جب کوئی قوم عیش و عشرت میں
مبتلا ہوجاتی ہے تو اسے اللہ کے نیک بندوں کی نصیحتیں بری لگنے لگتی ہیں۔
دنیا کی چمک دمک میں انھیں اپنا انجام دکھائی ہی نہیں دیتا۔ جب یہی حالت
بنی اسرائیل کی قوم کی ہوگئی تو ایسے حالات میں اللہ کے نبی حضرت دانیال
علیہ السلام پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنی قوم تک اللہ کا یہ پیغام پہنچا رہے
تھے کہ ،میری قوم کے لوگوں! ”غفلت اور کاہلی کو چھوڑ دو۔ اس غفلت کا نتیجہ
بہت برا ہے۔ اپنے حال پر رحم کرو اور اللہ کی نافرمانیاں چھوڑ دو، ورنہ
تباہ و برباد ہوجاﺅ گے ۔ چند دنوں کے عیش و عشرت کی وجہ سے اپنی قوم کو داﺅ
پر مت لگاﺅ۔ اس تعیش کو چھوڑ دو، اپنی دولت کو اللہ کے حکم کے مطابق
استعمال کرو، نفس پرستی سے باز آجاﺅ، اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔“
لیکن اس قوم کے لوگوں کی ہٹ دھرمی میں کوئی فرق نہ آیا ۔ چنانچہ نبی ؑ کی
تعلیمات کو پس ِپشت ڈالنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنی اسرائیل کی قوم پر ایک
ظالم بادشاہ بخت نصر مسلط ہوگیا۔یہ عراق کا بادشاہ تھا اور سورج کو خدا
مانتا تھا۔ اس نے بنی اسرائیل پر حملہ کر کے 70ہزار افراد کو موت کے گھاٹ
اتار دیا ، عورتوں کو تہہ تیغ کردیا ، گھروں میں گھس کر عورتوں کے پیٹ چاک
کردیئے اور بچوں کو نیزوں پر لٹکایا۔ تورات کے مقدس اوراق کو جوتوں کے نیچے
روندا۔ بیت المقدس میں گندگی اور نجاست ڈلوائی۔اور ہزاروں افراد کو گرفتار
کرلیا ان میں حضرت دانیال علیہ السلام بھی تھے۔ ان کی بھی مشکیں کسی گئیں
اور زندان میں قید کردیا گیا۔
حضرت دانیال علیہ السلام نے اپنی قوم کے گرفتار ہونے والے افراد سے خطاب
کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہیں اسی دن سے ڈراتا تھا۔ اب بنی اسرائیل کو ہوش
آیا اور کہنے لگے کہ ہم توبہ کرتے ہیں ، آئندہ کبھی نافرمانی اور غفلت نہیں
کریں گے۔ حضرت دانیال علیہ السلام نے فرمایا ‘ اب توبہ سے کیا ہوتا ہے۔
انبیاء علیہ السلام کی شفقت اپنی قوم کے لئے ماں باپ کی شفقت سے بھی زیادہ
ہوتی ہے۔ آپ ؑ نے جب اپنی قوم کو توبہ کی مائل دیکھا تو بارگاہِ خداوندی
میں دعا فرمائی، اور اپنی قوم کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے اللہ رب العزت
سے التجا کی۔ نبی چونکہ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں ۔چنانچہ آپ ؑ کی دعا قبول
ہوگئی اور رہائی کے اسباب ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔
حضرت دانیال علیہ السلام چونکہ نبی تھے ۔ آپؑ کے چہرے پر نبوت کے نمایاں
جلال و جمال اور زہد وتقویٰ کے آثار دیکھ کر قید خانہ کا داروغہ بے حد
متاثر ہوا ، اور اللہ کے نبی ؑ کی عزت اور تعظیم شروع کردی۔ آپ ؑ کو قید
خانہ میں عبادت اور ریاضت کی آزادی دیدی گئی۔ آپؑ کے درس و تعلیم کے نتیجہ
میں قید خانے میں اللہ کے ذکر کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ منظر
دیکھ کر قید خانہ کا داروغہ اور اس کے سپاہی حضرت دانیال علیہ السلام کے
معتقد ہوگئے اور انھیں قید خانہ میں ہر طرح کی سہولتیں ملنے لگیں۔
