وہ جو لاہور اور گرد و نواح کے تمام کھیت اور کھلیانوں کو
پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکیں،ان میں سے کچھ جدید بستیوں کے درمیاں یہ
چھوٹا سا گاؤں’’ اٹھو وال‘‘ ابھی اپنا آپ بچائے ہوئے ہے۔ اس گاؤں کو ارد
گرد بحریہ ٹاؤن، ڈریم گارڈن ، ایڈن پارک اور لاہور کا نیا جدید چڑیا گھر
لاہور سفاری پارک موجود ہیں۔آج سے کئی دہائیاں پہلے کچھ بلوچ یہاں آکر آباد
ہوئے اور یہیں کے ہوگئے۔ اس گاؤں کے زیادہ تر مکین انہی بلوچوں کی اولاد
ہیں۔ یہ لوگ کبھی کھیتی باڑی بھی کرتے تھے مگر شہروں کے پھیلاؤ نے انہیں
مال مویشی پالنے تک محدود کر دیا ہے۔ساری آبادی مزدور پیشہ لوگوں پر مشتمل
ہے۔ گو جدید آبادیوں کی یلغارنے وہاں بڑی تبدیلی کی ہے ، معاشی طور پر بھی
، سماجی طور پر بھی مگر ابھی تعلیم کم اور سادگی ، حماقتی دلیری یاکسی حد
تک جہالت اسی طرح موجود ہے۔
بلال اسی قبیلے کا ایک فرد تھا۔ وہ تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔وہ گھر میں
سب سے بڑا تھا۔ ایک چھوٹا بھائی کسی کے پاس کام کرتا ہے، بہنیں چھوٹی ہیں۔
ماں باپ ان پڑھ ہیں۔ بلال سولہ سترہ برس کا تھا۔ ان کا گھرگو چھوٹا سا ہے
مگر اپنا ہے۔تین چار گائے بھینسیں بھی ہیں۔باپ بیمار ہے کبھی کبھار کوئی
ہلکی پھلکی مزدوری کرلیتا ہے مگر غربت پوری طرح ان کے گھر میں پھرتی نظر
آتی ہے۔تین چار دن پہلے اپنی معاشی مجبوریوں کے سبب اس کی ماں اسے لے کر
ایک قریبی سکیم کے دفتر گئی کہ اس کو مالی بھرتی کرا دے۔ سکیم کے انچارج نے
اسے کہا کہ نوجوان ابھی چھوٹا ہے کوشش کروں گا ۔ ماں بضد تھی کہ اس کا
بیٹاا ٹھارہ سال کا ہے ، پوری طرح جوان ہے اور مشقت کرنے کے بھی پوری طرح
قابل ہے۔ بحث کے بعد طے پایا چند دن میں جگہ ہونے پر اسی عارضی ملازمین میں
وقتی طور پر رکھ لیا جائے گا۔ماں مایوس واپس آ گئی۔ اگلے دن وہ درانتی اور
چادر لے کر اپنی گائے بھینسوں کے لئے چارہ حاصل کرنے کھیتوں میں چلا گیا۔
مگر واپس نہیں آیا،گھر والے انتظار کرتے رہے مگر تین دن تک اس کا کچھ پتہ
نہیں چلا۔اگلے دن فون آیا کہ مالی کی نوکری کے لئے اسے بھیج دیں۔ ماں کیا
بتاتی کہ بیٹا دو دن سے لا پتہ ہے، بس انہیں کہہ دیا کہ وہ بیٹے کو بھیج
رہی ہے۔
بلال گھر سے چلا تو اس نے پہلے بہت سارے خالی پلاٹوں سے اگی ہوئی سبز سبز
گھاس کاٹی ، کچھ تازہ چارہ لیا۔ اب چارے میں ملانے کے لئے اسے خشک گھاس کی
ضرورت تھی۔وہ سفاری پارک آ گیا۔ سفاری پارک اور ایڈن پارک کے درمیان تقریباً
پندرہ فٹ چوڑی ایک پکی سڑک اس کے گاؤ ں تک آتی ہے۔ سڑک کے کنارے سفاری پارک
کے ارد گرد ایک لوہے کا جنگلہ ہے۔ پھر اس سے کوئی پندرہ بیس فٹ ہٹ کر ایک
دوسرا جنگلہ ہے جس کے اندر شیروں کو رکھا گیا ہے۔ لوہے کے دونوں جنگلوں کے
درمیان درختوں کا ایک گھنا جنگل ہے جہاں کچھ نہیں ہوتا۔یہ حفاظتی علاقہ
ہے۔بلال نے دیکھا ، شیروں کے پنجرے میں دور دور تک ہر طرف سوکھی گھاس ہی
