ایک ڈرامہ ہے۔۔ ڈرامہ!

انسان کی زندگی فلم ڈرامہ نہیں، اور ہمارا ماحول ایسا بن گیا ہے کہ ہم زندگی کو فلم ڈرامے سے بڑھ کر کچھ سمجھتے ہی نہیں۔ انسان کی پیدائش کا مقصد کیا تھا اس دنیا میں اسے بھیجا کیوں؟ شریعت کے احکام کس لیے قرآن کی راہنمائی کیوں؟ اور انبیاء کرام کی قوموں میں آمد کس لیے تھی سب کچھ ہم بھولے ہیں اور لاعلم نظر آتے ہیں۔

ٹی وی کی چکا چوند، فلم انڈسٹری کی تصویریں ہیں، کیبل کی وبا نیٹ کے زور و شور میں ہم ایسے گم ہوئے ہیں کہ ہمیں خبرہی نہیں کہ ہم کون تھے ہمارے آباء کون تھے۔ ہماری تعلیمات کیا تھیں ہمارا مقصد حیات کیا تھا۔ بس ایک بظاہر خوشنما سی جھلک دکھائی گئی فلم کی ڈرامے کی اور ہماری نسل اس کے پیچھے بھاگنے لگی۔ ٹی وی ڈراموں کے متاثر، فلموں سے متاثر نوجوان جو کچھ سکرین پر دیکھتے ہیں وہی کچھ اپنی زندگی میں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں چونکہ بظاہر دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے تو اس کے میں سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اور نفع نقصان کا سوچے بغیر نسل نو خود کو ہیرو یا ہیروئن سمجھتے ہیں اور ایسا بننے کے لیے ہر قدم اٹھا لیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں دولدوز قسم کا واقعہ رونما ہوا۔ ہیروئن بننے کے شوق میں لڑکی ایک گروہ کے ہتھے چڑھ گئی جنہوں نے اسے کسی ہوٹل میں لے جاکر ریپ کیا اور آٹھ افراد نے اسے عزت بھری زندگی سے محروم کر دیا۔ جب عزت، وقار، حیاء سب ختم ہو گیا تو پتہ چلا کہ جتنا قصور بھوکے بھیڑیوں کا تھا اتنا ہی شکار کا تھا۔لڑکی ہیروئن بننے کے شوق میں گھر سے نکلی اور اوباشوں کے ہاتھ آ گئی۔ ہیروئن تو نا بن پائی مگر عزت سے ہاتھ ضرور دھو بیٹھی ۔ بات ہوٹل کے کمرے سے باہر نکلی اور میڈیا کے ذریعے زبان زد عام ہو گئی تبی یہ بات کھلی کہ ملزم لڑکیوں کو ہیروئن بنانے کے جھانسے دے کر زیادتی کا نشانہ بناتا ہے ملزم پکڑا گیا تو مزید انکشافات سامنے آ گئے کہ زیادتی کیس کا مرکزی ملزم عدنان ثنا اﷲ اہم شخصیات کی رنگین محفلوں کا اہتمام کرتا تھا، ایک صوبائی وزیر نے اس کو مختلف تھیٹرز کا کو ارڈی نیٹر بنایا ہوا تھا۔ ملزم نئی آنے والی اداکارہ کو تھیٹر میں کام دلانے کا لالچ دے کر ہوٹل لے جاتا اور وہاں جا کر زیادتی کا نشانہ بناتا۔ عدنان ثنا اﷲ اس سے قبل بھی ہوٹل میں لڑکیوں کے ساتھ پکڑا گیا ۔ایسا ہی ایک واقعہ اس سے قبل لاہور میں ہوا فلمیں دیکھنے کی شوقین دو بچیاں عزت لٹا بیٹھیں۔صائمہ اور ثمینہ دونوں جیا موسیٰ کی رہائشی ہیں۔ دونوں بہنوں نے فلم دیکھنے کا منصوبہ بنایا اور رات کے اندھیرے میں چادر چار دیواری کی محفوظ دہلیز پار کر کے میکلوڈ روڈ پہنچ گئیں۔ اور واپسی پر گوہر عصمت سے محروم ہو گئیں۔ لیٹروں نے شراب پی اور پھر باری باری بداخلاقی کا نشانہ بنایا۔ساری رات شیطانی کھیل کے بعد ملزم صبح چار بجے فرار ہو گئے ۔

عورت کے لیے گھر کی چار دیواری ایک محفوظ پناہ گاہ ہے اسی چاردیواری میں وہ حفاظت سے زندگی گزار سکتی ہے۔ یہی تجربے سے ثابت ہوا اوریہی شریعت کا حکم ہے اس حدود کو جب بھی کسی نے پھلانگا تو اس کا نقصان ہوا فائدہ نہیں وہی بات کہ انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہے وہ شتر بے مہار زندگی گزارنے اس دنیا میں نہیں آیا۔ فلم ٹی وی ڈرامے میں جو کچھ نظر آتا ہے وہ ہماری زندگی نہیں ایک ڈرامہ ہے۔۔ ڈرامہ

Abdul Waris Sajid
About the Author: Abdul Waris Sajid Read More Articles by Abdul Waris Sajid: 53 Articles with 51903 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.