جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
مدینۂ منورہ میں تشریف لائے تو انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز
پڑھنے کا حکم دیا گیا اورنبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم نے اللہ پاک کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرف منہ کر کے نمازیں
ادا کرنا شروع کر دیں۔ البتہ حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قلبِ اطہر کی خواہش یہ تھی کہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں
کا قبلہ بنادیاجائے۔ چنانچہ ایک دن نماز کی حالت میں حضورِ اقدس صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس امید میں باربار آسمان کی طرف دیکھ
رہے تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم آجائے، اس پر نماز کے دوران یہ آیتِ
کریمہ نازل ہوئی جس میں حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ
کی رضا کو رضائے الٰہی قرار دیتے ہوئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرۂ انور کے حسین انداز کو قرآن میں بیان کرتے
ہوئے آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خواہش اور خوشی کے
مطابق خانہ کعبہ کو قبلہ بنادیا گیا۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنماز ہی میں خانہ کعبہ کی طرف پھر گئے، مسلمانوں نے بھی
آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا
اورظہر کی دو رکعتیں بیت المقدس کی طرف ہوئیں اور دو رکعتیں خانہ کعبہ کی
طرف منہ کر کے ادا کی گئیں۔(تفسیر صراط الجنان، ۱/۲۳۳ملتقطاً) وہ آیتِ
کریمہ جو نازل ہوئی وہ یہ ہے:
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ
قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-وَ
حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ (پ۲، البقرۃ:۱۴۴)
ترجَمۂ کنزالایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا
تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی
اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانوتم جہاں کہیں ہو اپنا منہ
اسی کی طرف کرو
|