گھاس تھی۔ شیروں کا یہ پنجرہ سفاری ضرورت کے مطابق کافی بڑی زمین پر ہے۔
سفاری کا پہلا جنگلہ عبور کرنا بہت آسان ہے۔ وہ بہت سی جگہوں سے ٹوٹا ہوا
ہے۔ سردیوں میں سارے علاقے کے لوگ رات بھر آسانی سے یہاں لکڑیاں کاٹتے اور
پھر اپنی گدھا گاڑیوں، سائیکلوں اور دیگر چیزوں پر لاد کر لے جاتے ہیں۔ رات
کو یہاں جرائم پیشہ لوگ بھی پناہ لئے ہوتے ہیں۔ اس پٹی کے گھنے جنگل میں
حالات ایسے ہیں کہ سفاری کے چند چوکیدار بھی رات کو وہاں سے گزرنے سے
گھبراتے ہیں۔ چند سال پہلے میں نے انچارج کو فون پرلکڑی چوری ہونے کی شکائت
کی تھی۔ وقتی طور پر تاروں کی مدد سے جنگلے کی مرمت کی گئی مگر پھر اسی طر
ح ،لوگوں کی گزر گاہ بحال تھی۔ لوہے کے جنگلے کی بجائے وہاں ایک پکی اور
اونچی دیوار کی ضرورت ہے۔
لوہے کا پہلا جنگلہ عبور کرنے کے بعد بلال نے سفاری پارک کے اندر دور تک
نظر ڈالی ۔ شیر بہت دور تھے۔وہ دلیری سے جنگلے پر چڑھا اور اندر چھلانگ لگا
دی۔اس نے چادر زمین پر بچھائی اور سوکھی گھاس کاٹ کر چادر پر رکھنے
لگا۔تیزی سے گھاس اکھٹی کرتے اسے پتہ ہی نہ چلا کہ شیر اس کے سر پر موجود
ہیں۔ شیروں کو اتنے قریب پا کر وہ تیزی سے بھاگا کہ کسی طرح لوہے کے جنگلے
کوپھلانگ جائے ۔ مگر افسوس شیروں نے اسے قابو کر لیا ۔ تین دن گزرنے کے بعد
پارک کا عملہ شیروں کو ان کے پنجرے میں بند کرنے کے بعد پارک کی صفائی میں
مصروف تھا جب انہوں نے بلال کی چادر جس پر سوکھی گھاس رکھی تھی، اس کی
درانتی، جنگلے اور چادر کے درمیانی جگہ پر پہلے ایک اور کچھ آگے دوسری چپل
، جنگلے کے قریب اس کے پھٹے کپڑے اور ارد گرد اس کے جسم کے بقایا جات دیکھے۔
سفاری کے بہت سے چھوٹے اہلکاروں کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔ انہیں بلال کی
گمشدگی کا پتہ تھا۔ اس کی چادر اور کپڑے پہچان لئے گئے اور یوں ایک غریب
خاندان کی امید، ان کا لاڈلا بیٹا ، کچھ اپنی کچھ کسی کی غفلت کی بھینٹ چڑھ
گیا۔
بلال کی موت میں گو اس کی اپنی غلطی کا بھی بہت عمل دخل ہے مگر ایسی غلطی
کے لئے سازگار حالات مہیا کرنے والے اس کے ذمہ دار کیوں نہیں۔اس کے ماں اور
باپ کس کے ہاتھ پہ اس کا لہو تلاش کریں کہ واقعی اس ملک میں ہر ذمہ دار نے
دستانے پہنے ہوئے ہیں بلکہ اس ملک میں عجیب رسم چلی ہے کہ حکومت میں ہونے
کے لئے دستانے پہننے بہت ضروری ہیں اور ہمارا دارالحکومت اسلام آباد تو
مکمل دستانوں کا شہر ہے ۔ عمران خان اپوزیشن میں ہوتے تو متعلقہ وزیر کے
استعفی کا مطالبہ کرتے اور چاہتے کہ کسی طرح اس غریب خاندان کی داد رسی کی
جائے۔ آج وہ خود اقتدار میں ہیں انہیں چائیے کہ اپنے متعلقہ وزیر سے استعفی
لیں اور جیسے بھی ممکن ہو اس خاندان کی داد رسی کریں۔ وہ جن کا جواں سال
بیٹا، ان کے بڑھاپے کا ا ٓسرا، گھر کاکفیل، اک حادثے کی بھینٹ چڑھ گیا ان
کی مالی امداد بھی کی جائے اور ایسے انتظامات کئے جائیں کہ آئندہ کو ئی
اندر پھلانگنے کی سوچ بھی نہ سکے۔ |