مولانا مفتی محمد منصور احمد
گزشتہ دنوں جس وقت کرکٹ کا مقابلہ موہالی میں گرم تھا ،پوری قوم نے پوری دل
جمعی اور یک سوئی کے ساتھ اس کو پاکستان میں بیٹھ کر دیکھا اور سنا۔سب سے
پہلے تو میں اس قوم کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں جس کے قیمتی ترین افراد
دشمنوں کے قید خانوں میں سسک رہے ہیں ،خوفناک خطرات کے سائے جس کی سرحدات
پر منڈلا رہے ہیں، جو بیک وقت ظالم حکمرانوں اور غربت ومہنگائی کی چکی کے
دوپاٹوں کے درمیان پس رہی ہے اور سب سے بڑ ھ کر یہ کہ جس قوم کی مقدس کتاب
کو نذر آتش کیا جارہا ہے ،وہ قوم متفق اور متحد ہوئی تو کس مسئلے پر؟ایک
لغو ،بیہودہ اور بیکار کھیل کی ہار جیت کے مسئلے پر ۔میں نے اس دن شام کو
جہلم سے راولپنڈی تک سفر کیا تو شاہراہوں پر ہر طرف سناٹا ہی سناٹا تھا ،دکانیں
بھی عام طور پر بند ہی تھیں جو ایک آدھ کھلی تھیں وہ بھی صرف دعوت نظارہ
دینے کے لیے ۔بس اسی صورت حال کو سوچ کر اور قوم کے اس عجیب وغریب مزاج کو
دیکھ کر چند باتیں جو زبان قلم پر آئیں ،القلم کے قارئین کے لیے پیش خدمت
ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے اور اُن میں سے ہر نعمت
ایسی ہے کہ دنیا میں اُس کا کوئی نعم البدل موجود نہیں ۔ عام طور پر انسان
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے بارے میں ناشکری اور ناقدری میں مبتلا ہوتا ہے ۔
جب تک کوئی نعمت ہمارے پاس موجود رہتی ہے ‘ ہمیں اُس کی صحیح قدر و قیمت کا
اندازہ نہیں ہوتا ‘ جب ہم اُس نعمت کو کھو دیتے ہیں تب ہمیں پتہ چلتا ہے کہ
کتنی بڑی دولت تھی جس سے ہم محروم ہو گئے ۔ عقل مند لوگ وہ ہیں جو ہر وقت
اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا احساس کرتے ہیں اور پوری قدردانی سے انہیں اُس کی
پسندیدہ جگہوں میں استعمال کرتے ہیں۔وہ ان نعمتوں کا شکر ادا کر کے اَجر
کماتے ہیں اور ان کے ذریعے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ ذخیرہ آخرت جمع کرتے
ہیں ۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث پاک میں خصوصی طور پر دو بے
بہا نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انسان کو موت سے پہلے چوکنا اور بیدار کیا ہے
:
’’ نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس‘ الصحۃ والفراغ ‘‘
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں زیادہ تر لوگ نقصان میں پڑے ہوئے ہیں ‘ وہ دو
نعمتیں صحت اور فراغت ہیں ‘‘۔
یہ وہ عظیم حدیث پاک ہے جس سے امام بخاری(رح) نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں
’’ کتاب الرقاق ‘‘ کا آغاز فرمایا ہے ۔ اسی طرح امام عبداللہ بن مبارک(رح)
بھی اپنی کتاب ’’ کتاب الزہد ‘‘ میں سب سے پہلے یہی حدیث پاک لائے ہیں ۔
امام ترمذی (رح) نے ’’کتاب الزہد ‘‘ میں اور امام ابنِ ماجہ (رح) نے ’’باب
الحکمۃ ‘‘ میں بھی اس کو نقل فرمایا ہے ۔
علامہ بدرالدین عینی (رح) اس حدیث پاک کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ مغبون کا لفظ یا تو الغبْن ﴿ با پر جزم کے ساتھ﴾ سے نکلا ہے جس کا مطلب
ہے رائے کا نقصان ۔ گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتا رہے ہیں کہ جس نے ان
دونوں نعمتوں ﴿صحت اور فارغ البالی﴾ کو صحیح استعمال نہ کیا تو وہ ان میں
نقصان اٹھائے گا . پس جو شخص اپنی صحت کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت
کے کام نہیں کرتا تو وہ بیماری کی حالت میں تو بالکل ہی نہیں کرے گا ۔ اسی
طرح جو فراغت میں اطاعت نہیں بجا لاتا ‘ وہ مشغولیت میں بھلا کیسے یہ کام
