نقلی انکائونٹر نہیں ۔ اصلی قانون کی ضرورت ہے !!

حیدرآباد کی ڈاکٹر پرینکا ریڈی کی عصمت دری کرنے والے ملزموں کو پولیس نے انکائونٹر کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتاردیا ہے اور آج صبح سے پولیس کی اس کارروائی پر ڈاکٹر پرینکا ریڈی کے اہل خانہ سمیت ملک بھر میں انصاف کا مطالبہ کرنے والے لوگ خوشیاں منارہے ہیں وہیں اس کارروائی کو انجام دینے والے پولیس اہلکاروں کو میڈیا میں سوپر مین کے طورپر پیش کیا جارہاہے اور اس سلسلے میں مسلسل بحث و مباحثے کئے جارہے ہیں لیکن جس طرح سے حیدرآباد پولیس نے پورے انکائونٹر کو بیان کیا ہے وہ سوائے فلمی سین کے اور کچھ نہیں ہےاور اسی سین کو کل کسی پر بھی دوبارہ استعمال کیاجاسکتاہے اسکا خدشہ بڑھ گیاہے ۔ عصمت دری یا اجتماعی جنسی تشدد کے معاملات کو انجام دینے والے ملزمان کے خلاف پورا ملک کھڑا ہوچکا ہے اسکے معنی یہ نہیں ہیں کوئی بھی ، کبھی بھی، کیسے بھی قانون کا غلط استعمال کرلے اور کسی کوبھی موت کے گھاٹ اتاردے ۔ اگر پولیس کو یہ کام کرنا ہی تھا تو عدالت کے سامنے ایسے شواہد پیش کرتی جس سے عدالت انہیں فوری سزادینے کے لئے احکامات جاری کرتی ۔ ملک میں عصمت دری کے معاملات کو روکنے کے لئے عوام نے سخت قوانین کی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ ہندوستان کے آئی پی سی کے مطابق آج بھی عصمت دری کرنے والے اور قتل کرنے والے ملزمان کو 100 فیصد موت کی سزا سنائی نہیں جاتی بلکہ کچھ معاملات میں عمر قید اور کچھ معاملات میں 14 سالوں کی قید کی سزا سنائی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی عوام نے ملک کے قانون میں تبدیلی لانے کامطالبہ کیا ہے ۔ پولیس نے جس طرح سے قصورواروں کا قتل کیاہے وہ متاثرہ ڈاکٹر پرینکا ریڈی کے اہل خانہ کو تو انصاف دلاسکتاہے لیکن حقوق انسانی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ انکائونٹر غلط ہے اور اس انکائونٹر پر کئی سوالات بھی پیدا ہورہے ہیں جسے عام لوگ بخوبی جاننے کے باوجود جھوٹی خوشی منارہے ہیں ۔ انکائونٹر کے نکات پر کئی طرح کے سوالات ہیں مگر یہ معاملہ حساس اور جذباتی ہونے کی وجہ سے کوئی سوال پوچھنا نہیں چاہ رہاہے ۔ حیدرآباد عصمت دری معاملے کا اب باب تو بند ہوچکاہے لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کے باقی حصوںمیں بھی عصمت دری و قتل کے معاملات میں جو لوگ ملوث ہوئے ہیں ان کا کیاہوگا؟۔ ڈاکٹر پرینکا ریڈی تو بالغ تھی لیکن جموں کی آصفہ ، گلبرگہ کی چنچولی کی زکریٰ ، انائو کی متاثرہ کے عصمت دری کے ملزمان کا کیا کیا جارہاہے ؟۔آسا رام ، سوامی چنمیانند، نتیانند ، رامپال ، رام رہیم، نرمل بابا، نارائن سائیں جیسے درجنوں جھوٹے پاکھنڈی بابائوں پر عصمت دری کے معاملات درج ہیں ، اسی طرح سے ہندوستان کے کئی اراکین پالیمان اور اراکین اسمبلی و نامور سیاستدانوں پر بھی عصمت دری کے سنگین معاملات ہیں تو کیا ان ملزم سیاستدانوں پر بھی اسی طرح سے کارروائی کی جائیگی ؟۔ انکائونٹر کرنا ان معاملات کا حل نہیں ہے بلکہ سخت قانون اور شفاف عدالتیں ایسے معاملات کا حل ہیں اور ان معاملات کو ختم کرنے کے لئے انکائونٹر کئے جائیں تو وہ محدود لوگوں کے لئے اثر چھوڑ سکتے ہیں لیکن سماج کو سدھارنےکے لئے یہ کوشش نہ کافی ہوگی ۔ آج جس طرح سے انکائونٹر کرتے ہوئے پولیس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہےکہ ہم نے عصمت دری کے ملزمان کو سزا دی ہے تو یہی حرکت پولیس کی جانب سے کسی کوپریشان کرنے یا کسی کو بلاوجہ موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے استعمال کیاجاسکتاہے ۔ جس طرح سے کچھ سال قبل تک جہیز حراسانی قانون ، یس سی یس ٹی قانون اور دہشتگردی کے خاتمے کے لئے مکوکا ، پوٹا ، ٹاڈا، یو اے پی اے جیسے قوانین کا استعمال کیا گیا تھا اسی طرح سے انکائونٹر کے رواج کو بے گناہوں کو بھی مارنے کے لئے غلط استعمال ہوسکتاہے ۔ سماج کو نقلی انکائونٹر کی ضرورت نہیں بلکہ اصلی قانون کی ضرورت ہے جس میں جلد ی ، شفافیت اور احتیاط کے ساتھ ملزمان کو مجرم قراردے کر انہیں موت کے گھاٹ اتاردیا جائے۔ پولیس کیا ہے اور کیاکرسکتی ہے اسکی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ جس طرح سے حیدر آباد میں نقلی انکائونٹر کے ذریعے چار ملزمان کو ختم کیاگیا ہے اسی طرح سے ریپ کے معاملات میں ملوث نقلی بابائوں و سیاستدانوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اصلی قانون بن جائے تو سماج پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 190901 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.