تحریر:حافظہ لبنیٰ عنائیت،سرگودھا
آہ!افسوس کہ آج انسان میں سے انسانیت ختم ہوگئی آج ہرطرف انسانوں کے روپ
میں درندے گھوم پھررہے ہیں،جس مخلوق کواشرف المخلوقات کہا گیا آج اسی اشرف
المخلوقات نے درندوں کا روپ دھارلیا،آج قطعہ ارض سے جنگلات کا خاتمہ کیا
جارہا ہے،کیونکہ خطرناک درندے انسانوں کی شکل میں پوری دنیا میں پھیل چکے
ہیں،یہ انسانی شکل کے درندے جنگلی جانوروں سے زیادہ خطرناک ہیں،ان کی زندگی
میں رحم کا کوئی عنصرموجودنہیں ہوتا،ان کی دھڑکنیں بے درددھڑکتی ہیں ایسے
ظالم لوگوں کے نزدیک کسی دوسرے کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی،یہ ظالم
اپنی بھڑکتی آگ بجھانے کے لئے کئی معصوم لوگوں کی جان لینے پراترآتے ہیں،ان
ستم گروں کواپنے یہ جرم اپنی کامیابی لگتی ہے،اوریہ لوگ اپنے جرم پرشرمندہ
ہونے کی بجائے اپنی بے باک حرکت پرخوشی محسوس کرتے ہیں حیرت کی بات ہے
انتقام کی آگ میں کئی سالوں سے جلنے والے یہ ظالم لوگ بے رحم ہونے کے ساتھ
ساتھ بزدل بھی ہوتے ہیں یہ اپنے جیسوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے معصوم
اورننھی جانوں سے کھیلتے ہیں،اے ظالموں مگرتم اتنا بڑا جرم کرنے کی ہمت
رکھتے ہوتوپھران ننھی زندگیوں سے ہی کیوں کھیلتے ہو،جن کے والدین نے اپنی
اولاد کے لئے کئی سپنے سجائے ہوئے ہوتے ہیں،جنہوں نے خوداپنے مستقبل کے لئے
کئی خواب دیکھے ہوئے ہوتے ہیں،جنہوں نے ابھی اپنی زندگی کی رنگینیوں
کودیکھا ہی نہیں ہوتا،اے ستم گروتمہیں کس نے یہ حق دیا،کہ تم ان کم سن بچوں
کی زندگیوں کا گلا گھونٹ دو جن کوابھی تک اس دورکے منافق لوگوں کی منافقت
کا علم ہی نہیں جنہیں بغض ،کینہ اورحسدکا مفہوم معلوم ہی نہیں،ارے یہ
توابھی تک زندگی کا اصل مطلب بھی نہ جان پائے تھے،کہ تم نے پہلے ہی ان سے
ان کی زندگی چھین لی،اب کیا کوئی نہیں ہے اس دھرتی کو ایسے جابرلوگوں سے
صاف کرنے والا کیا کسی میں ہمت نہیں ہے حق اور عدل وانصاف کے لئے
آوازاٹھانے کی،عجب بات ہے کہ فلموں میں توبرائی کی روک تھام کے لئے عین وقت
پرکوئی نہ کوئی ہیروپہنچ جاتا ہے ایسے حقیقت میں کیوں نہیں آتا کوئی
ہیرواصل زندگی میں عین وقت پرکسی ہیروکا پہنچنا تودورکی بات یہاں توکوئی
بعدمیں بھی حق کے لئے آوازنہیں اٹھاتاکوئی حادثہ ہوجانے کے چنددنوں بعد ہی
اس واقعہ پرمٹی ڈال دی جاتی ہے،مجھے بتلائیے کیا کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی
ان جانوں کی جنہیں بے گناہ ہی اس دنیا سے اٹھا دیا گیا کیا ان کوحق دلانے
کے لئے یہاں کوئی عدالت موجودنہیں آخرکیوں بھلا دیا گیا معصوم زینب کے
واقعے کوجوآخری سانس تک مددکے لئے پکارتی رہ گئی اور یقینا آخری لمحات میں
اس کی معصوم صدائیں یہیں ہونگی،اس کے لب پریقینا یہیں الفاظ ہوں گے۔
اب مت گھبرانا میرے پیارے بابا
آئے گا وقت ہمارا بھی بابا
ہوگا انصاف عدالت میں اس کی