کرے گا ۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ایسا شخص بغیر کسی عمل کے نقصان اور خسارے میں
پڑا رہ جائے گا ۔ پھر یہ دیکھو کہ انسان کبھی تندرست تو ہوتا ہے لیکن
دنیاوی کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے عبادات کیلئے فارغ نہیں ہو سکتا اور
کبھی اس کا الٹ ہوتا ہے کہ فارغ ہوتا ہے مگر صحت ساتھ نہیں دیتی ۔ جب یہ
تندرستی اور فراغت دونوں اکٹھی ہو جائیں اور پھر بھی انسان فضائل کے حاصل
کرنے میں کوتاہی سے کام لے تو یہ واقعی بہت بڑا نقصان ہے ۔ یہ نقصان کیوں
نہ ہوں؟ دنیا تو ہے ہی آخرت کی تجارت اور نفع کمانے کی جگہ ۔ ﴿ جب دنیا میں
صحت اور فراغت کی قدر نہ کی تو نقصان لازمی ہو گا ﴾ ﴿عمدۃ القاری ۳۲/ ۶۴
طبع بیروت ﴾
علامہ ابن حجر عسقلانی (رح) اس حدیث پاک کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ علامہ طیبی(رح) نے فرمایا ہے کہ اس حدیث پاک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہر مکلف انسان کو ایسے تاجر کے ساتھ تشبیہ دی ہے جس کے پاس بنیادی
سرمایہ ہوتا ہے اور وہ اُس کی سلامت رکھنے کے ساتھ اُس پر نفع بھی کماتا ہے
۔ ایسے تاجر کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ جس سے معاملہ کرتا ہے پورے غورو
فکر سے کام لیتا ہے اور اپنے معاملات میں سچائی اور مہارت کو لازم پکڑتا ہے
تاکہ اُس کو نقصان نہ اٹھانا پڑے ۔ پس صحت اور فراغت تو انسان کا اصل
سرمایہ ہیں اور اس کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان ‘ نفس کے خلاف
کوشش اور دین کے دشمنوں کے خلاف جہاد کے ذریعے معاملہ کرے ۔ تاکہ وہ دنیا و
آخرت کی خیر نفع میں حاصل کرلے ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد مبارک کا بھی
قریب قریب یہی مطلب ہے :
’’ ھل ادلکم علی تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم‘‘
﴿ کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہیں درد ناک عذاب سے
بچالے ﴾ ﴿ الصف ۰۱﴾
انسان پر لازم ہے کہ وہ نفس کی پیروی سے بچے اور شیطان سے معاملہ کرنے سے
پرہیز کرے تاکہ اُس کا بنیادی سرمایہ اور نفع دونوں برباد نہ ہو جائیں ۔
حدیث پاک میں یہ جو فرمایا گیا کہ زیادہ تر لوگ ان دونوں نعمتوں کے بارے
میں نقصان میں پڑے ہوئے ہیں تو یہ وہ ہی بات ہے جو اس آیت مبارکہ میں ارشاد
فرمائی گئی ہے:
’’ و قلیل من عبادی الشکور ‘‘
﴿ اور میرے بندوں میں سے بہت ہی تھوڑے شکر گزار ہیں﴾ ﴿ السبا.۳۱﴾
اس حدیث میں جو لفظِ ’’ کثیر ‘‘ ہے ‘ وہ اس آیت کے لفظِ ’’ قلیل ‘‘ کے
مقابلے میں ہے ۔
﴿فتح الباری ۱۱/ ۶۷۲﴾
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک اور اُس کی تشریحات سے ہمیں
پتہ چلتا ہے کہ تندرستی اور فارغ البالی کتنی عظیم نعمت ہیں ۔ اگر یہ دو
نعمتیں نہ ہوں تو تمام دنیاوی نعمتوں کا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے ۔ جب انسان
بیمار ہوتا ہے تو آپ اُس کے سامنے انواع و اقسام کے کھانے رکھ دیں ‘ وہ اُن
سے لطف اندوز نہیں ہو سکے گا ۔ آپ اُس کو لطائف و قصائد سنائیں ‘ وہ اُن سے
محظوظ نہیں ہو سکے گا ۔ اسی طرح جو شخص مصروف ہو تا ہے اُسے بھی دنیا جہان
کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی اور اُس کیلئے ہر چیز بے مزہ اور بے کار ہوتی ہے ۔
جب یہ پتہ چل گیا کہ صحت اور فراغت کتنی عظیم نعمت ہیں تو چاہیے تو یہ تھا
کہ تمام انسان دل و جان سے ان کی قدر کرتے لیکن ہوتا یہ ہے کہ انسان سمجھ
بیٹھتا ہے کہ شاید میں ہمیشہ ایسا ہی صحت مند اور فارغ البال رہوں گا۔ یہ
سوچ کر وہ اپنی عمرِ عزیز ضائع کرتا رہتا ہے۔ آنکھیں اُس وقت کھلتی ہیں جب
یہ دونوں نعمتیں یا ان میں سے کوئی ایک چھن جاتی ہے ۔ لیکن!