ان ہی دنوں بخت نصر نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا اور جب صبح اٹھا تو وہ
خواب بھول گیا ۔ یہ خواب نہایت ڈراﺅنا اور ہیبت ناک تھا جس نے بخت نصر کا
سکون و اطمینان برباد کردیا۔ وہ بے حد فکر مند تھا،خواب کی تعبیر پوچھنے کے
لئے ضروری ہے کہ خواب معلوم ہو ، خواب بتائے بغیر تعبیر کا کیسے پتہ چلے گا؟
چنانچہ اس نے اپنے دربار میں نجومیوں ، کاہنوں اور تعبیر بتانے والوں کو
طلب کیا اور ان سے کہا کہ میرے خواب کی تعبیر بتاﺅ۔ انھوں نے کہا کہ آپ
خواب کے بارے میں بتائیے کہ آپ نے کیا دیکھا تھا۔ بخت نصر نے جواب دیا کہ
خواب تو میں بھول گیا ہوں ۔ تعبیر بتانے والوں نے کہا کہ خواب سنے بغیر ہم
تعبیر کیسے بتائیں تو بخت نصر نے ان سے کہا ویسے تو تم غیب دانی کے بڑے
دعوے کرتے ہو۔ میرے خواب کا پتہ نہیں چلا سکتے؟ تین دن کے اندر میرا خواب
اور اس کی تعبیر بتاﺅ ، ورنہ تمہیں تمہارے خاندانوں سمیت قتل کر دونگا۔ اب
تو یہ سب بڑے پریشان ہوئے کہ خواب سنے بغیر اس کی تعبیر کیسے بتائیں اور
اگر تعبیر نہیں بتاتے تو جان جانے کا خطرہ ہے ،آج برے پھنسے۔
یہ خبر پھیلتے پھیلتے قید خانے میں حضرت دانیال علیہ السلام تک جا پہنچی۔
آپ ؑ نے قید خانے کے داروغہ سے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ بادشاہ نے کیا خواب
دیکھا ہے اور اس کی تعبیر بھی جانتا ہوں۔ آپ جاکر بادشاہ کو میرے بارے میں
جاکر بتائیں کہ میں ان کی پریشانی کا حل جانتا ہوں۔ داروغہ نے جاکر بادشاہ
کو اطلاع دی کہ آپ جس الجھن میں گرفتار ہیں اس کا حل میرے قید خانے کے ایک
قیدی کے پاس ہے۔ جو بہت ہی ذہین ہے اور میں نے آج تک ایسی ذہانت اور فراست
والا انسان نہیں دیکھا، جو آپ کا خواب بھی جانتا ہے اور اس کی تعبیر بھی۔
بادشاہ نے بڑی حیرت سے داروغہ سے پوچھا کہ وہ میرا خواب بھی جانتا ہے۔
داروغہ نے کہا ، جی ہاں۔ بادشاہ نے کہا تو پھر جلدی سے اسے رہا کر کے عزت و
احترام سے ساتھ میرے دربار میں پیش کرو تاکہ میں اس پریشانی سے نجات حاصل
کروں ۔ اگر اس قیدی نے میرا خواب اور اس کی تعبیر ٹھیک ٹھیک بتا دی تو تیری
ترقی تو ہوگی ہی اور تجھے انعام واکرام سے بھی نوازا جائے گا۔
داروغہ نے بادشاہ کا حکم سن کر حضرت دانیال علیہ السلام کو نہ صرف رہا کیا
بلکہ عمدہ لباس پہنوا کر بادشاہ کے دربار میں چلنے کے لئے کہا۔ داروغہ بے
حد خوش تھا کہ اس عظیم المرتبت قیدی کی وجہ سے بادشاہ کی نظروں میں میرا
مقام بھی بلند ہوجائے گا اور انعام سے بھی نوازا جاﺅں گا۔
حضرت دانیال علیہ السلام بادشاہ کے دربار میں تشریف لے گئے۔ دربار میں امرا،
نجومی اور کاہن وغیرہ سب موجود تھے ۔ ان کی بھی جان میں جان آگئی کہ اچھا
ہوا کہ خواب کی تعبیر بتانے والا آگیا اور ہماری جان بچ گئی۔ ورنہ ہم سب کو
قتل کردیا جاتا۔ حضرت دانیال علیہ السلام نے اپنے مذہب کے مطابق سلام کیا ۔
بادشاہ نے بڑی عزت و احترام کے ساتھ حضرت دانیال علیہ السلام کو اپنے پاس
بٹھایا اور تمام درباریوں کو رخصت کردیا تاکہ اکیلے میں حضرت دانیال علیہ
السلام سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھ سکے۔ اب دربار میں بادشاہ ، داروغہ اور
