کرکٹ کھیلنے والے تمام ممالک اپنی ٹیموں کی بہتری کے لیے
بہترین اقدامات اور درست فیصلے کرتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان کرکٹ بورڈ اس
حوالے سے غیر سنجیدہ نظر آتا ہےاور کرکٹ میں ہمیشہ تجربات کرتا رہتا ہے۔
بورڈ نے کوچنگ کا تجربہ نہ رکھنے والے مصباح الحق کو ہیڈ کوچ بنادیا۔
مصباح الحق پاکستان کرکٹ تاریخ کے کامیاب ترین کپتان ضرور ہیں لیکن ٹیم کی
قیادت کرنا اور ٹیم کی کوچنگ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ سونے پر سہاگا ان کو
ٹیم سلیکٹ کرنے کی دُہری ذمہ داری بھی دے دی گئی ہے۔ قوی امکان ہے کہ ڈین
جونز کی رخصتی کے بعد وہ پاکستان سپر لیگ میں دو ٹائٹلز جیتنے والی ٹیم
اسلام آباد یونائٹیڈ کے ہیڈ کوچ کا عہدہ بھی سنبھال لیں گے۔
مصباح الحق جنہوں نے بحیثیت کرکٹر بہت نام کمایاکےموجودہ سیٹ اپ میں قومی
ٹیم کا جو حال ہورہاہے وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کو مسلسل دو ٹی ٹوئنٹی
سیریز میں سری لنکا اور آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آسٹریلیا نے پاکستان سے پہلے سری لنکا کا جو برا حال کیا تھا مصباح کو اس
سے کچھ سبق حاصل کرلینا چاہیے تھا لیکن افسوس! ملک کے مہنگے ترین کوچ وچیف
سلیکٹر مصباح کو یہ بات کون سمجھائےکہ ہتھیار کے بغیر جنگ جیتی نہیں جاسکتی
اور تجربے اور درست سلیکشن کے بغیر مضبوط ٹیم کے خلاف میدان میں اُترنا
عقلمندی نہیں۔
سابق ہیڈ کوچ مکی آرتھر کے دور میں قومی ٹیم ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل میں
نہ سہی لیکن ٹی20 فارمیٹ میں تو عالمی نمبر ایک پر راج کررہا ہے۔ گرین شرٹس
کو 2019 ورلڈ کپ میں آخری پانچ میچز میں کامیابیاں ملیں اور ٹیم بمشکل ہی
سیمی فائنل میں پہنچ سکتی تھی۔ لیکن ٹیم نےسابق ہیڈ کوچ وقار یونس کے دور
میں 2015ورلڈ کپ میں کیا کیا؟ اب وہ ٹیم کے بولنگ کوچ ہیں۔ (ان کی کوچنگ
میں پاکستانی بولرز پرتھ میں کوئی بھی وکٹ نہ لے سکے)۔
مکی آرتھر نے جن کھلاڑیوں کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹیم سے نکالا تھا
مصباح نے ان ہی کھلاڑیوں کو واپس بلایا۔ سری لنکا کےخلاف ٹی ٹوئٹنی سیریز
میں عمر اکمل اور احمد شہزاد کو شامل کیا۔عمراکمل دونوں ہی میچز میں صفر پر
آؤٹ ہوئے جبکہ احمد شہزاد نے 4اور13 رنز بنائے۔ ان کی بدستور ناقص
کارکردگی نے ثابت کیا کہ مکی آرتھر کا فیصلہ درست تھا۔
سری لنکا کے خلاف ٹی ٹوئنٹی میں شکست کا سارا ملبہ سابق کپتان سرفراز احمد
پر ڈال دیا گیا اور ان کو ٹیم سے آؤٹ کر کے بابر اعظم کو ٹی20 ٹیم کا
کپتان مقرر کیا۔ پہلے دو میچز میں بابر کی انفرادی کارکردگی تو بہتر رہی۔
انہوں نے سیریز میں دو نصف سنچریاں بنائیں اور سیریز میں سے زیادہ رنز
بنانے والوں کی فہرست میں ٹاپ پر رہے لیکن ان کی عمدہ اننگز بھی ٹیم کو
فتوحات سے ہمکنار نہ کرسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیم کی کامیابی کے لیے انفرادی
کارکردگی سے زیادہ کھلاڑیوں کی مجموعی کارکردگی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
فخرزمان، حارث سہیل، آصف علی، عماد وسیم ،شاداب خان، امام الحق عمدہ