اب پچھتائے کیا ہوت
جب چڑیا چگ گئیں کھیت
میرے عزیز دوستوں! ہمارے پاس اپنی اس فانی زندگی میں یہ دونوں نعمتیں
فراوانی سے ہوتی ہیں لیکن ہم کتنی بے دردی سے ان کو ضائع کرتے ہیں ؟ اس کو
بتانے کیلئے کسی لمبی بات چیت کی ضرورت نہیں ‘ ہم میں سے ہر ایک اپنے دن
رات کا جائزہ لے کر اور اپنے معمولات کا محاسبہ کر کے یہ حساب کتاب کر سکتا
ہے ۔ پھر اگر دل میں کچھ احساسِ زیاں دل میں پیدا ہو جائے تو پہلے سے ہوئے
نقصان کی تلافی بھی کی جاسکتی ہے ۔
ہاں ! چلتے چلتے آپ کو اپنے اسلاف کا ایک واقعہ ضرور سنا دیتے ہیں جس سے آپ
کو پتہ چلے گا کہ وہ حضرات جس مقام اور مرتبے تک پہنچے صرف تمناؤں اور
آرزوؤں سے نہیں بلکہ ان دونوں نعمتوں کی قدردانی سے پہنچے ۔
ابن ابی حاتم الرازی (رح) فرماتے ہیں کہ ہم تحصیل علم کیلئے مصر میں سات
ماہ ٹھہرے اور اس دوران ہم نے سان نہیں کھایا ۔ ﴿ صرف روٹی پر گزارا کیا ﴾
کیونکہ ہمارا پورا دن اساتذہ و مشائخ کی مجالس کیلئے تقسیم تھا اور رات کو
ہم اسباق لکھتے اور آپس میں اُن کا تقابل کرتے۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ
ہم ایک استاذ کے پاس گئے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہیں ۔
﴿ ہمیں یہ فرصت ملی ﴾ تو ہم نے اپنے راستے میں دیکھا کہ ایک بہت اچھی مچھلی
فروخت ہو رہی ہے ۔ ہم نے وہ خریدی اور گھر آگئے ۔ اتنے میں ایک اور استاذ
کی خدمت میں حاضری کا وقت ہو چکا تھا ۔ اس لیے اُسی مچھلی کو صاف کرنے اور
پکانے کا موقع ہی نہیں مل سکا اور ہم سبق کیلئے چلے گئے ۔ مچھلی اسی طرح
تین دن رکھی رہی ۔ اب وہ خراب ہونے لگی تھی ﴿ بظاہر سخت سردی کا موسم ہو گا
ورنہ تو مچھلی خراب ہونے کیلئے ایک دن بھی کافی ہے ۔ از ناقل﴾ جب ہمیں
بالکل وقت نہیں ملا تو ہم کچی مچھلی ہی کھا گئے لیکن اتنی فرصت بھی نہ پائی
کہ کسی اور کو ہی پکانے کیلئے دیدیتے۔
آخر میں آپ نے فرمایا : ’’ یاد رکھو ! علم کبھی بھی جسم کی راحت اور آسائش
کے ساتھ حاصل نہیں ہو سکتا ‘‘ ۔
﴿تذکرۃ الحفاظ ۳/ ۰۳۸﴾
آئیں ! آج سے ہم ایک ڈائری لیں اور روزانہ جتنا وقت ضائع کرتے ہیں ‘ وہ اُس
میں لکھتے جائیں ۔ پھر ہر جمعے کے دن حساب کریں کہ ہم نے پورے ہفتے کتنا
وقت کار آمد مصروفیات میں لگایا اور کتنا ضائع کیا ؟ تاکہ ہمیں پتہ چل جائے
کہ کہیں ہم بھی تو اس حدیث پاک کے مطابق نقصان اٹھانے والوں میں سے نہیں
ہیں ؟ اللہ نہ کرے کہ ہم اُن میں سے ہوں ۔﴿آمین﴾
٭٭٭ |