دارلحکومت ایک بار پھر دھرنے کی زد میں

پاکستان کا دارلحکومت ایک بار پھر دھرنے کی زد میں ہے اور دھرنے والے فخر سے کہہ رہے ہیں کہ وہ لاکھوں کا مارچ لائے ہیں اور لاکھوں کا مجمع بٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اس کے اثرات ملکی ترقی پر کیا پڑ رہے ہیں اس سے ان کو غرض نہیں اور اس سے اسلام آباد کے عام شہریوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے یہ بھی ان کا درد سر نہیں،میٹرو سٹیشنوں پر ان کا قبضہ جائز ہے یا ناجائز اس کی بھی ان کو پرواہ نہیں۔ان کا مسئلہ ایک ہی ہے مجمع بڑا ہواور تعداد زیادہ ہو، شاید یہ بات اُن کے لیے ان کے مطالبہ نمبر ایک یعنی وزیر اعظم کے استعفیٰ سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ وہ جس فخر سے اپنی تعدادکا ذکر کر رہے ہیں وہ اسی بات کی گواہی ہے۔یہاں عوام کا ایک سوال ہے کہ جو پارٹی ہمیشہ سے سیاست کا بارہواں کھلاڑی ہے یعنی حکومت میں کوئی رخنہ پڑا کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو پانی لے کر دوڑتا ہوا میدان میں اترا پانی پلایا اور دوبارہ سے چست ہو کر سٹینڈ میں بیٹھ رہا کہ ضرورت پڑنے پر فوراََ مدد کو پہنچ سکے، اُس نے اتنے لوگ کیسے جمع کر لیے اس کے تو شاید تمام ووٹر کی تعداد بھی کچھ لاکھ سے زیادہ نہیں وہ ملین مارچ کا دعویٰ کیسے کر رہی ہے۔ وہ بھی جب دوسری بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اُس کے دھرنے میں بیٹھنے سے بھی انکارکر دیا تو پھر اتنا ہجوم کیسے جمع ہو گیا اوران کو یہاں تک کیسے لایا گیا۔ کیا پاکستان کے عوام اتنے خوشحال ہو گئے کہ کشمیر، سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور پنجاب کے دور دراز علاقوں میں اپنے خاندانوں کو مہینوں کی نیت سے اکیلا چھوڑ آئے ہیں ان کے کھانے کی فکر نہ پینے کی بس وہ اپنے سیاسی لیڈر کو خوش کرنے چل پڑے اس ایمان پر کہ ان کے گھروں میں من وسلویٰ اترے گااور فکر کی کوئی بات نہیں۔سوال یہ ہے کہ آخر اتنا پیسہ کہاں سے آیا۔جب مولانا فضل الرحمان صاحب سے ایک ٹی وی اینکر نے یہی سوال کیا تو کہنے لگے ہمیں خود نہیں معلوم کہاں سے سب کچھ آرہا ہے لیکن بس آرہا ہے اور انتہائی کھلا آرہا ہے بالفاظ دیگر ریل پیل ہے سوال اور بھی بہت سارے ہیں لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ دھرنے میں کتنے افغان مہاجرین شامل ہیں جنہوں نے شروع کے کسی دن تو طالبان کے جھنڈے بھی لہرا دیے تھے اور جب انہیں نوٹ کیا گیا تو جھنڈے ہٹا دیے گئے لیکن کیا افغان شہری بھی واپس چلے گئے،یہ ناممکن نظر آتا ہے، کہنے کو یہ بھی کہا گیاکہ اس مارچ میں مدارس کے طالبعلم نہیں آئیں گے لیکن ایسے بے شمار نوجوان نظر آرہے ہیں جو دیکھنے سے طالبعلم ہی لگتے ہیں۔اس سے پچھلے دھرنے میں بھی یہ نوجوان اور بچے نظر آتے رہے۔ بات تو یہ ہے کہ سکول کالج کی عمر کے لڑکوں کو پڑھائی سے نکال کر کیوں سیاست میں گھسیٹا جاتا ہے کیوں ان کے مستقبل کو اپنے حال اور حکومت کے لیے قربان کر دیا جاتا ہے اور ہمارے لیڈران اسی میں خوش رہتے ہیں کہ بوڑھے، جوان سب ان کے دھرنوں میں موجود ہیں۔