ایک دن میں میلان اٹلی سے میں پروگرام کے بعد صبح کی
فلائٹ سے واپس پورٹو پُرتگال اپنے آفس پہنچی، طویل سفر کی وجہ سے تھکی ہوئی
تھی اور مجھے صبح کی یہ میٹنگز بہت ناگوار گزرتی تھیں۔ میں اپنے آفس کی ہیڈ
تھی۔ مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑنا چاہئیے تھا کہ کون کیا بول رہا ہے۔ لیکن
مجھے اب عادت ہو چکی تھی کہ سب ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوتے تھے اور
ہمارے آفس کی سیاستوں میں ہی آدھا وقت ضائع ہو جاتا تھا۔ میں ان لوگوں کی
ان حرکتوں سے بہت تنگ تھی۔ بیٹھ کر سنتی رہتی تھی۔وہ آپس میں اَن پڑھ لوگوں
کی طرح جڑیں کاٹنے والی بے مقصد باتیں کرتے رہتے تھے۔
سب کو یہ فکر لگی ہوتی تھی کہ میں یہ سمجھوں کہ وہ بہت دیانت دار اور محنتی
ہیں اور باقی سب تو مفت کی روٹیاں توڑنے آفس آتے ہیں۔ اصل میں سالوں سے یہی
ہو رہا تھا، یہ سب ایک دوسرے پر تنقید کرتےرہتے تھے اور میں دل میں سوچتی
رہتی تھی کہ اگر یہ سب صرف کام کی بات کریں اور ایک دوسرے پر بے فضول توجہ
دینا چھوڑ دیں تو میرا آفس کتنی اچھی جگہ بن سکتا تھا۔ ہماری کمپنی بہت بڑی
اور کامیاب تھی، مجھے پیسوں کا کوئی مسئلہ کبھی نہیں ہوا لیکن میں ان کی
دلی ناسوروں اور سیاستوں سے بہت تنگ تھی۔
خیر کسی طرح آج کی میٹنگ کا بھی آغاز ہوا۔ مجھے ساتھ ساتھ کچھ عجیب سی آوز
مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ میں سمجھی کہ شاید میں تھکی ہوئی ہوں تومیرے دماغ
میں ابھی بھی جہاز کی آواز چل رہی ہے۔ میں نے تھوڑا سا غور کیا تو میں
فوراً سمجھ گئی کہ یہ کسی جہاز کی آواز نہیں تھی۔ میں میٹنگ میں جس آدمی کو
بھی دیکھتی تھی، مجھے اس کی سوچ بھی سنائی دے رہی تھی۔ میں بہت حیران ہو
گئی کہ مجھ میں ایسی قوت کہاں سے آگئی۔ میں نے پہلے سیلینا کی بات سنی، وہ
بول کچھ اور رہی تھی اور اس کی سوچ اس کے بالکل برعکس تھی۔
میں بہت خوش ہوئی کہ میں ان کے دل کا حال جان سکتی ہوں۔ میں نے اس کی بات
سن کر اس کا جواب دینے کے بجائے، اس کی سوچ کا جواب دیا کہ اچھا دراصل تم
یہ کہنا چاہ رہی ہو؟ وہ بہت حیران ہوئی اور تھوڑی سی شرمندہ بھی ہو گئی کہ
شاید اس کی کسی بات سے مجھے اس کی سوچ کی سمجھ لگ گئی ہے۔ اس نے بولا: جی
میڈم یہی بات ہے۔ پھر پیڈرو بولا کہ میڈم ایسے کیوں نہ کر لیں؟ اس کی سوچ
سنی تو بالکل اس کی الٹ اس کے دماغ میں تھی۔ میں نے تھوڑا سا سوچا اور مجھے
لگا کہ اس کی کریزی سکیم بہت شاندار تھی۔ میں نے کہا کہ پیڈرو میری بات سنو
اس کے بجائے ہم ایسے کیوں نہیں کر لیتے؟ میں نے اس کی سوچ کا سرپھرا پلان
اس کو سنایا۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مجھے دیکھ رہا تھا۔
مجھے ہنسی آرہی تھی۔ وہ بولا میڈم زبردست، بالکل بالکل ایسے بھی کر سکتے
ہیں۔ اسی طرح میٹنگ میں شامل پندرہ لوگوں کی سوچ سن سن کر ہم نے سارے فیصلے
آپس میں متفق ہو کر کر لئے۔ پہلی بار میٹنگ میں کسی کا موڈ خراب نہیں ہوا
اور نہ کسی نے کسی دوسرے پر کوئی تنقید کی۔ جب میں میٹنگ ہال سے باہر نکلی
تو مجھے ان سب کی سوچ سنائی دے رہی تھی۔ ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ آج کی
میٹنگ سب سے زبردست رہی اور ہر کام بہت اعلی طریقے سے انجام دیا جا سکتا
ہے۔ آج کی سب سے اچھی میٹنگ تھی۔ میں بہت پر سکون ہو کر ہال سے نکل رہی
تھی۔
حاصل سبق صاف ہے، ہم سب اپنی اصل سوچ کو ظاہر کرنے سے ڈرتے ہیں کہ لوگ کیا
کہیں گے؟ ڈرنے کا کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلا۔ ہر انسان کی سوچ ایک
دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور یہ قدرت کا نظام ہے۔ اس نے سب پیمانوں
میں جدا جدا رنگ ڈالے ہیں۔ جیسے نیلسن منڈیلا کہتا تھا کہ اگر ہم ایک دوسرے
کے اختلافات کا مثبت استعمال کریں، اپنے فرق فرق ہونے پر لڑنے کے بجائے اس
سے سیکھیں، تو دنیا بہت ترقی کر سکتی ہے۔ گورا کالے کو بہت کچھ سکھا سکتا
ہے اور کالا گورے کو۔ اسی طرح ایک مسلمان ایک عیسائی کو اور ایک عیسائی
یہودی کو۔
ہم لڑتے رہتے ہیں کہ میرا طریقہ ٹھیک ہے، کسی کا کوئی طریقہ ٹھیک ہونے کا
مطلب یہ کب سے ہو گیا کہ دوسرے کا طریقہ اگر مختلف ہے تو وہ غلط ہے۔ جس کو
جس طرح سے اپنا ہدف حاصل ہو سکتا ہے، وہ اس طرح سے کام کر لے۔ درست اور غلط
بھی انسانوں کی کم عقلی کا نتیجہ ہے۔ کوئی چیز درست اور غلط نہیں ہوتی۔ سب
کی اپنی اپنی سوچ ہے اور یہی سوچ ہمیں باقیوں سے مختلف بناتی ہے۔ انسان کو
اپنی سوچ قائم رکھنی چاہئیے اور ہم سب مختلف ہیں اور ایسے میں ہمارا ایک
دوسرے سے اختلاف رکھنا ایک فطری عمل ہے۔ ہم سب کو ایک دوسرے سے موجود
اختلافات سے سیکھنا چاہیے۔ ان پر لڑنا جھگڑنا اور یہ فیصلے کرتے پھرنا کہ
کون ٹھیک ہے اور کون غلط، یہ وقت کا ضیاع ہے۔
|