے ہیں اور یہ اپنی ایک روٹی کی خاطر بہت سوں کا
نوالہ چھین لیتے ہیں۔ہم ایک روٹی دینے والے گھر کا کچرا مفت میں اُٹھا لیتے
ہیں کہ اس نے ہمیں ایک روٹی دے کر ہم پر احسان کیا ہے اور یہ ایک روٹی دینے
والے کی نا شکری کرتے ہیں ۔یہ ڈگریوں والے پڑھے لکھے ، صبر و شکرکے مفہوم
کو نا سمجھ سکیں تو پھر ہم میں اور ان میں فرق کیا رہا؟‘‘ وہ چپ ہوگیا اور
ہماری طرف گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔ ہمیں پوری طرح اپنی طرف متوجہ پا کر
وہ دوبارا کہنے لگا:
’’کاروان ِ انسانیت چلتا رہے گا ۔سامانِ تفریح بھی پیدا ہوتے رہیں گے
۔شہنشاہ اگرپیدا ہوں گے تو ہم جیسے لوگ بھی پیدا ہوتے رہیں گے کیوں کہ یہی
خدائی اصول اور ارضِ حق ہے۔اگر ہم سے کوئی فرعونی آواز میں بات کرتا ہے تو
کسی بندہ خدا میں ہم صفت موسیٰ بھی دیکھتے ہیں۔ہم اپنی گدھا گاڑی کو کُل
سرمایا سمجھتے ہیں ، اپنی جان سے بڑھ کراس کی حفاظت کرتے ہیں ۔یہ جانور کم
اور ہمارے کنبے کا پیٹ پالنے والا مسیحا زیادہ ہے۔ اور جن گھروں میں جا
کرہم کچرا اُٹھاتے ہیں ،وہاں انسانوں کے کم اور جانوروں کے اوصاف زیادہ
دکھائی دیتے ہیں۔ہم کسی گھر سے کھانا مانگ لیں تو ہمیں دودھ والے گندے
پلاسٹک کے شاپر میں دیا جاتا ہے۔پانی مانگ لیں تو کہا جاتا ہے، اپنی بوتل
دو اس میں بھر کر دیں گے یاپلاسٹک کے پرانے سے گلا س میں دے کر کہا جاتا ہے
کہ یہ گلا س اپنے ساتھ لے جانا ۔ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ہم وہی گلاس
گھروں میں استعمال کرتے ہیں ۔ کل ہی کی بات ہے ،کچرے میں پڑی اخبار میں
دیکھا، ایک انگریز ہوٹل میں بیٹھا کتے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا ۔‘‘
’’اچھا……‘‘ ہمارے منہ سے نکلا۔
’’صاحب !ہم مسلمان ہیں ۔اس نبی ﷺ کی امت میں سے ہیں کہ جس نبی ﷺ نے
مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی کا درجہ دیا ۔اخوت کا درس دیا ، محبت کے
باغ لگائے اور ہر طرف اُلفت کی کرنیں بکھیریں ۔ خطبہ حج الوداع کے موقع پر
ہر تفریق کو مٹا دیا تھا انہوں نے ۔حبشہ کے غلام، فارس کے شہزادے کو ایک
چٹائی پر حدیث و قرآن کا سبق پڑھایا ۔دین حق سکھایا ۔ایک تھالی میں کھانا
کھلایا ،ایک پیالے سے دودوھ پلایا ۔سب سے یکساں رویہ روا رکھا ۔اگر جانور
شکایت کرتا تو درد دل کے ساتھ ا س کے غم میں شامل ہو تے۔ ہمارے مسلمان
بھائی جب ہم سے ایسا غلط سلوک کرتے ہیں تو مجھے وہ عالی شان ریسٹورنٹ میں
بیٹھا کتے کے ساتھ کھانا کھاتا انگریز بہتر لگتا ہے۔‘‘ وہ چپ ہوگیا۔ ہم نے
دیکھا، وہ ہانپ سا رہا تھا، جیسے میلوں کی مسافت سے طے کرکے آیا ہو۔ پھر وہ
خاموشی سے ایک طرف نکل گیا۔ہماری گلی کا کچرا جمع کرنے والاہمیں وہ آئینہ
دکھا یا گیا تھا جسے ہم کبھی دیکھنا نہیں چاہتے…… !!
OO |