پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے .. ایک دفعہ شیطان نے
بچوں کو دھوکہ دینے کیلئے خود کو گدھا بنا لیا..کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس
نے جوانوں ، بوڑھوں اور عورتوں کو دھوکہ دیدیا ہے اب بچوں کو دھوکہ دونگا
تو اس نے اپنے آپ کو گدھا بنا لیا.اور بچوں کے سامنے آگیا .. بچوں کے پاس
اور کچھ تھا تو نہیں انہوں نے اسے سواری سمجھ لیا، بہت سارے بچے گدھے پر
سوار ہوگئے جن بچوں کو جگہ نہیں ملی انہوں نے اس گدھے کے کانوں سے جھول کر
سواری کے مزے لینے شروع کردئیے پھر بھی کچھ بچے رہ گئے.تو ان بچوں نے ایک
اٹھائی اور گدھے کے حساس مقام میں گھسیڑ دی اور سارے رہ جانیوالے بچے اس
لکڑی پر بیٹھ کر گدھے کی سواری کا مزہ لینے لگے. پھر جو بچے رہ گئے انہوں
نے پیچھے سے گدھے کو لاتیں مارنا شروع کردیں اور پھر شیطان... بچوں کی ان
شرارتوں سے تنگ آکر توبہ کرتے ہوئے بھاگ گیا اور کہا کہ آئندہ بچوں کے ساتھ
ایسا کچھ نہیں کرونگا.
کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام کے ساتھ تبدیلی کے
نام پر آنیوالے حکمران کررہے ہیں ایک طرف بیانات دیتے ہیں کہ نوجوانوں کی
بڑی تعداد اعلی تعلیمی اداروں کی طرف نہیں آتی اور اعلی تعلیم کی طرف توجہ
نہیں دیتی لیکن دوسری طرف صورتحال ایسی بنائی جارہی ہے کہ نہ صرف متوسط
طبقے کے نوجوانوں کو بلکہ اس قوم کی طالبات کو بھی تعلیمی ادارو ںسے دور
رکھا جارہا ہے اور ایسے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں کہ مخصوص طبقے کے لوگ ہی
تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوں . سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سب
کچھ بین الاقوامی معیار کے نام پر کرنے کے دعوئے کئے جارہے ہیں .
ملک میں بی ایس کا نیا چار سالہ تعلیمی نظام لاگو کردیا گیا ہے جس کا
بنیادی مقصد تعلیمی معیار کو بہتر کرنا ہے، ساتھ میں یہ بھی بتایا جارہا ہے
کہ جب ہمارے نوجوان باہر جاتے ہیں تو انہیں بین الاقوامی تعلیمی ادارں میں
مطابقت نہیں ملتی کیونکہ دو سالہ پروگرام بی اے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے
ہیں. ویسے پاکستان سے تعلیم کیلئے باہر جانیوالوں کی تعداد کتنی ہے اور
کونسا طبقہ تعلیم کیلئے باہر جارہا ہے اور ان کی تعداد ہی کتنی ہے. لیکن
خیر.
بی ایس کے نئے چار سالہ پروگرام میں تعلیمی اداروں کیلئے یہ سلسلہ شروع
کردیا گیا ہے کہ اب کوئی پرائیویٹ بی ایس نہیں کرسکے گا ، بی ایس کیلئے آپ
کو لازما تعلیمی اداروں میں کلاسز اٹینڈ کرنی پڑیں گی. میں پورے ملک کی بات
تو نہیں کررہا لیکن خیبر پختونخوا کے مخصوص طرز معاشرت اور غربت کی وجہ سے
یہاں پر میٹرک تک تعلیم حاصل کرنیوالے طلباء و طالبات کی بڑی تعداد روزگار
کی جانب نکل جاتی ہے اور کام کیساتھ ساتھ شام کی کلاسز میں پرائیویٹ تعلیم
حاصل کرتی ہے، اس وقت بھی بڑی تعداد میں ایسے اداروں میں ایسے افراد موجود
ہیں جنہوں نے ریگولر میٹرک کیا اور بعد میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے بی
اے اور ماسٹر تک تعلیم حاصل کی ان میں بیشتر آج اعلی مقام پر ہیں اور ملک و
قوم کی خدمت کررہے ہیں .
