ویل ڈن آفریدی

اور بالآخر کرکٹ کا بخار بھی اتر ہی گیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم دسویں ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں روایتی حریف بھارت سے ہار گئی۔ کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہئے اس کو جنگ یا جنون نہیں بنانا چاہئے اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی بھی میدان ہو چاہے وہ کھیل کا میدان ہو، تعلیمی میدان ہو یا جنگ کا میدان ہو اس میں کوئی ایک فرد یا گروپ فاتح ہوتا ہے اور ایک فرد یا گروپ شکست سے دوچار ہوتا ہے۔ اور اسپورٹس مین اسپرٹ یا اعلیٰ ظرفی یہ ہوتی ہے کہ انسان فتح کے لئے پوری جان لڑا دیتا ہے لیکن شکست ہونے کی صورت میں اس کو بھی خوشدلی سے قبول کرلیتا ہے۔ اب ہمیں بھی اپنی شکست کو خوش دلی سے قبول کرلینا چاہئے اور اپنی ٹیم کو برا کہنے یا ان پرتنقید کرنے کے بجائے ان کا پُرجوش استقبال کرنا چاہئے۔ کھیل ذہنی تناﺅ کو کم کرنے اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے لئے کھیلے جاتے ہیں لیکن میڈیا مافیا نے پاک بھارت میچ کو ایک جنگ کی صورت دیدی اور ایسا ماحول بنا دیا کہ گویا کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ چھِڑ گئی ہے۔ہم اپنی بات کرنے سے پہلے اس میچ کا ایک مختصر سا جائزہ لیں گے۔

جہاں تک اس میچ کا تعلق ہے تو اس میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے کئی فاش غلطیاں کیں ۔پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کے مرکزی باﺅلر عمرگُل نے توقع کے مطابق کرکردگی نہیں دکھائی،اسکے برعکس نووارد باﺅلر وہاب ریاض نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دوسری جانب ہماری قومی ٹیم کی فیلڈنگ انتہائی ناقص رہی اور میچ میں چھے کیچ ڈراپ کئے گئے جن میں سے چار کیچ تو صرف سچن ٹنڈولکر کے تھے،جب کہ اسٹمپ اور باوئنڈریز بھی مِس کی گئیں جس کے باعث بھارت کی ٹیم نے 260 رنزکا مجموعہ حاصل کرلیا وگرنہ تو بھارت کی ٹیم بمشکل 220/225 رنز پر ہی ڈھیر ہوسکتی تھی لیکن ناقص فیلڈنگ کے باعث 40/45 رنز اضافی بنے اور یہی اضافی رنز پاکستانی ٹیم کو لے ڈوبے۔اسکے بعد ہماری بیٹنگ لائن اپ اچانک جواب دے گئی اور اوپنرز ٹیم کو کوئی اچھا آغاز فراہم نہ کرسکے،اس کے بعد مڈل آرڈر بیٹسمین میچ کو ون ڈے کے بجائے ٹیسٹ میچ کی طرح کھیلنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مطلوبہ رن ریٹ بڑھتا گیا اور جیسے جیسے رن ریٹ بڑھتا گیا ویسے ویسے ٹیم پر دباﺅ بھی بڑھتا گیا،اور پھر ہمارے کھلاڑی تیز کھیلنے کی کوشش میں وکٹیں گنواتے رہے۔ نائب کپتان مصباح الحق آخری اوورز میں تیز کھیلنے کی کوشش کرتے نظر آئے لیکن اس وقت تک ٹیم کی لُٹیا ڈوب چکی تھی ۔ بالآخر پاکستان ٹیم روایتی حریف بھارت سے انتیس رنز سے ہار گئی۔ یہ تو پاک بھارت کے درمیان ہونے والے سیمی فائنل میچ کا ایک جائزہ لیا گیا ۔

