تبدیلی کیسے لائیں... ؟
(Muhammad Nafees Danish, )
اسلام ایک ایسا مذہب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے
خود ہمارے لیے پسند اور منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ
و آلہٰ و سلم کو اپنا آخری نبی بنا کر بھیجا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و
آلہٰ و سلم کو قرآن مجید عطا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٰ و سلم نے اپنی
حیات طیبہ میں اسلام کے تمام اصولوں پر عمل پیرا ہو کر ہمارے لیے سنت کو
واضح کر دیا۔ اب ہمارے لیے قرآن پاک، احادیث، سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہٰ
و سلم اور بزرگان دین کی تعلیمات ہدایت اور راہنمائی کا سر چشمہ ہیں۔ دین
اسلام نے زندگی گزارنے کا جو طریقہ ہمیں بتایا ہے وُہ صرف اور صرف ہمارے
فائدے کے لیے ہے۔ دین اسلام کا کوئی بھی پہلو کبھی بھی ہمارے لیے تقصان کا
باعث نہیں ہو سکتا۔ بیشک انسان کرہ ارض پر اکیلا نہیں اُس کے ارد گرد بہت
سارے لوگ بستے ہیں جنہیں دنیا کہا جاتا ہے۔ دین اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں
دیتا کہ صرف دین کے ہی ہو کر رہ جاؤ بلکہ اسلام دنیا میں رہ کر دین پر عمل
پیرا ہونے کی دعوت دیتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند میں سو سال تک انگریزوں نے حکومت کی
اور اتنا عرصہ مسلمان اور ہندو ایک ساتھ رہے۔ پھر مسلمانوں کے لیڈر جناب
قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے دو قومی نظریہ پیش کیا “کہ مسلمان اور ہندو
صرف دو قومیں ہی نہیں بلکہ ان کے رسم و رواج بھی الگ ہیں”۔ غرض پاکستان کے
قیام کے بعد بھی ہندو کلچر کی بہت ساری رسم و رواج مسلمانوں میں رچ بس گئیں۔
اسی طرح احساس کمتری کی بیماری بھی ہمیں وراثت میں مل گئی ہے، اگر آپ کسی
ذی شعور سے پوچھیں کہ کیا آپ موجودہ حال قومی و ملکی صورتحال پر خوش ہیں تو
یہی جواب ملے گا کہ نہیں۔ تو پھر کروڑ روپے کا سوال جو آج ہر ذی شعور
نوجوان پوچھتا ہوا نظر آئے گا کہ آخر تبدیلی کیسے لائیں.....؟
اس سے پہلے کہ میں اپنی ناقص رائے کا اظہار کروں یہی سوال آپ احباب کہ
سامنے رکھتا ہوں.....!
میر ے نظر میں موجودہ حالات میں بہتری ایک ہی طریقے سے لائی جاسکتی ہے اور
وہ ہے انقلاب..!
انقلاب قوموں کی تقدیریں بدلنے کی صلاحتیں رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے یہ
قوموں کی زندگی میں بہت کم وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کے وقوع پزیر ہونے کے
لیے قوموں کا ایک خاص شعوری سطح پر ہونا اور اک قابل قدر راہنما کا ہونا
ضروری ہوتا ہے-
اگر انقلاب نہیں تو پھر تبدیلی کا دوسرا ذریعہ جمہوری ہے جو کہ ایک سست اور
ارتقائی عمل ہونے کہ ساتھ ساتھ صبراورحوصلے کا بھی تقاضاکرتا ہے ۔اس حل میں
اگر اجتماعی مفادات کو سا منے رکھ کر اپنی انتخابی صلاحیت کا ایماندارانہ
استعمال کریں تو پھر آپ وقت کے ساتھ ساتھ بہتری کی جانب گامزن رہتے ہیں
(مثال کے طور پر بھارت کی صورتحال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں) ۔
اب بدقسمتی سے ہمارے بزرگوں نے ہمیشہ انفرادی مفادا ت کو اجتماعی مفادات پر
ترجیح دی اوراسی سبق کا پرچار بھی کیا اور آج کی موجودہ صورتحال کے کلی طور
پر ذمہ دار ہیں ۔ یاد رہے کہ نہ ہمیں ایک ہی رات میں مسیحا مل جائے گا
اورنہ ہی کوئی جادو کی چھڑی جو ایک پل میں ہمارے مسائل کو حل کردے گی ۔بلکہ
یہ ایک ارتقائی عمل ہےجس کے ہر چکر پر ہمیں بہتری کی طر ف بڑھنا نہ کہ
تنزلی کی طرف اور نظام کو غلظا توں سے پاک کرنا ہے ۔
ہمیں آج بھی من حیث القوم قرآن و حدیث کی روشنی میں انقلابی طریقے کو
اپنانا ہوگا اور صبر و شکر کو لازم پکڑنا ہوگا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
|
|