بادلوں اور پرندوں کی دسترس سے باہر38 ہزار فٹ کی بلندی
پر نیویارک سے لاہور جاتے ہوئے مسافروں پر اُچٹکتی نگاہ ڈالی تو اپنوں سے
ملنے کی خوشی اُن کے چہروں سے عیاں تھی۔ میں ہزاروں ڈالرز کا نقصان اُٹھانے
کے بعد اپنی بچی کچھی جمع پونجی کو سمیٹے سرشاری سے بھرپور نشے کی حالت میں
تھا۔
"وہ کون سی پاک کتاب ہے جسے خدائے زوالجلال نے جیسے اُتارا وہ آج بھی اسی
حالت میں موجود ہے" سوال کرنے والے کے چہرے پر بے چینی و اضطراری کھلی کتاب
کے اوراق کی مانند بے ترتیبی اور الجھن کا اظہار کر رہی تھی۔پیشانی پہ پڑیں
گہری سلوٹیں دنیا سے اُس کی بیزاری کی چغلی کر رہی تھیں۔ میرے چہرے پر ایک
لمحے کے لئے حیرانگی نے ایک تاثر ابھارا ۔ اس کی بیوی کے بقول (جو میرے گیس
سٹیشن و سٹور پر ملازم تھی) وہ توایک نفسیاتی مریض تھا جسے ڈاکٹر کی تجویز
کردہ میڈیسن نے شانت رکھا ہوا ہے ۔
سوال پوچھنے والے گورے نوجوان کو میں نے بتایا کہ وہ قرآن پاک ہےجو نازل
ہونے کے بعد سے اب تک خالق کائنات کی عظمت کی گواہی دیتا ہے اور وہ حرف بہ
حرف اپنی اصل حالت میں ہے۔ اتنا سن کر وہ خاموشی سے سٹور سےباہر نکل گیا۔
ایک ہفتہ بعد وہی گورا نوجوان پٹرول ڈلوانے کے بعد ایک بار پھر اندر آیا
اور پھروہی سوال دہرایا !
اسے ایسی کتاب کی تلاش کیوں جس کے ایک ایک لفظ سے سچائی چھلکتی ہو۔ وہ اپنے
باپ سے سوال کرتا کہ میں کون ہوں، کیا ہوں۔تو وہ دوسری بیوی اور اس کے پہلے
بچوں کے معاملات میں الجھنے کی وجہ سے اسے اپنی پہلی غلطی کی سزا نظر
آتا۔نوجوان گورے کی پہلی بیوی دوسرے شوہر کے ساتھ رہنے لگی تو پہلی بچی بھی
ساتھ لے گئی اور اس کی دوسری بیوی اپنی بچی پر صرف اپنا حق سمجھتی۔ہمسائے
اس سے نالاں ، دوست اس سے کنارہ کرتے۔پادریوں سے سوال کرتا تو وہ اسے ذہنی
مریض سمجھ کر بے اعتناعی برتتے۔مذہب میں اسے پناہ نہ ملتی۔ وہ الجھتا چلا
گیا۔نشہ کی بجائے وہ دوا کے سہارے کا محتاج ہو گیا۔ جس سے خیالات کچھ دیر
کے لئے سستا لیتے۔جیسے ہی دوا کا اثر ختم ہوتا بے رحم سوال اسے اپنی گرفت
سے نکلنے نہ دیتے۔
انسان جواز کا طالب ہے اور وجود اس کا مطلوب۔منزل پر اس کی نظر ہے ، کوشش
پر یقین نہیں۔سچ جانتا ہے لیکن حق کا طالب نہیں۔قرآن کو الہامی مانتا ہے ،
سچ کو جانتا ہے لیکن جزب سے محروم رہتا ہے۔اللہ تبارک تعالی اپنی چاہ رکھنے
والے کو ناقابل یقین کرامت دکھاتا ہے۔ جس پر گزری ہو اور جس کی آنکھوں نے
وہ منظر دیکھا ہو وہ کیونکر رحمتوں سے انکاری ہوں۔ اللہ تبارک تعالی ان کے
لئے راستے بنا دیتا ہے جو اُس کی راہ تکتے ہیں۔
گورے عیسائی نوجوان کو میں نے فطرت کا حسن کائنات کے جلوے سے سمجھایا کہ
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اُس کی تخلیق اور نشانیوں پر غور کیوں نہیں کرتے۔
سمجھ والے ، علم والے اور ایمان والے کہہ کر انہیں درجہ بندی میں شمار کرتا
ہے۔ دنیا کی چاہ جتنا بڑھے گی محبت جاہ اتنی ہی شدت سے مٹی کے انسان سے
تکبر کا نشان بنا دیتی ہے۔پھل پھول اشجار کے ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے
ہیں۔ مٹی سے پنپ کر مہک خوشبو اور لذت سے لبریز حسن بے مثال ہوتے ہیں لیکن
