مستقبل ناقابل مصالحت جدوجہد میں

طلباء یونین پر پابندی بالکل ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے مستقبل کو تاریک دیکھنا چاہتے ہیں عظیم روسی انقلاب کے معمار لیین کے الفاظ میں مستقبل اُسی کا ہے جس کے پاس نوجوان ہیں لیکن ریاست پاکستان میں نوجوان طالب علموں پر یونین کی پابندی پر جو جواز گڑ لیے جاتے ہیں اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے یہاں مسلئہ صرف طلباء کی یونین کی بحالی کا نہیں بلکہ ایک طبقے کے مفادات کا تحفظ ہے ایک طبقے کے مستقبل کے مفادات کو سوچی سمجھی سازش کے تحت تاریک کیا جا رہا ہے جس کے پیچھے وہ اجارہ داریاں اور مروسی سیاست ہے جس کو خدشات لاحق ہیں کہیں ہماری حاکمیت ہی ہم سے نہ چھن جائے اس کے ساتھ وہ مقتدر حلقے یہ بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان جیسی ریاست میں کوئی جمہوری عمل شروع ہو پائے نوجوانوں میں ایسی کھیپ تیار ہو جو سیاسی بنیادوں پر تحقیق کریں تنقید کریں جو جان سکیں ایک شہری کے ریاست پر کس قسم کے حقوق ہیں اور اُن کے حقوق پر ڈاکہ کس کس طریقے سے ڈالا جاتا ہے
طلباء سیاست پر پابندی اور اُس کے بعد نوجوانوں کی جو ذہن سازی کی گئی وہ ایک منظم جرائم کے ذریعے پروان چڑھائی گئی ضیائی آمریت کی درندگی محض طلباء یونین کی پابندی کا حکم نامہ ہی نہیں تھا بلکہ اُس کے دست شفقت سے پلنے والے وہ پیٹ ہیں جنہوں نے نہ صرف ضیائی دور میں طلباء یونین کی پابندی کو اخلاقی , سماجی جواز مہیا کیا بلکہ آج تک پرنٹ میڈیا, الیکڑونک میڈیا اور دیگر نصاب کے ذریعے یونیورسٹیوں کالجوں نجی محلفوں حتی کہ طالبعلموں کے والدین کے کانوں میں بھرتے رہے اپنے بچوں کو روکیں وہ پڑھائی پر توجہ دینے کے بجائے سیاست میں دلچسپی لے رہا ہے کہیں اُس کی یہ دلچسپی اُس کا مستقبل ہی اندھیرے کا باعث نہ بن جائے. جبکہ کے سیاست ایک طرح سے سماج سے جوڑے رہنے اور بیگانگی جیسی لعنت سے جھٹکارہ حاصل کرنے اور اجتماعی رویوں کو پروان چڑھانے کا بھی سبب بنتی ہے ایسا بھی نہیں پاکستان میں یونین پر پابندی لگا کر نوجوانوں کو بس کتابیں رٹنے کے لئے چھوڑ دیا گیا بلکہ طبقاتی ہم آہنگی کو دور کرنے کے لیے سیاست کے نام پر فروعی ایجنڈوں کی تکمیل جاری رہی ہے نوجوانوں کو ایک سے دوسرے صوبوں کی ثقافت کو آپس میں باہم نہیں ہونے دیا گیا بلکہ اپنے اپنے صوبے کی کونسلیں بنا کر اُن کونسلوں کے الیکشن بھی کروائے جاتے رہے اور کونسلوں میں ڈنڈا برادر سر غنہ بھی رہے جو طلباء کو ایک سے دوسرے صوبے کے طلباء سے دور رکھنے کے لیے ایسے پروپنگنڈے مقابلہ بازی کے ذریعے تخلیق کروائے گے جس سے طلباء کا ایک دوسرے سے گُل مل جانا ممنوع ہوتا گیا اور پھر نا اھل حکمران جب ہر صوبے میں یونیورسٹیاں کالجز مشترکہ طور پر بنانے میں ناکام ہوئے کہوٹہ سسٹم متعارف تو کروایا لیکن اُس کہوٹہ سسٹم پر بھی بڑھتی ہوئی آبادی اور مہنگائی میں لڑائیاں شروع ہوئیں یہی مقابلہ بازی کی ہی نفسیات ہے آج اگر بلوچ طلباء کا مسلئہ ہے تو دیگر طلباء کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور ایسے دیگر صوبوں کے طلباء کے ساتھ مسلئہ ہے تو بلوچی طلباء کے لیے بھی کوئی خاص مسلئہ نہیں ہوتا اور پھر طلباء یونین کی پابندی کے باوجود یہی ملک پر حکمرانی کرنے والے سیاستدان اُنہی نوجوانوں کو اپنی ذاتی تشہیر شخصیت پرستی نعرہ بازی کے لیے استعمال کرتے اور پچھلے چالیس سالوں سے ان کالجوں یونیورسٹیوں سے اپنے لیڈروں کے استقبال کے لیے ریلیاں بھی نکلتی رہیں لیکن جب جب کہیں انہیں طلباء نظریاتی سیاست کرتے ہوئے بجائے ان کے گن گاتے اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں انہیں طلباء بھی غدار اور دشمن ملک کے ایجنٹ نظر آنے لگتے ہیں-