حضرت دانیال علیہ السلام تھے۔
بخت نصر بادشاہ نے حضرت دانیال علیہ السلام سے کہا کہ سب سے پہلے میں آپ سے
ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں، اور وہ یہ ہے کہ میرے دربار کا قاعدہ ہے کہ جو
شخص میرے دربار میں حاضر ہوتا ہے وہ پہلے مجھے سجدہ کرتا ہے لیکن آپ ؑ نے
مجھے سجدہ نہیں کیا۔ کیوں؟ حضرت دانیال علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے
تجھے قصداََ تجھے سجدہ نہیں کیا ، اس لئے کہ سجدہ نہ کرنے میں میرا بھی
فائدہ تھا اور تیرا بھی۔ اگر میں سجدہ کر لیتا تو میں بھی مارا جاتا اور تو
بھی۔ بادشاہ نے کہا وہ کیسے؟ حضرت دانیال علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا
ایک رب ہے اس نے مجھے ایک علم دے رکھا ہے اور اگر میں سجدہ کر لیتا تو وہ
مجھ سے ناراض ہوجاتا اور اپنا دیا ہوا علم مجھ سے چھین لیتا ، یہ تو میرا
نقصان ہے ۔ اور جس علم کی وجہ سے میں آپ کا خواب جانتا ہوں ، جب وہ علم ہی
میرے پاس نہیں رہتا تو تجھے تیرے خواب کی تعبیر کیسے بتاتا۔ اور تو جس
پریشانی میں مبتلا ہے اس سے نجات کی کوئی صورت نہ تھی،یہ تیرا نقصان تھا۔
اس لئے میں نے تجھے سجدہ نہیں کیا تاکہ میں بھی سلامت رہوں اور تو بھی
سلامت رہے۔
بادشاہ نے حضرت دانیال علیہ السلام کے ہاتھ چوم لئے اور کہا کہ آپ ؑ جیسا
دانشمند انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ تو کیا واقعی آپ کو میرا خواب
معلوم ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں واقعی مجھے خواب معلوم ہے اور اس کی تعبیر بھی۔
بادشاہ نے کہا تو پھر جلدی کریں ، میں اس خواب کی وجہ سے بہت بے چین ہوں۔
حضرت دانیال علیہ السلام نے فرمایا کہ ”تو نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ
آسمان اور زمین کے درمیان ایک بہت بڑا بت ہے جس کا سر آسمان سے اور پیر
زمین سے لگے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک کندھا مشرق میں ہے اور دوسرا کندھا مغرب
میں ہے ۔ پوری فضا اس سے گھری ہوئی ہے ۔ تو حیرانی سے اس کو دیکھ رہا ہے کہ
یہ بت کتنا خوبصورت بنایا گیا ہے۔ اور بنانے والا کتنا بہترین کاریگر ہے۔
اس بت کا حلیہ یہ ہے کہ اس کا چہرہ تو سونے کا ہے اور سینہ چاندی کا۔ اس کا
پیٹ پیتل کا ہے اور رانیں تانبے کی۔ اس کی پنڈلیاں لوہے اور سیسے کی ہیں
اور پاﺅں مٹی کے ہیں۔ ہر دھات الگ الگ چمک رہی ہے ۔سونا سب سے زیادہ قیمتی
ہے اور سب سے اوپر ہے۔ چاندی اس سے کم قیمت ہے اور سونے سے نیچے ہے۔ اسی
طرح تانبا اس سے نیچے ہے۔ لوہا اس سے نیچے اور مٹی سب سے نیچے ہے۔ جو سب سے
کم قیمت ہے۔ تو ابھی اسی حیرت میں تھا کہ ایک اور عجوبہ تیرے سامنے آیا،تو
نے دیکھا کہ آسمان سے ایک پتھر سیدھا اس بت کے اوپر گرا ، اور بت ریزہ ریزہ
ہوگیا ، بت میں جتنی بھی دھاتیں تھیں سب آپس میں خلط ملط ہوگئیں، نہ سونا
رہا نہ چاندی۔ سب مل جل کر ایک ہوگئیں۔ لیکن اسکے باوجود ہر دھات کے ذرّات
کی الگ الگ چمک واضح دکھائی دے تھی۔ تجھے مزید حیرت ہوئی کہ یہ پتھر کیا ہے
جس کی ایک ضرب نے اتنے بڑے بت کو چکنا چور کردیا ہے۔ پھر تو نے دیکھا کہ وہ