مٹی کا ذائقہ نہیں رکھتے۔
فطرت کا حسن الفاظ میں ڈھل کر اس کی رگوں میں لہو بن کر دوڑنے لگا تھا۔ میں
ایک لمحے کے لئے سہم گیا جب اُس نے کہا کہ رب زوالجلال کا ذکر سننے سے اُس
کے اندر کچھ ایسا ہو رہا ہے جیسے خون کی گردش میں کچھ شامل ہو گیا ہو۔وہ
مسرور تھا کیونکہ اسے اچھا محسوس ہو رہا تھا۔
اللہ اپنی طرف آنے والوں کی طرف ایسے رجوع کرتا ہے ۔ میں خاموشی سے طالب
چاہ کو دیکھ رہا تھا اور عالم جاہ وجلال تھا۔ اطمینان اور سکون کی ٹھنڈک اس
کے جلتے وجود پر قطرہ قطرہ خون میں شامل ہو کر پھولوں کی طرح نکھررہی تھی۔
وہ مہک رہا تھا۔آنکھوں کی چمک قلب کے حاوی ہونے کا سندیشہ دے رہی تھی۔دو
گھنٹے کی نشست میں عشق کی ایسی انتہا دیکھی جس کا میرا قلم احاطہ کرنے کے
قابل نہیں۔ وہ میری زندگی کے ایسے لمحات تھے جب میرا وجود مٹی کے ایک زرہ
سے بھی کمتر حیثیت کا حامل تھا۔ شان زوالجلال عظمتوں کے میناروں پر کھڑی
تھی اور میں لفظوں میں سجدہ ریز تھا۔ ایسا لمحہ جب پوسٹ مین عاشق کو محبوب
کا خط سنا رہا تھا۔
آن لائن انگلش قرآن کے بارے میں اسے گائیڈ کرنے کے بعد میں کئی دن بھرپور
نشے میں مبتلا رہا۔ مگر پندرہ روز بعد جو منظر میری آنکھوں نے دیکھا اسے
بیان کرنا میرے بس سے باہر ہے۔ شاعروں نے چودھویں کے چاند پر زمین و آسمان
کے قلابے ملائے لیکن دیکھنے میں جو نشہ ہے پڑھنے سے ممکن نہیں۔
میرا ہاتھ پکڑ کر تھینک یو کہہ کر اپنے چہرے کی طرف غور کرنے کا کہا۔ یہ تو
وہ شخص ہی نہیں تھا جو پندرہ روز پہلے مجھے ملا تھا ۔ پریشان چہرہ، عجیب سی
نظریں اور پیشانی پر بے شمار سلوٹیں۔ چودھویں کے چاند کی مانند چمکتا دمکتا
چہرہ اور سلوٹوں سے پاک۔ میں کھلی آنکھوں سے بس اسے تک رہا تھا اور وہ بولے
جا رہا تھا۔ قرآن کا مفہوم چند دنوں میں اس کی روح کو سیراب کر گیا۔اللہ
تبارک تعالی سے قرب کی داستان تھی جو وہ سنا رہا تھا کہ بیس سال سے اس کی
پیشانی پر سلوٹیں دو ہفتوں میں مکمل طور پر ختم ہو چکی تھیں جیسے کبھی تھی
ہی نہیں۔ روشن چہرہ اطمینان قلب سے بھرا ہشاش بشاش ایک عیسائی گورا نوجوان
جو خدا کی سچی کتاب کی تلاش میں نکلا تو سچ حقیقت بن کر اس میں سما گیا۔ اس
نئے انسان کے بدلے ہوئے رویئے اور کردار نے اس کی بیوی اور محلے داروں کو
حیران و پریشان کر دیا۔اس کا ایک محلے دار جومیرے پاس کام کرتا تھا ، ایک
دن کہنے لگا کہ اسے کوئی اچھا ڈاکٹر مل گیا ہے اور اس کی دوائی سے اسے بہت
فرق پڑا ہے۔ بہت خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے تمام لوگوں سے ملتا ہے۔
نسخہ تو اسے ایسا شاندار ملا تھا جس میں اس کے درد کی دوا تھی اور
پریشانیوں کا مداوا۔
چند سال بعد میرے دوست کے بیٹے نے (جن کا گیس سٹیشن میرے قریب ہی تھا )
مجھے بتایا کہ آپ کے جانے کے بعد وہ ہمارے پاس آیا اور آپ کے بارے میں
پوچھا تو میں نے اسے بتا یا کہ آپ پاکستان واپس چلے گئے ہیں اور اس کی
خواہش پر قرآن پاک انگلش ٹرانسلیشن کے ساتھ منگوا کر اسے دے دیا تھا۔ اللہ
تبارک تعالی کے سچے کلام کی شدت چاہ جتنی اس گورے نوجوان میں دیکھی، ابھی
تک کسی اور میں نہیں دیکھی میں نے۔ |