قارئین محترم یہ زندگی عارضی ہے اور جو آخرت کی زندگی ہے
وہ ابدی ہے۔حضور پر نور آقا دو جہاں ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ دنیا مومن کے
لیے قید خانہ ہے،،۔قبر مومن کے لیے قلعہ کی مانند ہے اور کافر کے لیے دنیا
جنت ہے،جنت مومن کا مسکن ہے اور جہنم کافر کا مسکن ہے ۔در اصل دنیا آخرت کی
کھیتی ہے انسان اس دنیا میں اگر نیک اعمال کرے گا تو آخرت میں یقینا کامیاب
ہو گا۔چونکہ ہمیں آخرت کی زندگی کو زیادہ ترجیح دینی چاہیئے۔قرآن پاک میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمعہ)ہر نفس نے موت کا مزا چکھنا ہے۔ ۔قارئین پہلی
امتوں کی کتنی طویل عمریں ہوتی تھیں وہ بھی آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔اس
دنیا میں انسان ،حیوان،جانور،چرند،پرند جو بھی جاندار چیز ہے سبھی نے اس
دنیا سے ایک دن جانا ہے۔زندگی تو جانور بھی گزار رہے ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ
نے انسان کو دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے مگر اشرف المخلوقات
بنا نے کے باوجود انسان پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی ہیں۔انسان زندگی
گزارنے میں اپنی مرضی نہیں کر سکتا ہے جیسا کہ اﷲ پاک نے قرآن مجید فرقان
حمید میں ارشاد فرمایا ہے۔(ترجمعہ)اے میرے بندے میرے رسولوں کے احکامات کے
مطابق زندگی بسر کریں اور اسلامی ضوبط کے مطابق زندگی گزاریں۔حضرت ابن
عباسؓ روایت کرتے ہیں ،،ایک مرتبہ حضور پر نور آقا دو جہاں سرور کائنات
احمد مجتبیٰﷺ صحابہ کرام ؓ کے درمیان تشریف فرما تھے آپﷺ نے تین لکڑیاں
منگوائی آپ ﷺ نے ایک لکڑی اپنے سامنے رکھ دی دوسری لکڑی سائیڈ پر رکھ دی
اورتیسری لکڑی آپﷺ نے اپنے پیچھے رکھ دی صحابہ کرام ؓ یہ تمام منظر دیکھ
رہے تھے سرکا دو عالم ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ یہ کیا ہے ۔قارئین آپ صحابہ
کرام ؓ کا عقیدہ دیکھیں صحابہ کرامؓ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ اﷲ اور اس کے
رسولؑ بہتر جانتے ہیں۔شہنشاہ دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا میرے پیارے صحابہ
جو لکڑی میرے سامنے ہے وہ موت ہے ،جو لکڑی سائیڈ پر ہے وہ تمہاری زندگی ہے
اور جو لکڑی میرے پیچھے ہے وہ آپ کی امیدیں ہیں۔قارئین اس لیے ہمیں اپنے
پیارے مدنی آقا ﷺ کے فرمان مبارک سے سبق سیکھنا چاہیئے ہم سب نے اکثر اس
فقرے کی سماعت کی ہو گی کہ سو برس کا سامان ہے پل کی خبر نہیں ہے۔ہمیں
دنیاوی زندگی سے زیادہ آخرت کی زندگی کا فکر ہونا چاہیئے۔چونکہ اس دنیا میں
میں ہم جیسے بوئیں گے اسی طرح آخرت میں ہمیں اس کا پھل ملے گا اگر ہم اس
دنیا میں رہ کر اﷲ اور اس کے رسول اﷲ ﷺ کے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کریں
گے تو ہم یقینا آخرت کی زندگی میں کامیاب ہوں گے۔یہ انسانی فطرت میں شامل
ہے کہ انسان اپنے دل میں بڑی (تجویزیں) بناتا رہتا ہے لیکن وہ سب ادھوری رہ
جاتی ہیں۔قارئین اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں سکندر اعظم پوری دنیا پر
حکمران تھا اس عظیم سپہ سالار نے پوری دنیا فتح کی۔بلآخرٹائیفائیڈ کی مرض
میں مبتلا ہو کر ۳۲۳ قبل مسیح ۳۳ سال کی عمر میں بخت نصر میں انتقال کر
گیا۔اس لیے یہ دنیاوی زندگی عارضی ہے آخر کار ایک دن سبھی نے اس دنیا کو
خدا حافظ کہنا ہے۔آخر میں دعا ہے کہ اﷲ پاک ہر مسلمان بھائی کو آخرت کی فکر
نصیب فرمائے ۔آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |