گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرارایسوسی ایشن کا اعلامیہ
اور پریس نوٹ
*بیورکریسی وزیراعلیٰ کے احکامات پس پشت ڈال کر پروفیسروں کے ساتھ ظلم نہ
کرے۔پروفیسرایسوسی ایشن*
گلگت(امیرجان حقانی سے) گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کی
تحریک پر ضلع گلگت کے پانچ کالجز کے فیکلٹی ممبران نے گورنمنٹ فاطمہ جناح
ڈگری کالج سے وزیراعلیٰ ہاوس تک احتجاجی ریلی نکالی۔ احتجاجی ریلی میں
گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج مناور گلگت، گورنمنٹ گرلز فاطمہ جناح کالج گلگت،
گورنمنٹ بوائزڈاگری کالج دنیور، گورنمنٹ گرلز رتھ فاو کالج سطان آباد گلگت
اور گورنمنٹ انٹرکالج بسین گلگت کے تمام فیکلٹی ممبران نے شرکت
کی۔پروفیسروں کی یہ پرامن ریلی ہاتھوں میں احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ
تھامے ہوئے فاطمہ جناح وومن کالج سے وزیراعلیٰ ہاوس تک پہنچی اور وزیراعلی
ہاوس کے سامنے گلگت بلتستان پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ارشاد احمد
شاہ ،جنرل سیکریٹری پروفیسر محمد رفیع، پروفیسر حسن بانو اور پروفیسر لال
بانو نے خطاب کیا اور اپنے مطالبات دہرائے۔
احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر ارشاداحمد شاہ
نے کہا کہ وزیراعلی، وزیر قانون اور سیکریٹروں کا متفقہ وعدہ اور معاہدہ کے
باجود پروفیسروں کا ایک بھی مسئلہ حل نہ ہونا افسوسناک ہے ۔گزشتہ کئی سالوں
سے پروفیسر ایسوسی ایشن چیف سیکریٹری، سیکریٹری تعلیم سمیت متعلقہ اداروں
کو تحریری طور پر بار بار گزارش کرچکی ہے کہ پروفیسروں کے جائز اور بنیادی
مطالبات حل کریں لیکن کسی نے کان نہیں دھرے۔ نومبر 2019 کو ایسوسی ایشن نے
مجبورا ہڑتال کی کال دی جس میں ٹوکن اسٹرائک کے بعد پورے جی بی کے کالجز
میں تدریسی عمل معطل ہوا،وزیراعلی گلگت بلتستان نے پروفیسروں کے وفد کو
ملاقات کے لیے مدعو کیا۔اور وعدہ کیا کہ ہائرٹائم سیکیل پروموشن اور
ریوائزڈ فورٹائر دونوں فوری طور پر منظور کیے اور بہت جلد نوٹیفیکیشن
نکالنے کا وعدہ کرتے ہوئے بیوروکریسی کو احکامات بھی جاری کیے مگر
بیوروکریسی نے بار بار دھوکہ دیا،تاخیری حربے استعمال کیے اور پروفیسروں کو
زدکوب کرنے کی کوشش کی۔پروفیسروں کو بیوقوف اور شودر سمجھنے کا عملی مظاہر
ہ کیالیکن انہیں یاد ہونا چاہیے کہ ہمیں پروفیسری پر فخر ہے۔ہماری اطلاعات
کے مطابق وزیراعلیٰ نے سیکریٹری تعلیم کو اپنے ہاوس میں بلا کر ہائرٹائم
سیکیل پروموشن کا نوٹیفکیشن فوری طور پر نکالنے کا حکم صادر کیاور فائنانس
سیکریٹری کو بھی کہا کہ جب پروفیسروں نے تمام ضروری ڈاکومنٹس جو وفاق اور
دیگر صوبوں میں ہوچکے ہیں ،کو اپنی فائل کے ساتھ منسلک کرکے کیس بناکر
بھیجا ہے تو خوامخواہ لیٹ کرنا اور اساتذہ کو ڈسٹرب کرنا غیرضروری ہے مگر
بیوروکریسی مسلسل ٹرخاو پالیسی پر عمل پیرا ہے اور چار ماہ سے مسلسل تاخیری
حربے استعمال کررہی ہے۔ہم نے بھی اتفاق رائے سے عزم کیا ہے کہ جب تک
نوٹیفیکیشن نہیں نکلتا سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔پروفیسروں کی برادری اپنے
مطالبات پر اتفاق رائے رکھتی ہے اس لیے اس برادری کے سامنے بیوروکریسی کو