اب ہم اپنی بات کریں گے ۔ ہم یہ بات اگر پہلے کہتے تو شائد لوگوں کو یہ بات پسند نہ آتی اور لوگ ہمیں برا بھلا کہتے اس لئے ہم نے اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی لیکن اب ہم سمجھتے ہیں کہ موقع ہے کہ اس بارے میں کچھ بات کی جائے اور اپنا نقطہ نظر یہاں رکھا جائے، شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات اگر غور کریں تو پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ ہم نے اپنی ٹیم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرلیں حالانکہ ہماری ٹیم نے راﺅنڈ میچز سے لیکر سیمی فائنل میں پہنچنے تک غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سوچیں کہ کیا یہ وہی ٹیم نہیں ہے جو ورلڈکپ کے معرکے میں جانے سے پہلے بحرانوں کا شکار تھی؟ کیا یہ وہی ٹیم نہیں تھی جس کو آئی سی سی نے اپنی نگرانی میں رکھا ہوا تھا اور ٹیم پر میچ فکسنگ کے الزامات تھے؟ کیا یہ وہی ٹیم نہیں ہے جس کے دو بہترین باﺅلرز پر آئی سی سی کی جانب سے پابندی لگا دی گئی تھی اور ٹیم اپنے اچھے باﺅلرز بالخصوص محمد عامر کی خدمات ٹیم کو حاصل نہیں تھی۔کیا یہ وہی ٹیم نہیں تھی جس کی ورلڈکپ میں روانگی تک کپتان کا اعلان تک نہیں کیا گیا تھا؟کیا یہ وہی ٹیم نہیں ہے جو حال ہی میں انگلینڈ،ساﺅتھ افریقہ اور نیوزی لینڈ سے سیریز ہاری تھی ؟ذیل میں ہم ایک چارٹ پیش کر رہے ہیں جس میں ورلڈ کپ سے پہلے قومی ٹیم کی آخری تین سیریز کا ریکارڈ پیش کیا گیا اس چارٹ کو بغور دیکھیں ۔
 
image
اب اس ریکارڈ کے بعد ذرا سوچیں کہ کیا اس ٹیم سے اتنی اچھی کارکردگی کی توقع تھی؟ جواب ہے کہ نہیں ! کسی کو بھی موجودہ پاکستانی ٹیم سے اتنی اچھی کارکردگی کی بالکل بھی توقع نہیں تھی لیکن پوری ٹیم نے متحد ہوکر کھیلا اور ایک ہاری ہوئی ٹیم کو جیت کے راستے پر گامزن کردیا۔جس کے لئے پوری پاکستانی کرکٹ ٹیم اور ان کے کپتان شاہد خان آفریدی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ویل ڈن آفریدی آپ نے ٹیم کو دوبارہ جیت کے راستے پر گامزن کردیا۔جب ٹیم نے لگاتار تین میچز جیتے تو پھر عوام کی توجہ اپنی بھی اپنی ٹیم کی جانب مبذول ہوگئی اس کے بعد تو جناب میڈیا بھی انگڑائی لیکر بیدار ہوگیا اور پھر میڈیا پر صرف اور صرف کرکٹ ہی چھا گئی۔ بالخصوص جب پاکستان ٹیم نے کوارٹر فائنل کے لئے کوالیفائی کرلیا تو ہر ایک نے اپنی توقعات ٹیم سے وابستہ کرلیں ۔پاکستانی ٹیم پر سیمی فائنل کے بعد تنقید کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز جیسی مضبوط ٹیمیں بڑی مشکل سے کوارٹر فائنل تک پہنچیں،اس کے بعد کوارٹر فائنل میں آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز،ساﺅتھ افریقہ جیسی ٹیموں کا سفر بھی اختتام پذیر ہوگیا لیکن ہماری ٹیم نے تو کوارٹر فائنل کا مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے طے کرلیا تھا۔ جب ہماری ٹیم نے کوارٹر فائنل کا مرحلہ بھی عبور کرلیا تو اس کے بعد انڈیا پاکستان کے میچ کو میڈیا نے کیچ کرلیا اور اس کو ایک میچ ،ایک کھیل سے زیادہ عزت،غیرت، اور قومی وقار کا مسئلہ بنا دیا اور پوری قوم کو کرکٹ کے بخار میں مبتلا کردیا۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ وہی میڈیا ہے جو ناموس رسالت ﷺ کے معاملے پر تو قوم کو صبر اور غیر جانبداری کا درس دیتا ہے اور قوم کو غیر جذباتی سوچکی تلقین کرتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بات ہو تو زمین حقائق کی بات کرتا ہے۔ عافیہ صدیقی کی بات کی جائے تو یہی میڈیا ہمیں بتاتا ہے کہ جذباتی پن چھوڑ کر دماغ سے کام لینا چاہئے۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر ساری سرکاری مشنری اور ارباب حکومت قوم کو بتاتے ہیں کہ زمین حقائق کیا ہیں ؟ الغرض ملک و قوم کے ہر معاملے کو ایک کھیل کی طرح لیا جاتا ہے لیکن ایک کھیل کو جنگ کا درجہ دیدیا گیا۔ میڈیا نے صرف اپنی کمائی اور کمرشل ازم کے لئے پوری قوم کو کرکٹ کے بخار میں مبتلا کردیا ، اور ایک ایسا تاثر دیا کہ گویا کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کی موسٹ فیورٹ ٹیم ہے اور بس اب ورلڈ کپ ہم جیتے ہی جیتے۔یہ سراسر میڈیا ہی کی کارستانی تھی کہ اس نے ایک نان ایشو کو ایشو بنا دیا اور حقائق کے برعکس قوم کے جذبات سے کھیلا ۔

