کچھ غلطیاں اتنی پختہ ہو جاتی ہیں کہ ان کی اصلاح کرنے
والا خود آزمائش میں پڑ جاتا ہے مثلاً میر تقی میر کا یہ شعر جب بھی پڑھا،
لکھا یا بولا جاتا ہے تو اس کا متن یہی ہوتا ہے
میر کیا سادے ہیں، بیمارے ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
حالانکہ میری تقی میر کے کوئی بھی مستند کلیات کا مطالعہ کر لیں تو آپ کو
معلوم ہو جائے گا کہ میر نے شعر کے دوسرے مصرع میں لونڈے کا لفظ ہرگز
استعمال نہیں کیا۔ میر کا کہا ہوا صحیح مصرع یہ ہے ع
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
آپ نے اخبارات و رسائل میں سینکڑوں دفعہ درج ذیل شعر علامہ اقبال کے حوالے
سے پڑھا ہو گا
تندی¿ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
یہ شعر ضلع سیالکوٹ کی سابق تحصیل شکرگڑھ کے ایک ایڈووکیٹ سید صادق حسین کا
ہے۔ انکی ایک مختصر کتاب ”برگِ سبز“ 1976ءمیں شائع ہوئی تھی جس میں یہ شعر
موجود ہے۔ غالباً لفظ عقاب کی وجہ سے یہ شعر علامہ اقبال سے منسوب کر دیا
جاتا ہے اور سید صادق حسین ایڈووکیٹ کو ان کے اکلوتے مشہورِ زمانہ شعر سے
بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ اردو کا ایک ضرب المثل شعر مقررین اکثر اپنی
تقاریر اور کالم نویس اپنے کالموں میں استعمال کرتے ہیں ....
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
یہ شعر آغا شاعر قزلباش کے ایک شاگرد مہاراج بہادر برق کا ہے اور غلط طور
پر میر تقی میر سے منسوب ہے۔ آپ میر کے چھ دیوان پڑھ لیں کہیں بھی آپ کو یہ
شعر نظر نہیں آئے گا۔ دہلی میں 1884ءمیں پیدا ہونے والے مہاراج بہادر برق
کے مذکورہ بالا شعر کا پہلا مصرع اچھی یاد کر لیں ع
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
بہادر شاہ ظفر کا درج ذیل کس نے نہیں سُنا ہو گا
کتنا ہے بدنصیب ظفر، دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
عوام الناس نے اسی غزل کے حوالے سے ایک اور شعر بھی بہادر شاہ ظفر سے منسوب
کر رکھا ہے
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
یہ شعر بہادر شاہ ظفر کا بالکل نہیں بلکہ سیماب اکبر آبادی کا ہے۔ ان کی
1947ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”کلیم عجم“ میرے پاس بھی موجود ہے۔ جس شخص کو
شبہ ہو اسے سیماب اکبر آبادی کی پوری غزل کی فوٹو کاپی مہیا کی جا سکتی ہے۔
سیماب نے زیر بحث شعر کا پہلا مصرع اس طرح کہا تھا ع
عمر دراز، مانگ کے لائی تھی چار دن
بڑے پڑھے لکھے اور اعلیٰ ادبی ذوق رکھنے والے حضرات بھی درج ذیل شعر کو
کبھی علامہ اقبال اور کبھی حالی سے منسوب کر دیتے ہیں
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
یہ شعر قرآن حکیم کی آیت کا ترجمہ ہے اور یہ منظوم تخلیقی ترجمہ مولانا ظفر
علی خان نے کیا ہے۔ یہ شعر 1937ءمیں شائع ہونے والی مولانا ظفر علی خان کی
کتاب ”بہارستان“ میں شامل ہے۔
ایک اور شعر جو کبھی میر تقی میر اور کبھی امیر مینائی سے منسوب کر دیا
جاتا ہے وہ یہ ہے
شکست و فتح نصیبوں سے ہے ولے اے میر
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
یہ شعر نہ تو میر تقی میر کا ہے اور نہ ہی امیر مینائی کا ہے بلکہ یہ شعر
محمد یار خاں امیر کا ہے اور شعر کا درست متن بھی یوں ہے
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
مصحفی کا یہ شعر ضرب المثل کی طرح مشہور ہے
مَیں عجب یہ رسم دیکھی، مجھے روزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب اُلٹا
یہی شعر پہلے مصرعے کی تبدیلی کے ساتھ اِنشا سے بھی منسوب ہے
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروزِ عیدِ قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الُٹا
قاضی عبدالودود نے تحقیق کے بعد ثابت کیا ہے کہ یہ شعر مصحفی ہی کا ہے۔
کالم کا دامن چونکہ مختصر ہوتا ہے اس لئے مَیں تفصیلات میں جائے بغیر چند
اشعار کا درست متن اور اُنکے خالق اصل شاعروں کے نام درج کر رہا ہوں :
اس دین کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اُتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
(صفی لکھنوی)
اس کو ناقدری عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
(برج نرائن چکبست)
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
(آزاد انصاری)
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہَوا دینے لگے
(ثاقب لکھنوی)
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے مَیں وہ ایک مشتِ غبار ہوں
یہ شعر جان نثار اختر کے والد مضطر خیر آبادی کا ہے جو ہمیشہ بہادر شاہ ظفر
کو سونپ دیا جاتا ہے۔ 1887ءمیں کلیات ظفر پہلی دفعہ شائع ہوا تھا پھر
1918ءمیں پانچواں ایڈیشن چھپا تھا ان میں یہ شعر شامل نہیں ہے۔ جاں نثار
اختر نے اپنے ایک مضمون میں باقاعدہ طور پر یہ وضاحت کی کہ ان کے باپ کی
غزل غلط طور پر بہادر شاہ ظفر سے منسوب کر دی گئی ہے۔
|