ڈھیر ہونا پڑے گا۔ چیف سیکریٹری کو اپنے سیکریٹروں کے ان تاخیری حربوں کا
نوٹس لینا چاہیے۔بیورکریسی کا رویہ پروفیسروں کے ساتھ انتہائی ظلم و زیادتی
پر مشتمل ہے۔اپنے مراعات لینے کی بات ہو تو راتوں رات بیوروکریسی کے لوگ
نوٹیفیکشن نکالتے ہیں لیکن پروفیسروں کی بات ہو تو ہزار بہانے بناتے
ہیں۔صدر ارشاد احمد شاہ نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم تعلیم و تدریس جیسے
عظیم شعبے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ہم سے ہی تعلیم حاصل کرکے ایک آفیسر بن کر
لیکچراروں اور پروفیسروں کو شودر سمجھنا چھوڑ دیں۔میں بیوروکریسی کو تنبیہ
کرتا ہوں کہ اپنا قبلہ درست کریں اور وزیراعلی کی ڈائریکشن کے مطابق ہمارے
بنیادی حقوق اور مطالبات جو دیگر صوبوں اور وفاق میں مل چکے ہیں کا
نوٹیفیکیشن نکال لیں۔بیوروکریسی کے یہ تاخیری حربے کسی صورت قبول نہیں اور
صوبے کے منتظم اعلی کو بے بس بنانے اور احکامات نہ ماننے سے معاشرے میں
انارکی پھیلنے کا امکان ہے جو بہر حال قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ہم امید
کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ ہنگامی طور پر ایکشن لے کربیوروکریسی کو فوری طور پر
ہائرٹائم سکیل پروموشن کا نوٹیفیکیشن نکالنے پر مجبور کریں گے۔
پروفیسر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری پروفیسر محمد رفیع نے وزیراعلی ہاوس
کے سامنے احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایجوکیشن سیکریٹریٹ اور
ڈائریکٹریٹ کی نااہلی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ ایک آفیشل لیٹر کو
ویریفائی کرانے کے لیے تین ماہ لگادیا، تین ماہ بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے
لیٹر ہی غلط ایڈرس پر ارسال کیا ہے۔یہ لیٹر ہم بیوروکریسی اور ایجوکیشن
ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داروں کو پہلے سے دے چکے ہیں۔پروفیسراحتجاج کرنا نہیں
چاہتے مگر بیوروکریسی مجبور کرتی ہے تو مرد اور خواتین مل کر روڈ پر
احتجاجی ریلی نکالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اگر بیورکریسی نے مزید ڈسٹرب کیا
تو احتجاج کو انتہائی سخت بنالیا جائے گا ۔جس سے ہزاروں طلبہ و طالبات کا
تعلیمی نقصان ہوگا۔اور تمام تر ذمہ داری انتظامیہ کی ہوگی۔
احتجاجی ریلی میں خواتین پروفیسراور لیکچرار ز نے بھی بھرپور شرکت
کی۔پروفیسر حسن بانو نے وزیراعلی ہاوس کے سامنے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ ہم وزیراعلیٰ اور بیوروکریسی سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ دونوں
بنیادی مطالبات منظور کرکے نوٹیفیکیشن جاری کریں تاکہ پروفیسروں میں پایا
جانے والا اضطراب ختم ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مردہ معاشروں اور ناکام
نظام حکومتوں میں استادوں کے لیے ایسی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ زندہ
معاشرے اور قومیں ، اپنے معمارانِ قوم کے ساتھ ایسا نہیں کرتیں۔ انتہائی
مجبوری کے عالم میں میل پروفیسروں کے ساتھ فی میل پروفیسرز بھی روڈ پر نکل