پرفارمنس دکھانے میں ناکام رہے۔ فخر زمان کی کارکردگی سری لنکا کے خلاف
سیریز میں بھی بہت بری تھی اور آسٹریلیا میں بھی انہوں نے پہلے میچ میں
صفر اور دوسرےمیچ میں صرف دو رنز بنائے اور جب کہ تیسرے میچ میں ان کی جگہ
امام الحق کو کھلایا گیا۔ حارث سہیل بہترین مڈل آرڈر بیٹسمین ہیں۔
انہوں نے اکتوبر 2018میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں اپنے کیرئیر کی
پہلی سنچری بنائی تھی اور رواں برس 2019 میں آسٹریلیا ہی کے خلاف ون ڈے
سیریز میں پہلی سنچری بنائی اور 101رنز کے ساتھ ناقابل شکست رہے۔ لیفٹ
ہینڈڈ بیٹسمین آسٹریلیا کی وکٹوں پر پہلی بار کھیل رہے ہیں لیکن ان وکٹوں
پر آسٹریلوی بولرز کو کیسےقابو کرنا ہے انہیں یہ گر نہیں سکھایا جارہا۔ وہ
عمومی طور پر پانچویں پوزیشن پر کھیلتے ہیں لیکن ان کو تیسرے یا
چوتھےنمبرپرکھیلنے کے لیے بھیجا گیا۔
مکی آرتھر نے طویل قامت محمد عرفان کی فٹنس کی وجہ سے ان کو ٹیم سے باہر
رکھا تھا لیکن مصباح نے دورہ آسٹریلیا میں ان کو شامل کیا۔ 37سالہ محمد
عرفان لگ بھگ تین برس بعد پہلی بار ٹی ٹوئنٹی میں ایکشن میں نظر آئے۔
انہوں نے پہلے میچ کے دو اوورز میں 31 رنز دیئے جبکہ کینبرا میں کھیلے گئے
میچ میں ایک وکٹ کے عوض 27 رنز دیئےاور ان کی کارکردگی متاثر کن نہ رہی۔
پہلے میچ میں تو بارش نے عزت رکھ لی اوراگر آسٹریلیا ٹی ٹوئنٹی سیریز میں
0-3 سے کلین سوئپ کامیابی حاصل کرلیتا تو پاکستان کو عالمی نمبر ایک سے
ہاتھ دھونا پڑتا۔ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں نہ پاکستانی بولرز کا جادو چلا اور
نہ ہی بیٹنگ لائن میں بابر اور افتخار کے علاوہ کوئی اور وکٹوں پر ٹک سکا۔
بابر اعظم اور افتخار کے علاوہ دیگر کھلاڑیو ں کی غیر مستقل مزاجی بدستور
قائم رہی۔
گرین شرٹس نے دوسرے میچ میں 150رنز کا ہدف دیا تومیزبان ٹیم کے لیے کوئی
بڑا ہدف نہ تھا۔ اسٹیون اسمتھ کی دھواں دھار اننگز کی بدولت 7وکٹوں سے میچ
جیتا اور آخری میچ میں کینگروز نے پاکستان کو آؤٹ کلاس کرتے ہوئے 107رنز
کا ہدف 11.5 اوورز میں بغیر کسی نقصان کے پورا کیا۔ محمد عامر، ٹی ٹوئنٹی
میں ڈیبیو کرنے و الے موسیٰ خان،محمد حسنین اور عماد وسیم وکٹیں لینے سے
محروم رہے اور کپتان ارون فنچ اور وارنر نے دل کھول کر پاکستانی بولرز کی
دھلائی کی۔
آل راؤنڈر افتخار احمد ’بگ ہٹر‘ کے طور پر سامنے آئے ہیں، صرف بابر اور
افتخار مقابلہ کررہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ آسٹریلیا کا دورہ کرنے والے
دیگر کھلاڑی صرف کرکٹ سیکھنے کے لیے گئے ہیں۔ مصباح الحق نےابھی تک
’سرپرائز‘ عثمان قادرکو موقع نہیں دیا۔ لیگ اسپنرعثمان قادر سڈنی اور
کینبراکی وکٹوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن عثمان قادر کی خدمات دستیاب ہونے کے
باوجود ان کو میچز میں نہیں کھلایا گیا۔
ٹی 20 میں بابر اعظم کی ناکامی کے بعد ٹیسٹ سیریز میں اظہر علی کا امتحان
شروع ہوگا۔ اگر ٹیم کا یہی حال رہا تو آسٹریلوی کرکٹرز ٹیسٹ میچز میں رنز
کا پہاڑ کھڑا کر دیں گے جس کو سر کرنا ناممکن ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہیڈ
کوچ مصباح کینگروز کو قابو کرنے کے لیے کون سی حکمت عملی اپناتے ہیں۔
،
|