جب چاند، سورج اور زمین کے درمیان آ جاتا ہے تو سورج کی
روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی اسی کو سورج گرہن کہتے ہیں، سورج گرہن مہینے
کی آخری تاریخوں میں لگتا ہے۔
پاکستان کے تمام جنوبی علاقوں میں 20 سال بعد تقریباً پورا سورج گرہن دیکھا
گیا۔ آخری بار ایسا 11 اگست سن 1999 کو ہوا تھا جب شام 5:26 بجے کراچی میں
خاص طور پر سورج مکمل گرہن ہوگیا تھا اور شام ایک لال اندھیری رات میں
تبدیل ہوگئی تھی۔ یہ سورج گرہن کراچی میں مکمل سورج گرہن تھا یعنی اس میں
سورج کا 100 فیصد حصہ چاند کے پیچھے چھپ گیا تھا۔
اب پورے 20 سال بعد اس سال یعنی 26 دسمبر 2019 کی صبح 7:34بجے سورج چاند کے
پیچھے چھپنا شروع ہوا اور صبح 10:10 بجے یہ سورج گرہن ختم ہو ا، اب بات کی
جائے کہ یہ سورج گرہن کہاں زیادہ دکھائی دیاتو یہ سورج گرہن جنوبی پاکستان
خاص طور پر ساحلی علاقوں جیسے کراچی، گوادر میں سب سے زیادہ ہوا جہاں سورج
کا تقریباً 80 فیصد حصہ چاند کے پیچھے چھپ گیا اور دن کا وقت کچھ رات میں
تبدیل ہو ا۔ سورج گرہن پاکستان کے باقی تمام علاقوں میں بھی دیکھاگیا مگر
دُھند کے باعث کم نظر آیا۔
سورج گرہن کے مضر اثرات سے بچنے کی احتیاطی تدابیر:
سورج گرہن کے دوران سورج کی طرف بغیر کسی فلٹر والے چشمے کے بغیر دیکھنے سے
انسان ہمیشہ کے لئے اندھا ہو سکتا ہے۔ اسلئے اس دوران سورج کی طرف نہ
دیکھیں۔
حاملہ خواتین/Pregnant Women سورج گرہن کے وقت گھر سے باہر نہ جائیں یا
کھلے آسمان کے نیچے نہ جائیں! سورج کی ریڈی ایشن خطرناک ثابت ہوسکتی ہیں۔
عام سن گلاسز/Sun Glasses کا استعمال سورج گرہن کے دوران سورج سے نکلنے
والی ریڈی ایشن/تابکاری/Radiation سے آپکی آنکھوں کو محفوظ نہیں رکھے گا!
غلطی سے بھی ایسا نہیں کریئے گا کہ سن گلاسز پہن کر سورج گرہن دیکھنے لگ
جائیں۔
بچوں اور بوڑھوں کا گھروں میں رہنا بہتر رہے گا۔
سنت اور قرآن کے مطابق مسلمان سورج گرہن کے دوران اﷲ پاک سے گناہوں کی توبہ
کریں اور ''نماز کسوف'' ادا کریں، یہ وہ نماز ہوتی ہے جو ہمارے پیارے نبی
پاک صلی اﷲ علیہِ وسلم سورج گرہن کے وقت پڑھتے تھے۔
سورج گرہن کے موقع پر اسلامی مسنون اعمال واحکام
سورج گرہن کو عربی میں ’’کسوف‘‘ کہا جاتا ہے۔حضور اکرم ﷺ کی حیات ِمبارکہ
میں بھی سورج گرہن کا واقعہ پیش آیا، آپ ﷺ کے آخری لخت ِجگر پیارے صاحبزادے
حضرت ابراہیم رضی اﷲ عنہ پندرہ سولہ مہینے زندہ رہ کر خالق ِحقیقی سے جاملے
ا ور اتفاقاً اسی دن سورج کو گہن بھی لگ گیا، آپ ﷺ نے جب سورج کو بے نور
ہوتے دیکھا تو خشیت ِالٰہی طاری ہوگئی اور فوراً مسجد تشریف لے گئے اور
صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جمع فرمایا اور انہیں طویل نماز پڑھائی اور ذکر
ودعا میں مصروف رہے، یہاں تک کہ سورج صاف ہوگیا، نماز کے بعد آپ ﷺ نے لوگوں
کو سورج گرہن کا سبب بھی بتایا اور اس سے متعلق جاہلیت کے عقیدہ پر رد عمل
بھی فرمایااور ایسے وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف خصوصی رجوع کی تلقین فرمائی۔
لہٰذا سورج گرہن ہو یا چاند گرہن یہ اﷲ تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ کی ایک بڑی
نشانی ہے جو ایک طرف اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے تو دوسری طرف
اﷲ تعالیٰ کی سطوت وطاقت کے سامنے مخلوق کی بے بسی اور لاچاری کی خبر دیتی
ہے، حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
''إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اﷲِ لَا یَنْکَسِفَانِ
لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہِ فَإِذَا رَأَیْتُمُوہُمَا فَادْعُوا اﷲَ
وَصَلُّوا حَتَّی یَنْجَلِیَ''.(أخرجہ البخاری فی صحیحہ، رقم الحدیث: 1060)
’’بیشک سورج اور چاند اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان
دونوں کو نہ تو کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے اور نہ کسی کی زندگی کی