رہی ہیں ۔اگر کوئی بیوروکریسی سے تعلق رکھنے اور نوٹیفیکیشن کی راہ میں
روڑے اٹکانے والے آفیسریہ سن رہے ہیں تو انہیں احساس ہونا چاہیے کہ مائیں
بہنیں اپنے جائز حق کے لیے ریلی میں شامل ہیں۔ باضمیر نمائندوں اور آفیسرز
کو اس سے زیادہ کیا کہا جائے کہ وہ استاد جیسے عظیم پیشے سے تعلق رکھنے
والے میل اور فی میل کو احتجاجی ریلی نکالنے پر مجبور کررہے ہیں۔پروفیسر
لال بانو نے کہا کہ کئی سالوں سے ہم جدوجہد کررہے ہیں ، ہر ایک سے تحریری
درخواست کررہے ہیں مگر کوئی بھی ایک دو بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے بھی
تیار نہیں جو قابل مذمت بھی ہے اور افسوسناک بھی ہیں۔ہم تمام خواتین
پروفیسرز کی طرف سے وزیراعلیٰ ، چیف سیکریٹری اور سیکریٹری صاحبان سے گزارش
کرتے ہیں کہ فوری طور پر ہائرٹائم سیکیل پروموشن کا نوٹیفیکیشن نکال کر اس
کشیدگی کا خاتمہ کریں تاکہ ہم یکسوئی سے تعلیم و تربیت کا پروسیجر مکمل
کرسکیں اور طلبہ و طالبات کا فائدہ ہو۔احتجاجی ریلی کے آخر میں صدر ارشاد
احمد نے مزید کہا کہ پروفیسرایسوسی ایشن اپنے مطالبات کے حوالے سے سول
سوسائٹی، صحافی براداری اور سوشل ایکٹوسٹ باخبر کرکے انہیں بھی ایکٹیو کرے
گی اور اپنی محروموں کے ازالے کے لیے معاونت کی درخواست کرے گی۔صحافی
براداری اور تمام اخبارات نے ہمیشہ سے پروفیسروں کے مطالبات اور مسائل کو
اعلی حکام تک پہنچایا ہے جس پر پوری برادری ان کا ممنون و مشکور
ہے۔وزیراعلی ، وزیرتعلیم اور بیوروکریسی نے کالجز اور ان کے اساتذہ کو
مسلسل محروم اور نظرانداز کیا ہوا ہے۔اس کی کیا وجوہات ہیں سمجھ سے بالا تر
ہیں لیکن یہ طرز عمل انتہائی مایوس کن، غیرذمہ دارانہ اور سوتیلی ماں والا
ہے جو بہرحال قابل مذمت ہے۔گورنر، چیف جسٹس ، فورس کمانڈر اورچیف سیکریٹری
کوبھی ایکشن لینا چاہیے۔
پروفیسرایسوسی ایشن اور فیکلٹی ممبران نے متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا جس کے
مندرجات حسب ذیل ہیں۔
1۔ ہائرٹائم سیکیل پروموشن اور ریوائزڈ فور ٹائر کا فوری طور پر نوٹیفکیشن
2۔ 29فروری تک وزیراعلیٰ ہاوس اور پریس کلب تک ریلی
3۔ 2 مارچ سے پورے گلگت بلتستان کے کالجز میں کلاسوں کا بائیکاٹ
4۔ 2 مارچ کے بعد ہر ضلع کے مرکزی شاہرہ پر دھرنا اور پریس کلب میں پریس
کانفرنس
5۔ جب تک مطالبات کی منظوری کا نوٹیفیکشن نہیں نکلتا احتجاجی ریلی اور
دھرنا جاری رکھنا اور احتجاج کو مزید موثر بنانا
6۔ بیوروکریسی کے ناروا سلوک اور تاخیری حربوں کی مذمت اور بائیکاٹ اور
اپنا رویہ درست کرنے کی تنبیہ
7۔ ایجوکیشن سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ کی سستی اورنااہلی اور تاخیری حربوں
پر شدید غم و غصے کا اظہار
8۔ 29 فروری کے بعداحتجاج کو موثرترین بنانے اور پورے جی بی میں پھیلانے کی
نئی حکمت عملی بنانے کا اعلان
9۔ پروفیسرایسوسی ایشن اپنے مطالبات کے حوالے سے سول سوسائٹی، صحافی
براداری اورسماجی کارکنان کو ایکٹیو کرنا
10۔ پروفیسروں کیساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر گورنر، چیف جسٹس ، فورس
کمانڈر اور چیف سیکریٹری سے ایکشن لینے کی استدعا
مرتب:
امیرجان حقانی، سیکریٹری اطلاعات پروفیسر ایسوسی ایشن جی بی
|