سب سے پہلے تو میں پوری ٹیم خاص کر پاکستان
کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد خان آفریدی کو ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی
مبارک باد دیتا ہوں۔ کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان
کرکٹ کی کیا صورت حال تھی۔ کھلاڑیوں پر پابندیاں، الزامات، سلیکشن، فٹنس
اور منیجمنٹ جیسے کئی مسائل تھے اور اس بڑے ایونٹ میں سب کو یہی خطرہ تھا
کہ پاکستان کرکٹ ٹیم پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو جائے گی۔ مگر شاہد خان
آفریدی کی کپتانی اور کھلاڑیوں کے تعاون سے آہستہ آہستہ فیورٹ ٹیم بنتی گئی۔
اور سیمی فائنل تک پہنچی۔ اسی ورلڈ کپ میں ہم نے فیورٹ ٹیموں کو ہارتے ہوئے
دیکھا۔ آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیمیں سیمی فائنل سے
پہلے باہر ہو گئیں اور انگلینڈ کی سری لنکا کے ہاتھوں آپ نے بد ترین شکست
بھی دیکھی جو کہ ایک بہت اچھی ٹیم تھی۔
جب ہماری ٹیم نے میچز جیتنے شروع کئے تو یہ اس ٹیم کی صورت اختیار کر گئی
جس کو کوئی شکست نہیں دے سکتا مگر ہم حقیقت سے نظریں چرا لیتے ہیں کہ کھیل
میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی ٹورنامنٹ کی مثال لے لیں۔ انگلینڈ
اور بھارت کا میچ کا ٹائی ہونا، آئر لینڈ کا انگلینڈ کو ہرانا، انگلینڈ کا
جنوبی افریقہ اور پھر ویسٹ انڈیز کو نا قابل یقین طور پر ہارے ہوئے میچز
جیتنا اور پھر ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں بنگلہ دیش کی بری شکست اس کھیل کی بے
یقینی کو واضح کر نے کے لئے کافی مثالیں ہیں۔ اس لئے کرکٹ کے بارے کہا جاتا
ہے کہ اس کے بارے میں آخری بال تک کوئی اندازا نہیں لگا سکتا کہ کون جیتے
گا اور کون ہارے گا ایک اور بڑی مثال بنگلہ دیش کی غیر یقینی جیت تھی جو اس
نے انگلینڈ کو دی تھی اور بنگلہ دیش کے حامی گراؤنڈ چھوڑ کر چلے گئے تھے جس
کا انہیں بعد میں بہت افسوس ہوا ہو گا۔
ہماری پوری قوم مجھ سمیت اب ٹیم سے بہت زیادہ امید اور توقع کر رہے تھے جو
کہ کرنی ہی چاہئے تھی جس طرح شاہد خان آفریدی نے ٹیم کو یکجا اور متحد کر
دیا تھا ایسا ہی لگتا تھا کہ ورلڈ کپ اب ہمارا ہی ہوگا۔ جب میچ دیکھا اس کا
رزلٹ اور پاکستان کی شکست دیکھ کر بہت زیادہ افسوس اور دکھ ہوا جس کو الفاظ
میں ادا نہیں کیا جا سکتا۔ میچ پر مختلف لوگوں اور مکتبہ فکر کی مختلف اور
متضاد آرا اور باتیں پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ میرے خیال میں عمر گل کی باؤلنگ
میں ناکامی، ناقص فیلڈنگ اور کیچز ڈراپ ہونے کے باوجود انڈیا کی ٹیم اپنا
مطلوبہ سکور نہیں کر سکی تھی جس کا ذکر ان کے کمنٹیٹر بھی بار بار کر رہے
تھے کہ انڈیا کے ٣٠ یا ٤٠ رنز کم بنے ہیں۔ مگر ہماری بیٹنگ کی کمزوریوں کی