پتھر پھیلنا شروع ہوا اور پھیلتے پھیلتے ساری فضا میں پھیل گیا ۔ پھر تیری
آنکھ کھل گئی۔
بادشاہ نے کہا کہ میں اپنے رب کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا خواب یہی تھا۔
آپ نے خواب بیان کرنے میں نہ کمی کی ہے اور نہ اضافہ کیا ہے۔ اب برائے کرم
مجھے میرے خواب کی تعبیر بتا دیجئے۔ حضرت دانیال علیہ السلام نے فرمایا
سن!مختلف دھاتوں سے بنا ہوا جو بت تو نے دیکھا یہ دنیا کی مختلف قومیں ہیں۔
سب سے اوپر جو سونا دیکھا وہ تیری عراقی قوم ہے، جس میں سب سے پہلے تمدن
آیا ، جو سب سے متمدن ہے جو سونے کی طرح چمک رہی ہے۔ تیرے جانے کے بعد
دوسری قوم آئے گی جو تیرے بیٹے کی ہوگی۔ وہ تمدن میں تیری قوم سے ایک درجہ
کم ہوگی اور یہ جو تم نے پیتل دیکھا ہے یہ زرد رنگ کی قومیں ہیں جیسے چینی
اور جاپانی وغیرہ۔ اور تانبے سے مراد حبشیوں کی طرح سیاہ فام قومیں ہیں۔
اور تم نے جو مٹی دیکھی ہے اس سے مراد یہ ہے کہ دو ملکہ پیدا ہونگی اور
دونوں اپنے زمانے کی بادشاہ ہونگی لیکن بہت کمزور حالت میں ہوں گی اور تیری
قوم سب سے زیادہ بلند مرتبہ اور یہ آخری قوم سب سے زیادہ پست ہوگی جس کو
کوئی عزت کی نگاہ نہیں دیکھے گا۔یہ مختلف قومیں اونچ نیچ کے تصورات میں
مبتلا تھیں اور آپس میں دست و گریباں تھیں اور ایک دوسرے سے اپنی اہمیت
منوانے میں مصروف تھیں کہ اچانک اوپر سے ایک پتھر گرا ، یہ پتھر خاتم
النبین صلی اللہ علیہ وسلم کا دین ہے جس نے آکر تمام قومیتوں پر کاری ضرب
لگائی اور ان میں پائی جانے والی اونچ نیچ کو ختم کر کے سب کو ایک کردیا
اور سب میں مساوات قائم کردی۔پھر تو نے دیکھا کہ وہ پتھر پھیلنا شروع ہوا
اور پوری فضا میں پھیل گیا۔ یہ اس آخری نبیﷺ کے دین کا انجام ہے جو بالآخر
پوری دنیا میں پھیل جائے گا۔ یہ ہے تیرے خواب کی تعبیر۔
بادشاہ نے حضرت دانیال علیہ السلام کے ہاتھ چومے اور کہا کہ میں نے دنیا
میں آج تک اتنا بڑا دانشمند اور کامل انسان نہیں دیکھا۔میں آج سے حکم جاری
کرتا ہوں کہ کہ میری سلطنت کا کوئی کام تیرے مشورے کے بغیر نہیں ہوگا۔ میرا
کوئی بھی حکم اس وقت تک قابل عمل نہیں ہوگا جب تک اس پر تیرے دستخط نہیں
ہوں گے۔ چنانچہ حضرت دانیال علیہ السلام عملاََ خود بادشاہ ہوگئے اور پھر
اپنی گرفتار قوم کو بھی رہائی دلوائی۔(ماخوذ: خطبات حکیم الاسلام جلد ۴ صہ۹۴۱)
حقیقت یہی ہے کہ جو لوگ اللہ کے احکام کی فرمانبرداری اور نبی علیہ السلام
کی تعلیمات کو اپنا لیتے ہیں اور انکے نقش قدم پر اپنی راہ گامزن کردیتے
ہیں وہی دنیا میں سکون و عافیت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے
احکام اور اس کے نبیﷺ کی تعلیمات کو چھوڑ کر شیطان کی فرما نبرداری کرتے
ہیں ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔اللہ ایسی قوموں پر ظالم اور بے حس
حکمران مسلط کردیتا ہے جو انکے حقوق کو پامال کرتے ہیں غرض کہ ان کی زندگی
جہنم بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا فرمانبردار بنائے اور نبی کریم
ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب مسلمانوں کے
درمیان محبت ، اخوت اور ایثار پیدا فرمائے ۔آمین |