اس چالیس سال کی پابندی کے باعث آج یہ ریاست ایک دوہرائے پر کھڑی ہے ان چالیس سالوں میں کس کا مستقبل تباہ و برباد ہے کون ایک اذیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے کس طبقے کے بچوں کو مہنگی تعلیم حاصل کرنے کے لیے خود پارٹ ٹائم فل ٹائم محنت بیچنی پڑتی ہے وہ کس کے بچے ہیں جن کو تعلیم تک رسائی ہی نہیں ہے وہ کس کے بچے ہیں جو بڑتی فیسوں سے استحصال کروا رہے ہیں اور وہ کون ہیں جو سمسٹر سسٹم سے تنگ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں اور طالب علمی کے دوران تمام دکھ اذیت سہنے کے بعد وہ کون نوجوان ہیں جو روزگار کی خاطر اس ریاست سے لے کر بیرون ملک میں دھکے کھا رہے ہیں
کس سیاستدان کا بچہ سیاست پر لیکچر نہیں لیتا کون سا سیاستدان ہے جو دنیا کی مہنگی ترین یونیورسٹیوں میں سیاست کی ڈگریاں لینے نہیں جاتا.

اس ریاست میں جن کی حکمرانی ہے اُن کی نام نہاد قربانیوں پر ترانے بنوائے جاتے ہیں ان پر ڈرامے لکھے جاتے ان کی زندگیوں پر فلم کی عکس بندی ہوتی ہے.

لیکن کیا آج اس ریاست میں کوئی ایسا ڈرامہ, فلم چلائی جاتی ہے جس میں دیکھایا جاتا ہو اِس ملک کا نوجوان اپنی نوجوانی میں کس کرب میں زندگی گزار رہا ہے کسی نے دیکھایا نوجوان آج کیونکر نفیساتی مسائل کا شکار ہیں کچھ ایسا دیکھایا جاتا ہے کہ وہ کیا محرکات ہیں نوجوان منشیات اور داہشتگردی جیسی وارداتوں میں کیوں ملوث ہو رہے ہیں نوجوان خود کشیاں بھی کر رہے اعلی تعلیم یافتہ نوجوان گلے میں پھندے ڈال رہے ہیں کبھی کبھار ایسی خبروں کو میڈیا کی زینت بھی بنا دیا جاتا ہے لیکن یہ کبھی نہیں بتایا جاتا یہ خود کشی نہیں ہوئی یہ قتل ہے ریاست نے اِس نوجوان کو وہ مواقع میسر نہیں کیا جس کا وہ حق دار تھا اُس کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا تو وہ دل برداشتہ ہو کر پھندے پر جھول گیا-

جو آج تک مین سٹریم میڈیا پر دیکھایا جاتا رہا چائے وہ سٹیج شو ہو ڈرامہ ہو یا فلم کیا جو اُس میں کردار ڈال دیے جاتے ہیں اُس میں اس ملک کے پچانوے فیصد نوجوانوں کی زندگی سے کوئی تعلق ہے جن ڈراموں اور فلموں کے ڈائیلاگ ہی کڑووں روپیے سے شروع ہوں وہاں عام نوجوان کیا سیکھ رہا ہے کیا سمجھ رہا گویا نوجوانوں کو اجتماعی زندگی جینے دینے کے بجائے انفرادیت اور بے معنی مفروضات میں غرق کیا جاتا ہے اگر وہاں جو چل رہا ہے اس ملک کے نصاب اور کتاب سے تو اکثریت کا تعلق ہی نہیں ہے.

تو پھر کتنی پہلیوں اور لایعنی بحثوں میں اس نوجوان کو بہلایا جا سکتا ہے اس ملک کے نوجوان اگر آج اپنے حقوق کے لیے اپنے مقدر بدلنے اس استحصالی نظام کو آنکھیں دیکھا رہے ہیں تو ٹھیک دیکھا رہے آج اگر نوجوانوں کی تعداد کم ہے تو کل ساری ریاست کے نوجوان یہی سوال کریں گے ہمیں سیاست کا حق دیجیے ہمیں جینے کا حق دیجیے کیونکہ جو نصاب اس ریاست میں پڑھایا جا رہا وہ نصاب زیادہ عرصے تک اس ریاست کے نوجوانوں کو اندھا بہرا رہنے پر مجبور نہیں رکھ سکتا نوجوانوں کو ایک وقت تک علاقوں, برادریوں اور دیگر فروعی ایجنڈوں کے ذریعے تقسیم رکھا جا سکتا ہے لیکن آج ہر نوجوان کے مسائل پہلے سے زیادہ گھمیبر ہوتے جارہے ہیں یہ مسائل مشترک ہیں اور ان کو متحد ہو کر ہی چھینا جا سکتا ہے اور اِس ملک کے نوجوان ہی اس ملک کے مستقبل ہیں اور ایک خوبصورت مستقبل نا قابل مصالحت جدوجہد سے ہی طبقاتی نظام کے خاتمے سے ممکن ہے.

Rashid Baghi
About the Author: Rashid Baghi Read More Articles by Rashid Baghi: 2 Articles with 1120 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.