جس نے بنایا تھا اس ظالم کوبابا
ارے اب بھی وقت نہیں گیا ابھی بھی کیوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہوکیوں
خاموش ہیں تمہارے انصاف کی عدالتیں آخرکیا قصورتھا اس معصوم شہریارکا؟حیرت
ہوتی ہے مجھے کہ جنہیں سولی پرچڑھا دینا چاہیئے وہ آزاد اس دنیا میں گھو م
رہے ہیں زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں اور جنہیں جینا چاہیئے تھا انہیں آج بے
وجہ ہی موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہے ،میں آج یہ پوچھنا چاہوں گی کہ کیا
علامہ اقبال نے اس لئے خواب دیکھے تھے کہ اقبال کے شاہینوں کوپروازکرنے سے
پہلے ہی شکارکے جال میں پھانس کر موت کے کنوؤں میں پھینک دیا جائے کیا
اقبال کا خواب یہی تھا،کہ بچوں کوان کے خوابوں کی تعبیر دیکھنے سے پہلے ہی
ان کا ان کی زندگیوں سے تعلق ختم کردینا کیا قائداعظم نے اس لئے کوششیں کی
تھیں کہ آپس میں دشمنیاں پیدا کرکے پھرایک دوسرے کے قتل پراترآناکیا
قائداعظم کی کوششوں کا مقصدہمیں صرف غیرمسلموں کے ظلم وستم سے بچانا
تھا،ارے نہیں قائداعظم نے توہمیں ایک آزادزندگی دینے کے لئے اپنی بیماری
کوچھپا کررات دن ایک کرکے پاکستان بنایا افسوس افسوس آج کے مسلمانوں پر اس
دورکے مسلمان غیرمسلم دشمنوں کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں یہ توآپس میں ہی
قتل وغارت پراترآئیں اقبال کے معصوم شاہینوں کوبے قصورہی موت کے کنویں میں
پھینکا جارہا ہے اپنے دل کی تسلی کے لئے ننھی جانوں کو نشانہ بنایا جارہا
ہے آہ کس بے کسی سے ننھے شہریارکواس کے والدین سے چھین لیا گیا کس بے کسی
سے وہ اپنی ماں کوپکارتا رہا ہوگاہائے اس ماں کا کیا حال ہوا ہوگا جواپنے
بچے کوکبھی گرم لونہ لگنے دیتی تھی،جوسردیوں کی شدت سے بچانے کے لئے اپنے
بچوں کو اپنے پہلومیں چھپا لیتی تھی اے قاتل توصرف ایک جرم کا ذمہ دار نہیں
بلکہ تونے تواس کے ماں باپ کوبھی جیتے جی مارڈالااے ظالم جابرتجھے زرا بھی
ترس نہ آیا ہوگا جب وہ دردمیں چلاتا ہوگا اے ظالم گروکچھ تورحم کروکیوں ظلم
کرتے ہوان معصوم ستاروں پہ اے مسلم قوم تمہیں کیا ہوگیا تم کہاں جارہے ہوجس
جہالت کا خاتمہ کیا گیا تھا آج پھرکیوں تم نے اسی جہالت کوہرطرف پھیلا دیا
کیوں تم خواب ٖغفلت کی نیندمیں ڈوب گئے تمہارا ضمیرکیوں مرگیا ایک
بارخودکوپہچاننے کی کوشش کروتمہیں تواشرف المخلوقات کہا گیا ہے اس بات کا
ہمیں کون احساس دلائے کہ تم کتنی عظیم قوم ہواورکتنے عظیم تمہارے رہنماء
تھے اپنے دماغ کی بندکھڑکیوں کوکھولواورایک بارخودکی پہچان کروکیوں چھوٹی
چھوٹی خواہشات پرمعصوم تمناؤں کوننھی زندگیوں کوپروان چڑھنے سے پہلے ہی ظلم
کے صندوق میں بندکرکے ان کی سسکیوں کوبھی دبا دیا جاتا ہے۔
یہ کلیاں توتھیں کھلنے کے لئے
پھرمرجھا کیوں گئیں آمدبہارسے پہلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|