جامعۃ الرشید پاکستان کا معروف و مشہور مدرسہ ہے، جس کی
نسبت مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ کی طرف کی جاتی ہے۔ مفتی صاحب رحمہ
اللہ نہایت ہی قناعت پسند اور حد درجہ متقی وپرہیزگار انسان تھے۔ ان کے ایک
اشارے پر نہ صرف مال و دولت کے ڈھیر لگ سکتے تھے بلکہ لوگ اپنی جان نچھاور
کرنے کو تیار ہو جاتے تھے۔
مفتی صاحب کی خاص بات یہ تھی کہ وہ کسی سے متاثر نہیں ہوتے تھے۔ قناعت اور
غِنیٰ ہی ان کی اہم خوبی تھی۔ اپنی زندگی میں وہ موجودہ جامعۃ الرشید سے
بھی بڑا ادارہ قائم کر سکتے تھے لیکن انہوں نے رجال کار پیدا کرنے کے لیے
تعداد اور کثرت سے زیادہ معیار کو ترجیح دی۔ چنانچہ ساری زندگی عام معمول
سے بھی ایک چھوٹی سی مسجد میں درس و تدریس اور وعظ و نصیحت کو جاری رکھا۔ان
کی وفات کے بعد ان کے نام اور شہرت سے خوب فائدہ اٹھاتے ہوئے فوری طور پر
بڑی بڑی بلڈنگوں کی تعمیر شروع ہوئی، پھر کیا تھا جنگل میں منگل بن
گیا۔آہستہ آہستہ انتظامیہ نے ایسی بہت ساری باتوں پر یوٹرن لینے شروع
کردیئے جو ادارۃ الرشید کی پہچان ہوتے تھے۔
مفتی صاحب کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ وہ عزیمت کی راہ پر چلتے تھے اور
علماء کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ اگر علماء عزیمت کی راہ پر چلیں گے تو عوام
رخصت پر عمل کرے گی چنانچہ اس کے لیے وہ شلوار کی مثال دیتے ہوئے فرماتے
تھے کہ اگر علماء شلوار آدھی پنڈلی تک رکھیں گے تو عوام ٹخنے ننگے کرے گی،
اگر علماء ہی ٹخنے ننگے کرنے پر اکتفاء کریں گے تو عوام کا اللہ ہی
حافظ۔لیکن آج اس عزیمت کی راہ پر چلنے والے عظیم انسان کے نام لیوا پہلے
ایک قدم پیچھے ہٹ کر عزیمت سے رخصت پر آئے اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ
رخصت کو بھی خیر باد کہنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔
کچھ دن پہلے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ وفلم وڈرامہ کے سربراہ نے جامعۃ
الرشید کا دورہ کیا۔ یہ نہایت ہی خوش آئند بات ہے ملکی اداروں کے اہم لوگوں
کو وقتا فوقتا مدارس کے دورے اور علماء سے میل ملاپ رکھنا چاہیے اس سے آپس
میں غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ملکی
تعمیر وترقی میں تعاون اور حمایت میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ
تعلقات عامہ کو باقی مدارس اور تمام مسالک کے مدارس کا دورہ بھی کرنا چاہیے۔
یہاں پر ایک اہم بات جو دیکھنے میں آئی وہ جامعۃ الرشید کے علماء طلباء کی
طرف سے ڈی جی صاحب کو دیکھ کر ندیدے پن کا اظہار تھا۔ گھر آئے مہمان کی عزت
و احترام ضرور کرنا چاہیے لیکن اس کی بھی کچھ حدود وقیود ہیں۔ پیشانیاں
چومنا اور بغلوں میں دبک دبک کر سیلفیاں لینا عجیب ندیدے پن کا اظہار ہے۔
تصویر لینے کے لیے بغل میں دبکنا ضروری نہیں بلکہ برابر میں ساتھ کھڑے ہو
کر بھی تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے رویوں سے گویا آپ یہ میسج دے رہے
ہوتے ہیں کہ جامعۃ اور جامعہ کی تمام انتظامیہ علماء اور طلباء آپ سے بہت
زیادہ خوش ہیں اور آپ کے سابقہ تمام کاموں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔حالانکہ
بحیثیت انبیاء کے وارث ہونے کے جامعہ کے علماء کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ
وہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ وفلم ڈرامہ کے سربراہ کو ان کے مقام ومرتبے
کے مطابق پروٹوکول، عزت واحترام دینے کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا احتجاج بھی
ریکارڈ کرواتے کہ جناب آپ کا بنایا ہوا ڈرامہ”عہدو وفا“ نہ پاکستانی کلچر
وتہذیب سے میچ کھاتا ہے اور نہ اسلامی اقدار و روایات کی نمائندگی کرتا ہے،
ایسی بے حیائی و فحاشی کی اجازت نہ ہمارا آئین دیتا ہے اور نہ ہی اسلام میں
ایسی بیہودگی کی اجازت ہے۔پاک فوج جسے ایک مقدس ادارہ سمجھا جاتا ہے اسے تو
ایسی فحاشی وبے حیائی کو مٹا کر ملک کی علاقائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ
نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنی چاہیے تھی۔ بیہودہ فلمیں، اور ڈرامے بنا
کر ملک کو تباہی اور عذاب الہی کی طرف لے کر جانا عقلمندی نہیں بہت بڑی
بیوقوفی ہے۔
اس کے علاوہ علماء کو پاک فوج کی ایک نہایت ہی اہم شخصیت سے چند منٹ میسر
آئے تھے تو بحیثیت خیر امت کا فرد ہونے کے، اپنا فرض پورا کرنے کے لیے مقصد
بناء پاکستان بھی ان کے سامنے رکھ دیا جاتا کہ جناب، جو چیز جس مقصد کے لیے
بنائی جاتی ہے اگر وہ مقصد پوارا نہ کیا جائے تو وہ چیز خود ہی ٹوٹ پھوٹ کا
شکار ہو کر ختم ہو جاتی ہے۔ فوجیں، ہتھیار، فلمی سین کسی کام نہیں آتے۔
پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا، آپ اس کے محافظ ہیں، اسلام کا نفاذ کریں،
اسی میں ملک کی بقاء بھی ہے اور ہماری آپ کی بھی۔
|