یقیناً ہر فرد اپنی قومی ٹیم کے لیے دعائیں کرتا ہے اور ہماری بھی یہ خواہش تھی کہ پاکستان سیمی فائنل جیت جائے لیکن اس میچ میں بحیثیت قوم ہماری بے صبری اور جلد بازی کی عادت بھی نمایاں ہوئی کہ میچ سے پہلے ہی ہم نے ایسے بلند و بانگ دعوے کرنے شروع کردیئے گویا کہ ہم انڈیا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف نہیں بلکہ کینیڈا وغیرہ جیسی کسی بے بی آف کرکٹ سے سیمی فائنل ہورہا ہے.پھر میچ کے دن سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومت نے عام تعطیل جب کہ وفاقی حکومت نے آدھے دن کی تعطیل کا اعلان کردیا۔ اس کے بعد جب میچ شروع ہوا تو آغاز میں ہی ہماری قوم نے ایسے جشن منانا شروع کردیا گویا کہ ہم میچ جیت چکے ہیں ۔ بھارت کی ہر وکٹ پر ایسے ہوائی فائرنگ،پٹاخے اور اچھل کود مچائی گئی گویا کہ میچ جیت لیا گیا ہے حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کرکٹ کا کھیل آخری اوور تک غیر یقنی ہوتا ہے ، اور ابھی بھارت کی پوری اننگ اور اس کے بعد پاکستان کی اننگ باقی تھی لیکن ہم نے انتہائی بے صبری اور جلدبازی بلکہ میں تھوڑا زیادہ سخت الفاظ میں کہوں گا کہ چھچھورے پن کا مظاہرہ شروع کردیا۔ ایک طرف تو یہ عالم تھا اور جب میچ کا پانسہ پلٹنے لگا تو معلوم ہوا کہ وہی لوگ اب منہ بھر بھر کر پاکستانی ٹیم کو گالیاں دے رہے ہیں۔ یہ کس طرح کا رویہ ہے کہ ایک طرف تو ہم کسی کو بالکل دیوتا کا درجہ دیکر اس کو پرستش شروع کردیتے ہیں، اس کو پلکوں پر بٹھاتے ہیں اور اس کے بعد یکایک اسی فرد کو نظروں سے گرا دیتے ہیں۔ یہ رویہ درست نہیں ہمیں ہر حال میں اعتدال اور میانہ رویہ اختیار کرنی چاہئے۔

کھیل کو کھیل ہی رہنا چاہئے اس کو جنگ یا جنون نہیں بنانا چاہئے اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی بھی میدان ہو چاہے وہ کھیل کا میدان ہو، تعلیمی میدان ہو یا جنگ کا میدان ہو اس میں کوئی ایک فرد یا گروپ فاتح ہوتا ہے اور ایک فرد یا گروپ شکست سے دوچار ہوتا ہے۔ اور اسپورٹس مین اسپرٹ یا اعلیٰ ظرفی یہ ہوتی ہے کہ انسان فتح کے لئے پوری جان لڑا دیتا ہے لیکن شکست ہونے کی صورت میں اس کو بھی خوشدلی سے قبول کرلیتا ہے۔ اب ہمیں بھی اپنی شکست کو خوش دلی سے قبول کرلینا چاہئے اور اپنی ٹیم کو برا کہنے یا ان پر تنقید کرنے کے بجائے ان کا پُرجوش استقبال کرنا چاہئے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520075 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More