مارچ کیا جلوس نکالا اور اگلے دن اپنا بستہ کتابیں لے کر اپنے تعلیمی ادارے کو چل دیے تو پھر تو بے دلی سے قابلِ قبول ہے لیکن دھرنوں میں ہفتوں مہینوں ان کو بٹھانا کہاں کا انصاف ہے۔موجودہ دھرنے میں تو جیسا کہ سننے میں آرہا ہے کہ افغان شہری اور افغان نوجوان بھی موجود ہیں تو آخر کیوں ہم اپنے ملک کے اختیار میں دوسروں کو مداخلت کی اجازت دے رہے ہیں۔اس سے پہلے یہی افغان باشندے منظور پشتین کے جلسے جلوسوں میں شرکت کر کے مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔کیا ہمار ا ہر دم جاگتا ہو میڈیا اس مسئلے کو سامنے لائے گا تاکہ لوگوں کو ”بہت بڑی کامیابیوں“ کی اصل معلوم ہو سکے اور کیا ہماری عدالتیں اپنا کوئی آزادانہ فیصلہ دے کر اس قسم کی غیر ملکی مداخلت والی سیاسی سرگرمیوں پر کسی قسم کی پابندی نہیں تو قد غن ہی لگا ئیں گی،کسی قانون کی کوئی شق ہی اٹھائیں گی کہ اپنے ملکی معاملات میں دوسروں کو مداخلت کی اجازت کسی طور نہ دی جائے توقارئین کرام آپ دیکھئے گا کہ ہمارے ملک میں امن و امان کے کئی مسائل خود ہی حل ہو جائیں گے۔ یہاں یہ بھی گزارش ہے کہ ملکی سیاست کو کسی قانون قاعدے کا پابند کیا جائے اور اٹھارہ سال سے کم عمر نوجوانوں کو اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو چھوڑ کر دھرنوں اور طویل احتجاجوں کا حصہ بننے سے روکا جائے اور سیاسی جماعتوں پر بھی یہ پابندی لگائی جائے کہ ان بچوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں۔ میں نے ایسے کئی لائق فائق نوجوانوں کو دیکھا ہے جو ان معاملات میں پڑ کر نہ صرف اپنے والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں بلکہ اپنا مستقبل بھی تاریک کر لیتے ہیں۔لہٰذا معاشرے، والدین، سیاستدانوں، میڈیا اور عدالتوں سب سے التماس ہے کہ اپنے ملک و قوم کا مستقبل تاریک نہ کریں اور انہیں صحتمندانہ سر گرمیوں کی طرف مائل کریں۔ انہیں تعلیم کی اہمیت سے آگا ہ کریں ان کا مستقبل سنواریں نہ کہ انہیں استعمال کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا ماضی، حال اورمستقبل عظیم کریں۔دوسری درخواست یہ کہ اپنی قومی سیاست اور ملکی معاملات میں کسی غیر کو مداخلت نہ کرنے دیں اور انہیں اتنا با اختیار نہ بنائیں کہ وہ آپ کے مالک بن بیٹھیں اور آپ کے فیصلے کرنے لگیں۔ یہ ملک آپ کا ہے اسے اپنا ہی رہنے دیں نہ اسے دوستوں کے ہاتھ فروخت کریں نہ دشمنوں کے حوالے کریں کیوں کہ ہر دو صورتوں میں آپ خود مختار نہیں ہو سکتے اور سیاست بھی کریں لیکن اپنے زورِ بازو پر نہ کہ دوسروں کے جو کہ ہمارے کوچہء سیاست کا ایک رواج بن چکا ہے لیکن اس رواج کو اب ختم کرنا ہو گا اور اپنا اختیار دوسروں کو دینے کی بجائے اپنے ہاتھ میں رکھنا ہو گا۔
 

Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 552445 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.