پاکستانی شوبز انڈسٹری یا فحاشی کاروبار

پاکستان ٹیلی ویژن سن 26 نومبر 1964 میں قائم ہوا۔ ا سے بنے ہوئے اب تک 55 سال گزر چکے ہیں۔ 26 نومبر کے روز ہی اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان نے لاہور سے پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز کیا۔ جہاں سے شائع ہونے والے ڈرامے اپنی مثال آپ تھے کیونکہ یہ اپنے مقصد کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے سماجی برائیوں اور معاشرے کا حقیقی عکس عوام تک پہنچا رہے تھے ۔ ۔جو عوام کے لئے کافی سبق آموز تھے۔ خاص طور سے یہ جاننے کے لیے کہ معاشرے میں کس کس طرح کی برائیاں عام ہوچکی ہیں لہٰذا اپنی اولاد کی تربیت کیسے کی جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ان ڈراموں نے آپنے دیکھنے والوں کو اپنا دیوانہ بنالیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ جس وقت ان کو دیکھنے کا وقت ہوتا تو گلی، محلوں اور سڑکوں پر سناٹا چھا جاتا۔ "خدا کی بستی"، "وارث"، "دیواریں"، "الف نون"، "فٹی فٹی"، "اندھیرا اجالا"، "ان کہی"، "تنہائیاں"، "دھوپ کنارے" اور "کشکول" جیسے ڈرامے اپنی مثال آپ تھے۔ پی ٹی وی کے ان ڈراموں کی بدولت معاشرے کی صحیح معنوں میں عکاسی ہوتی تھی جس سے انسان کی سوچ میں مثبت تبدیلی آتی تھی ان ڈراموں میں کسی قسم کی عریانیت یاا فحاشی کا نام و نشان تک نہ تھا۔

مگر جیسے جیسے شوبز انڈسٹری ترقی کرتی گئی ویسے ویسے اپنی نشرو اشاعت کے ذریعے اس نے عریانی اور فحاشی پھیلانے کا کام شروع کر دیا اور اب پاکستانی ڈرامے اس قابل نہیں رہے کہ انہیں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا جاسکے۔ ڈراموں کے ساتھ ساتھ بے حیائی کو فروغ دینے کا کردار اشتہارات نے بھی بخوبی نبھایا ہے جو آجکل ہر چینل پر نظر آ رہے ہیں۔ صابن، شیمپو اور خوشبوؤں کے اشتہارات نے تو حد ہی پار کردی ہے مگر اس پر بند باندھنے والا کوئی نہیں۔ اور اس کے خطرناک اور بدترین نتائج ہماری نوجوان نسل کی تباہی وبربادی ہے۔ حال ہی میں مکمل ہونے والے ڈراموں کے سرفہرست نام "اڈاری"، "میری گڑیا" اور"حیوان" سمیت ایسے بہت سے ڈرامے شامل ہیں جن کا موضوع جنسی استحصال ہے۔

ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری نے بھی بے حیائی پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ان میں سرفہرست "جوانی پھر نہیں آنی" اور "رونگ نمبر" ہے ان فلموں میں بولی وڈ کی طرح غیر اخلاقی سینسز اور آئٹم نمبر موجود ہیں۔ کیونکہ ان فلمز کو بنانے والے ڈائریکٹر یہ بات جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام بالی وڈ فلموں کی کتنی شوقین ہیں لہٰذہ اس نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری نوجوان نسل کے لئے تباہی و بربادی کا سامان تیار کیا ہے۔

نیز یہ کہ ہماری ڈرامہ انڈسٹری نے محرم اور نامحرم کے فرق کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔ عورتوں کو ڈوپٹے کی قید سے آزاد، ماڈرن اور نامناسب لباس میں دکھانے کے ساتھ ساتھ رشتوں کی بے حرمتی کرنا بھی دکھائی ہے پھر چاہے وہ ماں کی ہو یا بہن کی، بیٹی کی ہویا پھر بہو کی۔ اس کے علاوہ مختلف ایوارڈ شوز میں پاکستانی اداکاراؤں کا نامحرم مردوں کے ساتھ اور نامحرم مردوں کے سامنے رقص کرنا ہماری نوجوان نسل کو شوبز میڈیا کے ذریعے بیہودگی کی طرف دعوت دینا ہے۔

حیا ایمان کا حصہ ہے۔ برائی کی تشہیر کرنا یعنی برائی کو عام کرنا ہے۔ میں پیمرا سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ اس پر جلد ازجلد قانونی کاروائی کرکے میڈیا پر کھلم کھلا اس بے حیائی کو روکا جائے وگرنہ یہ معاشرہ نجاست اور بے ہودگی کی آماجگاہ بن جائے گا۔

Fareeha Niazi
About the Author: Fareeha Niazi Read More Articles by Fareeha Niazi: 3 Articles with 3154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.