لیکن خیبر پختونخوا کے نظام تعلیم میں تبدیلی غریب عوام سے اعلی تعلیم کا
حصول بھی چھیننے لگی ہے,, جہاں محکمہ اعلی تعلیم نے یونیورسٹیوں میں چار
سالہ بی ایس پروگرام تو متعارف کرا دیا لیکن یہ نظام غریب طلبہ کے حصول
تعلیم کے خواب کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بننے لگا ہے۔۔ معاملے پر ماہرین
تعلیم کی رائے بھی نئے نظام کیخلاف ہے۔ جن کے مطابق محکمہ ہائیر ایجوکیشن
نے تو چار سالہ بی ایس پروگرام متعارف کروا دیا تاہم تعلیمی ادارے تاحال
انفرسٹرکچر تیار نہ کر سکے۔ جس سے تعلیمی معیار بہتر ہونے کے بجائے خرابی
کی جانب گامزن ہے .سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال 2009ء میں صرف جامعہ
پشاور میں ریگولر اور پرائیویٹ طلبہ کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی جو اب 30 ہزار
کے قریب رہ گئی ہے جو یونیوسٹی کے مالی بحران کی وجوہات میں شامل ہے۔
صوبائی حکومت کی طرف سے جاری سرکاری معلومات کے مطابق آئندہ سال سے خیبر
پختونخوا کی جامعات میں چار سالہ بی ایس پروگرام کے علاوہ کوئی طالبعلم
پرائیویٹ ڈگری حاصل نہیں کر سکے گا جس کے تحت چار ہزار میں ڈگری حاصل
کرنیوالے طالبعلم کو بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے اب 3 لاکھ روپے دینے
ہونگے.
اب ایسی صورتحال میں جب سرکاری یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں اور
انہیں اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے فیسوں میں اضافے کیلئے کوئی اور راستہ
نہیں مل رہا، صوبائی حکومت نے پرائیویٹ تعلیم پر بھی پابندی عائد کردی ہے
حالانکہ انہی پرائیویٹ طلباء و طالبات سے صرف پشاور یونیورسٹی کو پرائیویٹ
بی اے اور ایم اے کے امتحانات سے چار سو ملین روپے ملتے تھے جو نہ صرف
ڈیپارٹمنٹ کے اخراجات نکالتے تھے بلکہ غریب طلباء و طالبات کو فیس معافی
اور سکالرشپ بھی مل جایا کرتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ منقطع کردیا گیا ہے، نہ
پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنیوالے ہونگے اور نہ ہی رقم آئیگی ..
جب صرف پشاور یونیورسٹی میں ایک لاکھ تیس ہزار روپے طلباء و طالبات کم ہو
جائیں گے تو پھر اس ملک کی دیگر یونیورسٹیوں کا حال کیا ہوگا؟ یہ وہ سوال
ہے جو ارباب اختیار کے سوچنے کق ہے. ٹھیک ہے اگر آپ نے بی اے کی جگہ بی ایس
کا چار سالہ پروگرام ہی کرنا ہے تو پھر اس میں پرائیویٹ طلباء کو شامل کریں
ورنہ اس کا نقصان طلباء کو تو ہوگا ہی لیکن سب سے زیادہ نقصان طالبات کا
ہوگا جو معاشرتی مجبوریوں یا گھریلو حالات کے پیش نظر گھروں میں تعلیم کی
تیاری کرتی ہیں اور پھر پرائیویٹ امتحان دیکرڈگریاں حاصل کرتی ہیں اب اگر
ان کا راستہ بھی بند کردیا گیا اورفیسیں بھی چار ہزار پانچ ہزار کے بجائے
ساٹھ اور ستر ہزار روپے کردیں .. تو پھر..
تبدیلی والے حکمرانو. خدا کیلئے اس قوم نے خود کو گدھا بنا کر آپ کے سامنے
پیش تو کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ وہی بچوں اور شیطان والا کھیل نہ کھیلیں..
ہمارے ایک استاد محترم فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو ایک سوراخ سے دوسری
مرتبہ نہیںڈسا جا سکتا لیکن وہ کہتے تھے چونکہ تم لوگ مومن تو ہو نہیں ساتھ
میں ایک گالی بھی پڑتی تھی اور پھر کہتے کہ اگر دوسری مرتبہ غلطی کی تو
پھر.. وہ وہی گالی دیتے .اس لئے ..دوبارہ سوچنا بھی مت کہ کوئی امپائر
انگلی اٹھائے گا. کیونکہ اس ملک کے عوام کا وہ حال کردیا گیاہے کہ اب اگر
کوئی امپائر انگلی کیا ہاتھ بھی اٹھائے گا تو حالات خراب ہونگے..
|