وجہ سے، پس جب تم سورج یا چاند گرہن دیکھو تو اﷲ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو
اور نماز میں مصروف ہوجاؤ، یہاں تک کہ گہن صاف ہوجائے‘‘۔
اور سورج گرہن اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کا اک مظہر ہے، اس میں قہر ِالٰہی کے
نزول کا بھی خدشہ ہوتا ہے، اور یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ قیامت کی علامات
ِکبری کا ظہور کہیں شروع نہ ہوجائے، اس لیے اﷲ تعالیٰ سورج جیسی بڑی مخلوق
میں تغیرات پیدا کرکے اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں اور غافل دلوں کو جھنجھوڑتے
ہیں کہ وہ اس کی نافرمانی کی زندگی کو چھوڑ کر اس کی فرمانبرداری کی زندگی
کی طرف آجائیں۔ اور یہ قیامت کے حادثہ کا ایک نمونہ بھی ہوتا ہے کہ جس طرح
چاند سورج کو قیامت میں بے نور کردیا جائے گا تو یہ بھی ایک عارضی بے نوری
ہوتی ہے جو قیامت کی یاد دلاتی ہے۔لہٰذا اس کا سائنسی سبب کچھ بھی ہوتاہم
شرعاً اس کا مقصد وسبب بندوں کو تنبیہ اور ڈرانا ہے کہ انسان قدرت کے اس
مظاہرہ کو دیکھ کر سنبھل جائے اور خالق ِکائنات سے بغاوت نہ کرے۔حضور اکرم
ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
''إِنَّ اﷲَ تَعَالَی یُخَوِّفُ بِہِمَا عِبَادَہ''.(أخرجہ البخاری فی
صحیحہ، رقم الحدیث: 1048)
’’بے شک اﷲ تعالیٰ چاند اور سورج گرہن کے ذریعے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے‘‘۔
احادیث وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن کے وقت درج ذیل اعمال مستحب
ومسنون ہیں:
1: عذاب ِالٰہی سے ڈرنا اور ہنسی ومزاح، خوش گپیوں اور نافرمانی سے پرہیز
کرنا۔(صحیح بخاری: 1059)
2:صدقہ وخیرات کرنا۔(صحیح بخاری: 1044)
3: غلام آزاد کرنا،(صحیح بخاری: 1054) آج کل غلاموں کا دور نہیں، اس لیے
اپنے نفس کو شیطان کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش کرلی جائے اور یا بے گناہ
مسلمان قیدیوں کی رہائی کی کوشش کرلی جائے تو یہ بھی بہتر ہے۔
4: ذکر واستغفار کرنا(صحیح بخاری: 1059)اور تسبیح، تحمید، تہلیل اور تکبیر
(یعنی سبحان اﷲ والحمد ﷲ ولا الہ الا اﷲ واﷲ اکبر) میں مصروف رہنا۔(صحیح
مسلم: 2158)
: دعا میں مشغول رہنا۔(صحیح بخاری: 105س9)
6: خاص طور پر عذاب ِقبر سے پناہ مانگنا۔(صحیح بخاری: 1050)
7: نماز ِکسوف کا اہتمام کرنا۔
8: اگر سورج گرہن مکروہ اوقات میں ہو یا درمیان میں مکروہ وقت آجائے تو
نماز نہ پڑھیں، بلکہ ذکر ودعا میں مصروف رہیں۔(رد المحتار: 3/78)
9: نماز ِکسوف کا وقت گرہن شروع ہونے سے لے کر ختم تک ہے، گرہن شروع ہونے
سے پہلے اور ختم ہونے کے بعد پڑھنا سنت نہیں اور وہ نماز ِکسوف نہیں کہلائے
گی۔(رد المحتار: 3/78)
* اگرایسے وقت گہن لگا کہ اس وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے تو نماز نہ پڑھیں
بلکہ دعا میں مشغول رہیں اور اسی حالت میں ڈوب جائے تو دعا ختم کر دیں تیز
آندھی آئے یا دن میں سخت تارکی چھا جائے یا رات میں خوفناک روشنی ہو یا لگا
تار کثرت سے بارش ہو رہی ہے یا بکثرت اولے پڑیں یا آسمان سرخ ہو جائے یا
بجلیاں گریں یا بکثرت تارے ٹوٹیں یا طاعون وغیرہ وبا پھیلے یا زلزلے آئیں
یا دشمن کا خوف ہو یا کوئی دھشت ناک امر پایا جائے ان سب کے لیے دو 2 رکعت
نماز مستحب ھے زمانہ جاہلیت کی طرح آج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو یہ
سمجھتے ہیں کہ سورج گرہن کسی کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے بالخصوص خواتین سورج
و چاند گہن سے بدشگونی لیتی ہیں اور حاملہ کے حق میں اس کو برا جانتی ہیں
کہ بچے کو نقصان ہوجائے گا۔یاد رکھنا چائیے کہ اسلام میں برا شگون لینے کا
کوئی تصور نہیں بلکہ علماء کرام نے بدشگونی لینے کو ناجائز فرمایا ہے حدیث
میں ہے جو بدشگونی لے وہ ہم میں سے نہیں۔
اﷲ تعالی سے دعا ہے کہ وہ امت محمدی ﷺ پر نظرِ کرم رکھے اور سب کو زمینی و
آسمانی آفات سے محفوظ رکھے۔سب کو ایمان و صحت کی بہترین حالتوں میں رکھے۔
آمین
|