مفلسی کے آنگن میں غربت کا ناچ-دنیا ایک پل صراط"

غربت ہر دہلیز پر دم توڑ دیتی ہے , مفلسی کے آنگن میں ناچتی ہے ا ور اپنا مان رکھتے ہوۓ دم توڑ جاتی ہے ۔

اچھو افسردگی کے تاثر لیے دروازے کی طرف غور سے تک رہا تھا جیسے اسکی آنکھوں کو کسی کی آمد کا تجسس ہو , آنکھوں میں نمی اسکی آنکھوں کی چمک کو بڑھا رہی تھی ، الفاظ نے مُکھ موڑ لیا تھا , خاموشی نے دل کے ساز کو بڑھا دیا، لب جُمبِش کرنا بھول گئے تھے، اک سکتہ سا طاری ہو گیا جس کا علاج شاید درواز ے کی جانب سے ہونا تھا ۔
دستک ہوتی ہے ٹھک !ٹھک !
اچھو بھاگ کے دروازے کی طرف لپکتا ہے حسرت بھری نگاہیں لیئے دروازہ کھولتا ہے والد صاحب ! مسکراہٹ دم توڑ دیتی ہے، جوں ہی اسکی نگاہیں والد کے خالی ہاتھوں کی طرف پڑتی ہیں , خوشی نے جیسے خود کشی کر لی ہو، ناراضی کے تاثر ظاہر کرتے ہوۓ اچھو اپنے کمرے کی طرف بھاگ گیا، بس پھر ہونا کیا تھا والد صاحب پرشان اکلوتے بیٹے کی ناراضی والدین سے برداشت نہیں ہوئی۔
اسکی خواہشات کہاں سے پوری کریں والدہ کی آنکھوں میں نمی، ہم غریب لوگ!
جو مشکل سے اپنا گزارا کرتے ہیں وہ اپنے بیٹے کو سائیکل کہاں سے لا کر دیں؟
شوہر بیوی کو تکتے ہوۓ مگر شکیلہ اچھو نے اچانک یہ فرمائش کیوں کی ؟
آجی ! اچانک نہیں کی یہ پڑوس میں پپو، فضیلہ کا بیٹا کل اپنے والد کے ساتھ سائیکل لینے گیا تھا تو آتے وقت اپنی خوشی کا پرچار کر رہا تھا۔ بس ! تب ہی اسکے چھوٹے سے دل میں بھی ارمان جاگ اٹھا ۔
آہ ! یہ امیر لوگ کبھی غریبوں کو جینے نہیں دیں گے۔ عزت صرف انکی ہوتی ہے ؟ خواہشیں صرف انکے بچوں کی ہوتی ہیں ؟ انکی بیٹیاں ہی صرف نیک ہوتی ہیں ؟ تعلیم صرف انکے لیے ہوتی ہے ؟
ہماری زندگی ! ایک پل صراط کی طرح ہے ہم اپنی زندگی میں ہی پل صراط کی وضاحت جان گئے۔ کسے ہر موڑ پر غریب کا دامن چاک ہوتا ہے، وہ اپنے پَھٹے ہوۓ دامن کو جتنا بھی رفو کر لے کپڑا اسے ادھار لینا ہی پڑتا ہے۔ کپڑا لیتے لیتے جسم کو ڈھانپتے ڈھانپتے وہ کپڑے کا بھی مقروض بن جاتا ہے ۔
کسی کے گھر دکھ سکھ میں شرکت کےلیئے بھی اسے سوچ سمجھ کے جانا پڑتا ہے کیونکہ بدن کا کپڑا، آنکھوں میں افسردگی، مفلسی کی چادر اسے لوگوں کی نگاہ میں کم تر بنا دیتی ہے۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کے شاید یہ کچھ مانگنے آیا ہے_
پھر اگر کسی غریب پہ اللّه کا کرم ہو جائے اور بچیوں سے وہ نوازہ جائے تو اس کے خستہ حال پر لوگ جہیز کا تماچہ مارتے ہیں تاکے غریب کو اسکی مفلسی کی پوری پوری سزا ملے ۔
باپ ساری عمر اپنے ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے، اپنی خواہشوں کو قربان کر دیتا ہے، اپنی صحت سے سمجھوتا کر لیتا ہے , اپنے نام ور عزیزوں کے طعنے سن کر صبر کر لیتا ہے ۔ اسکی غربت کا تماشا غم اور خوشی مل کر مناتے ہیں , مفلسی غربت کے آنگن میں خوب ناچتی ہے , دھمال ڈالتی ہے ۔

Sadia Ijaz Hussain
About the Author: Sadia Ijaz Hussain Read More Articles by Sadia Ijaz Hussain: 21 Articles with 24690 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.