موبائل کا نشہ۔۔۔۔۔۔۔Restart سنٹر کا قیام

موبائل کے بے جا استعمال سے والدین تو پریشان ہی ہیں اور ہمارامعاشرہ بھی جدید سوشل ایپس کے بے جا استعمال کی وجہ سے تما م لوگ تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ موبائل کو ایجاد کرنے والے ممالک بھی اس کے نقصانات سے مبرا نہیں ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں ایک سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس کا نام Restart ہے۔ اس کا پیغام ہے کہ (Limit your Device no your life)یعنی اپنی زندگی کو محدود نہ کریں بلکہ اپنے موبائل فون اور ڈیوائسز کے محدود کریں۔ تحقیقات کے مطابق موبائل کے حد سے ذیادہ استعمال کو باقاعدہ ایک نشہ قرار دیا گیا ہے۔موبائل پر سوشل میڈیا کا حد سے ذیادہ استعمال، گیمز کھیلنا، براہ راست گفتگو کرنا، ویڈیوز دیکھنا، جواء کھیلنا، آن لائن کام کرنا،موبائل ڈیوائسز کے خارج ہونے والی خطرناک شعاعوں کا شکارہونا، ماں باپ رشتہ داروں اور بھائی بہنوں سے دوری، خوراک کی کمی، قدرتی ماحول سے دوری،تعلیم کی شرح میں خطرناک حد تک کمی، کھیلوں کے میدان سے دوری اور جسمانی اعضاء خاص طور پر آنکھوں کا بہت ذیادہ متاثر ہوناجیسے مسائل کا سامنا امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ واشنگٹن میں قائم اس سنٹر میں موبائل کا نشہ کرنے والے مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ اس سنٹر میں تمام قسم کی جدید ڈیوائسز کے استعمال پر مکمل پابندی ہے اور جیمر بھی لگے ہوئے ہیں۔ اس سنٹر میں مکمل طور پر قدرتی ماحول ہے۔ مریضوں کو گھوڑوں پر سواری کروائی جاتی ہے۔ ان کو قدرتی پھل او ر سبزیوں کی کاشت کاری کی طرف مبذول کروایا جاتا ہے۔ گٹار اور شطرنج جیسے کھیل کھیلنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

اس سنٹر میں آئے ہوئے ایک مریض نے بتا یا کہ اسے ویڈیو گیمز کھیلنے کی جنون کی حد تک عادت ہوچکی تھی۔ اور وہ روزانہ اٹھارہ گھنٹے ویڈیو گیمز کھیلتا تھا۔ وقت کے ساتھ سے احساس ہوا کہ اس کی زندگی میں کچھ بھی باقی نہ رہا۔کتنے ہی دنوں سے اس نے کھلے آسمان کو نہ دیکھا تھا اور وہ موبائل گیمز کا مریض بن چکا تھا۔ اور اسے اس سے جان چھڑوانے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ اس سنٹر میں آکر اس کی کایا ہی پلٹ گئی اور اس نے اپنے آپ میں ایک اچھی اور خوبصورت تبدیلی دیکھی ہے اور اب وہ زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔

ڈیپریشن، اینگزائٹی اور اس طرح کے بہت سے مسائل بھی موبائل کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہماری زندگی میں آرہے ہیں۔ایک ماں اپنے بچے کو اس سنٹر میں علاج کی غرض سے لائی تھی اور اس کے مطابق اس کا بچہ جو ابھی صرف پندرہ سال کا ہے وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر آچکا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے میر ا بیٹا دن میں پندرہ گھنٹے سے ذیادہ اپنے موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر گزارتا تھا۔ اس کی جسمانی نشوونما بہت ذیادہ متاثر ہوچکی تھی اور وہ دیکھنے سے کسی بھی صورت میں پندرہ سال کا نہیں لگتا تھا۔ وہ کھانا تو ضرور کھاتا تھا لیکن اس کی مکمل توجہ ویڈیو گیمز کی طرف ہوتی تھی۔ اس کی شخصیت بہت بری طرح مسخ ہوچکی تھی۔ اس کو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے نام تک بھی یا د نہ تھے۔ ان سے ملے ہوئے اس کو ایک عرصہ گزر جاتا تھا۔ اس کے سونے کا کوئی ٹائم ٹیبل نہ ہوتا تھا۔ اس کا کئیرئر بہت بری طرح متاثر ہوچکا تھا۔ بعض اوقات اسے منہ دھونا اور واش روم جانا بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ اس کی نظر بہت حد تک کمزور ہو چکی تھی۔ یہ سنٹر میرے لیئے ایک تازہ ہوا کاجھونکا ثابت ہوا اور میرا بیٹا اب زندگی کی طرف لوٹ رہا ہے۔ یہاں آنے سے پہلے اس کی حالت ایک ہیروئین کے نشئی سے کچھ کم نہ تھی۔ اور وہ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ بن چکا تھا۔

امریکہ جیسے ملک میں اس طرح کے سینٹر کا قیام اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا حد سے ذیادہ استعمال ہماری نوجوان نسل اور خاص طور پر بچوں کے لیئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر اس کے بہت ہی مہلک اثرات بڑھ رہے ہیں اور وہ وقت دور نہیں جب ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے علاج کے لیئے ہمارے ہاں بھی اس طرح کے سنٹرز بننے لگ جائیں گے۔
 

Prof Tanvir Ahmed
About the Author: Prof Tanvir Ahmed Read More Articles by Prof Tanvir Ahmed: 71 Articles with 80717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.