وجہ سے ہم ٹارگٹ پورا نہ کر سکے۔ مجھے اور تو کسی پر غصہ اتنا زیادہ نہیں
آیا جتنا مصباح الحق پر آیا کہ اس نے با لکل غلط بیٹنگ کی اور کم از کم ١٠
تا ١٥ اوور دائرے سے باہر صرف دو کھلاڑی ہونے کے باوجود اس نے کوئی شاٹ
نہیں لگائی۔ حالانکہ میں اس کو اس وقت پوری ٹیم میں واحد اچھا کھلاڑی
سمجھتا ہوں بلکہ وہ ہے جو سپنر کو اچھے طریقے سے کھیل سکتا ہے۔ اگر وہ ان
اوورز میں بالز کو مس کرنے کی بجائے سنگل سنگل اور لوز بالز پر ایک آدھ
باؤنڈری لگا تا رہتا تو ہم با آسانی میچ جیت جاتے۔ بہرحال یہ تو میرے
خیالات ہیں اب وہ اس وقت کیا سوچ کر اس طرح بیٹنگ کر رہا تھا وہی بتا سکتا
ہے۔ اس کے بعد بڑی غلطی درست وقت پر پاور پلے نہ لینا ہے جس کی وجہ سے ہم
ہار گئے مگر یہاں بھی وہی بات کہ کپتان کے ذہن میں کچھ اور ہی ہوگا کہ آخری
پانچ اوورز میں پاور پلے لیں گے اور دو تین وکٹوں سے ہٹنگ کرینگے جو کہ
بدقسمتی سے نہ ہو سکا اور وکٹس گرتی گئیں۔
کالم کے عنوان سے آپ حیران ہوں گے کہ خوشی اور دکھ کس بات پر۔ تو معزز
قاریئن جیسا کہ شروع میں میں نے ابتدائی حالات کا ذکر کیا تو ان کو دیکھ کر
ہم اس بات پر خوش ہیں کہ ہماری ٹیم سیمی فائنل تک تو پہنچی اس کے باوجود کہ
یہ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے بہت سے مسائل اور مشکلا ت میں گھری ہوئی تھی
اور جن کو فیورٹ ٹیم قرار دیا جا رہا تھا وہ سیمی فائنل میں ہی نہ پہنچ
سکیں اور ایک اور بات جس کی بہت زیادہ خوشی تھی کہ ہم نے آسٹیریلیا کی جیت
کے سلسلے کو ختم کیا جو ہم سے ہی شروع ہوا تھا اور بڑھتا ہی جا رہا تھا ان
سب باتوں کو ایک طرف رکھ دیجئے سب سے بڑی خوشی یہ ملی کہ ہم ایک قوم کی
صورت میں دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے جو پہلے پنجابی، بلوچی، سندھی، سنی، شیعہ
اور اس قسم کے لسانی،علا قائی اور صوبائی تعصبات میں ڈوبے رہتے تھے کرکٹ کی
وجہ سے ہی سہی کچھ دنوں کے لئے ایک قوم کی شکل اختیار تو کی جو اس بات کا
ثبوت ہے کہ وقت آنے پر ہم اپنے تمام تعصبات بالائے طاق رکھ کر، بھول کر اور
ختم کر کے ایک مضبوط، متحد اور یکجا قوم کا روپ دھار لیں گے۔ انشاء اللہ۔
اور کھیل تو کھیل ہی ہوتا ہے مگر بحیثیت پاکستانی جتنا بھی اپنے آپ کو تسلی
دیں جتنی بھی توجیحات پیش کریں دل کے ایک کونے میں شکست کا دکھ موجود ہے
اور رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس میدان میں انڈیا کے خلاف ہر سطح
خاص کر ورلڈ کپ میں کامیابی و کامرانی سے نہیں نواز دیتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب پاکستانیوں کو صرف کرکٹ میں ہی نہیں بلکہ ہر میدان اور
شعبے میں پاکستان کی بقاء، ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک ہونے اور اپنا اپنا
کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثمہ آمین |